قومی اسمبلی کی قومی صحت خدمات ذیلی کمیٹی کی وزارت کوکسی مخصوص کمپنی کی بجائے پولیو ویکسین کی خریداری میں عالمی ادارہ صحت اور یونیسف کو ترجیح دینے کی ہدایت، ای پی آئی مہم کی کوریج کو یقینی بنانے کیلئے موبائل فون کا استعمال اور پولیو کے قطروں کی بجائے جلد انجکشن متعارف کرائے جارہے ہیں،سندھ اور بلوچستان میں پولیو مہم کے دوران علاقوں کی کوریج میں کمی جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اضافہ ہو اہے،کمیٹی کو حکام کی بریفنگ،کمیٹی کی سندھ میں ایمرجنسی لگا کرمارچ میں خسرہ کیخلاف خصوصی مہم چلانے کی سفارش

منگل 25 فروری 2014 07:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25فروری۔2014ء) قومی اسمبلی کی قومی صحت خدمات کے بارے میں ذیلی کمیٹی نے ہدایت کی ہے کہ وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز کسی مخصوص کمپنی کی بجائے پولیو ویکسین کی خریداری میں عالمی ادارہ صحت اور یونیسف کو ترجیح دے جبکہ کمیٹی کو بتایاگیا ہے کہ ای پی آئی مہم کی کوریج کو یقینی بنانے کیلئے موبائل فون کا استعمال اور پولیو کے قطروں کی بجائے جلد انجکشن متعارف کرائے جارہے ہیں۔

سندھ اور بلوچستان میں پولیو مہم کے دوران علاقوں کی کوریج میں کمی جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اضافہ ہو اہے اور کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ سندھ میں ایمرجنسی لگا کرمارچ میں خسرہ کے خلاف خصوصی مہم چلائی جائے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس پیر کوڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں کنونیئر کمیٹی ڈاکٹر رمیش کمار نے ای پی آئی کے نیشنل پروگرام منیجر کے عہدہ پر 20 گریڈ کے آفیسر کی بجائے اٹھارہویں گریڈ کے اہلکار کی تعیناتی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت اس اہم عہدہ پر ایک ماہ کے اندر اہل اور قابل آفیسر تعینات کرے ۔ وزارت کے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیو سمیت دیگر موذی امراض کے خاتمہ کیلئے سائنسی بنیادوں پر کام کررہے ہیں‘ 2015 تک پولیو اور خسرہ کے خاتمہ اور 80 فیصد دیگر بیماریوں کے خلاف ویکسین پلانے کا ہدف مقرر کیا ہوا ہے۔

ای پی آئی نیشنل پروگرام کے منیجر ڈاکٹر اعجاز احمد خان نے بتایا کہ سال 2012 ء کے گھریلو جائزہ کے مطابق پاکستان میں 53 فیصد علاقوں تک ای پی آئی مہم چلائی جارہی ہے جبکہ 2006-07 ء کے مقابلے میں سندھ اور بلوچستان میں گزشتہ سات سالوں میں کوریج میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ میں 2006-07 ء میں کوریج 37 فیصد ‘ بلوچستان میں 35 فیصد‘ پنجاب میں 52 فیصد اور خیبر پختونخواہ میں 47 فیصد تھی لیکن اب سندھ میں آٹھ فیصد کمی کے بعد 29 فیصد ‘ بلوچستان میں 17 فیصد کمی کے بعد 16.4 فیصد ‘ پنجاب میں تیرہ فیصد اضافہ کے بعد65.6اور خیبرپختونخواہ میں بھی پانچ فیصد اضافہ کے بعد 52.7 فیصد کوریج ہورہی ہے جس پر کمیٹی نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزارت کو ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر سندھ اور بلوچستان پر خصوصی توجہ اور صوبائی حکومتوں سے سے معاونت کرکے مسئلہ پر قابو پائے جبکہ غفلت کا مظاہرہ کرنے والے افراد کے خلاف وزارت کارروائی کرے۔

کمیٹی کو بتایاگیا کہ مالی سال 2013-14 ء میں ای پی آئی ویکسین مہم کیلئے وزارت نے تین ارب تیس کروڑ روپے کا مطالبہ کیا تھا لیکن وزارت خزانہ کی جانب سے ایک ارب کم کرکے دو ارب 31 کروڑ روپے منظور کئے گئے جس کے بعد وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز نے ضمنی بجٹ کے تحت 993 ملین روپوں کا مطالبہ کیا ۔کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکسان کی جانب سے وزارت کے بجٹ میں سے ایک ارب چار کروڑ روپے تاحال وارت خزانہ نے جاری نہیں کئے جس پر کمیٹی نے وزارت کے حکام کو سفارش کی کہ وہ اس معاملہ کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

کمیٹی کو ای پی آئی حکام نے آگاہ کیا کہ 9 مہلک بیماریوں کے خاتمہ کیلئے ویکسین عالمی ادارہ صحت اور یونیسف کی بجائے پرائیویٹ اداروں سے ہونے کی وجہ سے 80 فیصد کوریج کا ہدف ہاصل کرنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس پر کمیٹی نے ہدایت کی کہ وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز کسی مخصوص کمپنی کی بجائے ویکسین کی خریداری میں عالمی ادارہ صحت اور یونیسف کو ترجیح دے جبکہ وزارت کے حکام نے بتایا کہ ای پی آئی مہم کی کوریج کو یقینی بنانے اور موبائل فون کا استعمال اور پولیو کے قطروں کی بجائے جلد انجیکشن متعارف کرائے جارہے ہیں۔

کمیٹی نے ای پی آئی کے حالیہ اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وزارت خسرہ اور پولیو کی ویکسین کی صدیوں میں فراہمی کو یقینی بنائے جبکہ کمیٹی نے سندھ اور بلوچستان میں خسرہ کے حوالے سے آئندہ اجلاس کراچی میں منعقد کرانے کا فیصلہ کیا اور ہدایت کیکہ خسرہ کے خاتمہ کیلئے سندھ میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے مارچ میں خصوصی مہم کا آغاز کیا جائے۔