ملک کی خارجہ پالیسی آزادانہ اور صرف ملکی مفادات پر مبنی ہونا چاہئے،حکمران اور اپوزیشن جماعتیں قومی اسمبلی میں متفق ہوگئیں،آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ہمارے امریکہ سے کیا معاہدے ہیں اور ان کی کیا شرائط ہیں،ارکان کا اظہار تشویش،خارجہ پالیسی کے بارے میں حکومتی وضاحت مسترد،اپوزیشن کا شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنے کا مطالبہ

بدھ 26 فروری 2014 07:00

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26فروری۔2014ء)ملک کی حکمران اور اپوزیشن جماعتیں قومی اسمبلی میں اس بات پر متفق ہوگئیں کہ ملک کی خارجہ پالیسی آزادانہ اور صرف ملکی مفادات پر مبنی ہونا چاہئے اور اس امر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ہمارے امریکہ سے کیا معاہدے ہیں اور ان کی کیا شرائط ہیں اوراپو زیشن جماعتو ں نے خارجہ پالیسی کے بارے میں حکومتی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کیا جائے اس حوالہ سے غیرجانبدارانہ پالیسی پر عمل کیا جائے۔

منگل کو ایوان میں خارجہ پالیسی پر تحریک پیپلزپارٹی کی شاہدہ رحمانی نے پیش کی،بعدازاں اس پر بحث کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے شفقت محمودنے بحث کرتے ہوئے کہاکہ افغانستان اوروہاں سے فوج کے انخلاء پرفوج ایک صفحے پرہے ،ہمیں نہیں پتاکہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کس طرح کے ہیں ،بدقسمتی سے عالمی سطح پرپاکستان کے بارے میں تاثر زیادہ اچھانہیں ہے ،اس وقت ملک مشکلات میں مبتلاہے اورا س ضمن میں خارجہ پالیسی کوئی مددنہیں دے رہی ہے ،رکن قومی اسمبلی اویس لغاری نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ افغانستان کے ساتھ خارجہ پالیسی کیلئے ان کیمرہ اجلاس ہواجس میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طورپراپنی سفارشات حکومت کوبھجوائیں۔

(جاری ہے)

بھارت کے ساتھ بھی ہم نے جائزہ لیاہے اورپاکستان کی اپنی پالیسی کمزورہے ،لاء اینڈآرڈرکی وجہ سے بہت کمزورہیں ،پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ،پاکستان کواپنے مفادات کومدنظررکھتے ہوئے ان ممالک کے ساتھ تعلقات کوبڑھاناچاہئے ،پاکستان کے اندرفنڈنگ ہورہی ہے اس چیزپراپنے دوستی ملک اورممالک کویہ باورکراناضروری ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کی جنگ کوبندکرناچاہئے ،پاکستان کواپنے ریجنل پاورکوٹریڈ کراناچاہئے ،بھارت کے ساتھ ٹریڈکے ذریعے ایک پالیسی بناناچاہئے کہ کن ٹریڈمیں فائدہ ہوسکتاہے ،ایران ،افغانستان ،چین انڈیاکیساتھ جتنے اچھے تعلقات رکھیں گے اس کافائدہ ہوگا،انڈیاکیساتھ بہترتعلقات ن لیگ حکومت کاحصہ ہے ۔

ایم کیوایم کے ساجداحمدنے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ افغانستان ،چین ،ایران کے ساتھ ماضی میں بہت اچھے تعلقات تھے لیکن کمزورخارجہ پالیسیوں کی وجہ سے یہ ممالک دورسے دورتک ہوگئے ہیں ،پوری دنیامیں نئے نئے معاہدے ہورہے ہیں لیکن پاکستان نے افغانستان وارمیں روس کی لڑائی کی وجہ سے پاکستان اس کی لپیٹ میں آگیاہے اوراس وقت پوراملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہاہے ،روس اورامریکہ کی سردجنگ میں پاکستان نے امریکہ کاساتھ دیااورپوری دنیاکوغیر متوازن کرنے میں پاکستان اورجہادی تنظیموں کاہاتھ ہے،اس وقت سب کوایک نقطہ پرمتفق ہونے کی ضرورت ہے اوراپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کرایک اچھی خارجہ پالیسی بناسکتے ہیں ۔

جب کسی ملک کے اندراختلاف پیداہوجاتاہے توپھرغیروں کی نظربھی پاکستان کوتوڑنے پر ہے،فرقہ واریت کی لڑائی کوبندکیاجائے،یہ دہشتگردفنڈنگ کی وجہ سے بنے ہیں اوران دہشتگردوں کوختم کیاجائے کیونکہ جس طرح پرتعلیم اورامن کے دشمن اس طرح پاکستان کے بھی دشمن ہیں ،بحث میں حصہ لیتے ہوئے جمعیت علماء اسلام (ف)کے مولاناامیرزمان نے کہاکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بہترہوجائے تواندرونی معاملات میں بھی بہتری آجائے گی ،ان کیمرہ اجلاس فارن پالیسی پرکیاگیالیکن اس پرعملدرآمدنہیں کیاگیا،اس وقت خارجہ پالیسی کی وجہ سے نہ افغانستان ایران ،چین کیساتھ وہ تعلقات نہیں رہے جس طرح ماضی میں ہواکرتے تھے ،آج ہماری فورسزمشرقی بارڈرپرمامورہے جوکہ غلط خارجہ پالیسی کی وجہ سے کیونکہ افغانستان میں جانے کیلئے ایک وقت میں پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی لیکن آج وہاں پرپاکستانی سفارتخانہ پرحملہ کیاجاتاہے،خارجہ پالیسی پرنظرثانی کرناہوگی ،ملک میں شیعہ سنی بریلوی فسادات برپاکئے جارہے ہیں ،خارجہ پالیسی کوٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ،امن بنیادی ضرورت ہے۔

جماعت اسلامی کی رکن اسمبلی عائشہ سید نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں روس اور امریکہ کی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان ہم نے اٹھایا ہے اور سب سے زیادہ فائدہ بھی بھارت کی بجائے پاکستان کو ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور چین کے ساتھ ہمیں اپنے تعلقات کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت دیگر مسائل کو حل کرکے معاملات کو آگے بڑھایا جائے گا۔

پیپلز پارٹی کی رکن نفیسہ شاہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دھرانا چاہیے۔سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے رہنے چاہئیں مگر اگر سعودی حکام کا دورہ باہمی معاملات پر تھا تو پھر شام کی صورتحال کو اس میں زیر بحث نہیں آنا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ اعلامیہ میں شام کی صورتحال کا تذکرہ کیوں کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ قوم کے تحفظات درست ہیں ان کو دور کیا جانا چاہیے۔

مشیر خارجہ کی بریفنگ سے ہم مطمئن نہیں،بتایا جائے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کون بناتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی کی دونوں غلطیاں آمریت کے دور میں ہوئی تھی لیکن اب ایک غلطی موجودہ جمہوری حکومت کرنے جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ ضیاء الحق نے اس ملک کو کلائنٹ سٹیٹ بنا دیا تھا اور انتہا پسندی ، دہشتگردی کے تمغے ضیاء الحق کی پالیسیوں کی وجہ سے ملے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ مشرف نے ایک اندھی جنگ میں ملک کو جھونک کر ملک کو نقصان پہنچایا آج جس صورتحال کا ہم شکار ہیں حکومت کو واضح کرنا ہوگا کہ روس کیخلاف جنگ اور موجودہ جنگ بھی ہماری جنگ تھی ہم پر مسلط کی گئی پوری دنیا کے دہشتگردوں اور گواہوں کو یہاں جمع کردیا گیا جس کے باعث آج اس ملک کے حالات انتہائی خراب ہیں انہوں نے کہا کہ دو سپر پاورز میں سرد جنگ تھی اور ہم نے اس کو مذہب کا نام دے کر ملک کو اس جنگ میں جھونک دیا ہے جو ہماری جنگ نہیں تھی ۔

اس موقع پر نفیسہ شاہ نے مزید کہا کہ اگر ہم دنیا میں اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں تو انجینئرز ، ڈاکٹرز اور تعلیم کے شعبے میں کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ داخلہ پالیسی کا اعلان کیا جارہا ہے مگر افسوس اس معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا جارہا اور نہ ہی خارجہ پالیسی پر اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلے ہمیں داخلی معاملات کو حل کرنا چاہیے اس کے بعد بین الاقوامی معاملات کی طرف دیکھنا چاہیے۔

پاکستان تحریک انصاف شیریں مزاری نے کہا کہ موجودہ حکومت ابھی تک کوئی خارجہ پالیسی تشکیل نہیں دے سکی،جب مشترکہ اعلامیہ میں حکومت نے کہہ دیا کہ شام میں عبوری حکومت قائم کی جائے تو پھر کس طرح کہا جارہا ہے کہ ہم نے شام پر اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن بھی چاہتی ہے کہ بھارت سے اچھے تعلقات ہوں مگر ون وے ٹریفک سے معاملات درست نہیں ہوتے ۔

ایک طرف بھارت مذاکرات نہیں چاہتا تو پھر کس طرح ہم مذاکرات کررہے ہیں۔ایران کے ساتھ ثقافتی ، مذہبی تعلقات ہیں چین کے ساتھ دیرینہ دوستی کے تعلقات ہیں،ہمیں اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کیونکہ آج تک قوم کو معلوم نہیں ہوسکا کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے کون کون سے معاہدے ہیں اور اس کی شرائط کیا ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی غلامی جنرل ایوب سے شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔

مغرب کے ساتھ ہمارے تمام تعلقات یکطرفہ ہیں جس میں ملک کے مفادات کا خیال نہیں رکھا جاتا افسوس اس حکومت نے ابھی تک خارجہ پالیسی کا اعلان تک نہیں کیا بتایا جائے کہ اس ملک کی خارجہ پالیسی یہی حکومت بنائے گی یا پھر کوئی اور ادارہ بنائے گا کیونکہ اگر خارجہ پالیسی ہے تو پھر اسے چھپایا کیوں جارہا ہے۔ صاحبزادہ یعقوب نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ملک کی ترقی کیلئے آزاد خارجہ پالیسی مرتب کرنا ہوگی کیونکہ ملک اس وقت جن مسائل کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ خارجہ پالیسی میں خامیاں ہیں اور بین الاقوامی سطح پر اعتماد کھو رہے ہیں۔

عبدالرحیم مندوخیل نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں وہ انتہائی خراب ہیں۔جنگ ہماری نہیں تھی مگر اب ہماری جنگ بن گئی ہے۔ مشترکہ اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ اس ملک کا سب سے پہلا دشمن دہشتگردی ہے جس کا خاتمہ کرنا چاہیے کیونکہ دہشتگردی نے مل کر اس ملک کو ہر طرح سے نقصان پہنچایا ہے۔خارجہ پالیسی پر بحث جاری تھی کہ ایک اپوزیشن رکن نے کورم کی نشاندہی کردی جس پر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس بدھ کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا ۔