حکومت اور طالبان کے درمیان ایک مرتبہ پھر ”بیک ڈور“ رابطے شروع،وزیر داخلہ کا مولاناسمیع الحق سے ٹیلیفونک رابطہ ،تازہ صورتحال پر تبادلہ خیال، حملے بند کرنے کی یقین دہانی کرائی جائے تو مذاکراتی عمل شروع ہوسکتاہے، وزیرداخلہ،مولانا سمیع الحق کی دونوں فریقوں سے اللہ کے نام پر جنگ بندی کی اپیل، طالبان کی سیاسی شوریٰ کے رکن اعظم طارق کابھی پروفیسر ابراہیم سے رابطہ،جنگ بندی کیلئے تیار ہیں لیکن ساتھیوں کے تحفظ کی ضمانت دینے کامطالبہ،مولانا یوسف شاہ کا وزیرداخلہ اور مولانا سمیع الحق رابطوں کی تصدیق سے گریز

اتوار 23 فروری 2014 07:18

اسلام آباد/ اکوڑہ خٹک(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23فروری۔2014ء)حکومت اور طالبان کے درمیان ایک مرتبہ پھر مذاکرات کیلئے ”بیک ڈور“ رابطے شروع ہوگئے، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا طالبان کمیٹی کے سربراہ مولاناسمیع الحق سے ٹیلیفونک رابطہ ، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاہے کہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کریں لیکن پر تشدد کارروائیاں اس میں آڑے آرہی ہیں، اگر دہشت گردانہ حملے بند کرنے کی یقین دہانی کرائی جائے تو مذاکراتی عمل شروع ہوسکتاہے، جبکہ طالبان مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے دونوں فریقوں سے اللہ کے نام پر جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے کہاہے کہ افغانستان اورپاکستان کے طالبان کی حکومت کے ساتھ جھگڑے کی وجہ آئین ،جمہوریت ،شریعت وغیرہ جیسے ایشوز نہیں بلکہ پاکستان کا اسلام دشمن سامراجی قوتوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونا اس جنگ کی بنیادی وجہ ہے ‘ساری تباہی بربادی دہشت گردی اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے محرکات اور اصل عوامل پر غور کرنا ہے‘ حکومت کا اولین فریضہ ہے کہ اپنی قوم اور نہتے شہریوں پر بمباری سے احتراز کرے اس سے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید تباہی کا ذریعہ بنیں گے،کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سیاسی شوریٰ کے رکن اعظم طارق کابھی پروفیسر ابراہیم سے رابطہ،جنگ بندی کیلئے تیار ہیں لیکن ساتھیوں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے، آئین پاکستان کے بجائے مذاکرات قرآن و سنت کے تحت کیے جائیں۔

(جاری ہے)

مولانا یوسف شاہ نے وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان اور مولانا سمیع الحق رابطوں کی تصدیق سے گریز کیا ہے۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت طالبان سے مذاکرات کیلئے خفیہ پالیسی اپنا رہی ہے کہ اور اس سلسلے میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے طالبان ثالثی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے ٹیلیفونک رابطہ کیاہے اور حکومت اور طالبان مذاکرات میں آنے والے ڈیڈلاک کے خاتمے کیلئے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیاہے ۔

ذرائع کے مطابق چوہدری نثار علی خان نے مولانا سمیع الحق سے کہاہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کریں لیکن پر تشدد کارروائیاں اس میں آڑے آرہی ہے اگر دہشت گردانہ حملوں کی یقین دہانی کرائی جائے تو مذاکراتی عمل شروع ہوسکتاہے۔جبکہ مولانا سمیع الحق نے اس سلسلے میں کہاہے کہ جنگ بندی دونوں جانب سے ضروری ہے ہم ثالثی کا کردار ادا کررہے ہیں اور اللہ و رسول کا واسطہ دیا تھا کہ مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔

اس سلسلے میں جب ”خبر رساں ادارے“ نے طالبان ثالثی کمیٹی کے ترجمان و رکن مولانایوسف شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہاکہ فی الوقت حکومت کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ سیاست میں دروازے بند نہیں کئے جاتے مجھے علم نہیں ہے کہ اگر خفیہ طور پر کوئی رابطہ ہوا ہے تو اس بارے میں تفصیلات نہیں بتا سکتا ۔

انہوں نے کہاکہ ہم بھی چاہتے ہیں مذاکرات کے ذریعے مسائل حل ہوں اور اس کیلئے ہم اپنی طرف سے ہر ممکن سنجیدہ اقدامات کررہے ہیں لیکن افسوس کہ عین موقع پر حکومتی کمیٹی ہی اکوڑہ خٹک نہ آئی اور اعتماد میں لئے بغیر فضائی کارروائی کی گئی۔ ادھر ایک نجی چینل بھی دعویٰ کررہاہے کہ حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکراتی عمل کی بحالی کے لئے خفیہ رابطے بھی جاری ہیں۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ دونوں جانب سے اتفاق رائے ہوتے ہی جنگ بندی کا اعلان ہوسکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی بحالی کی امید پر بڑی کارروائی نہیں کی گئی۔حکومت اور کالعدم طالبان میں مذاکراتی ڈیڈ لاک ضرور ہے مگر رابطے ٹوٹے نہ امن کی امیدوں نے دم توڑا ہے، ذرائع کے مطابق حکومت اور کالعدم طالبان مذاکرات میں تعطل کے باوجود وزیر داخلہ قیام امن کے لئے پوری طرح سرگرم ہیں، ان کا نہ صرف مولانا سمیع الحق سے قریبی رابطہ ہے، بلکہ ان تمام افراد سے بھی رابطے میں ہیں جو قیام امن کے لئے کردار ادا کر سکتے ہیں۔

خفیہ رابطہ کاری پر طالبان کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کے بجائے صرف مخصوص علاقوں میں اہداف کو نشانہ بنایا گیا، ذرائع نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ خاموش مذاکرات کی بیل منڈیر چڑھی تو مکمل جنگ بندی ہوسکتی ہے، اتفاق رائے ہوتے ہی فریقین جنگ بندی کا اعلان کرسکتے ہیں، حکومتی جنگ بندی کا اطلاق صرف قبائلی علاقوں پر ہوگا، تاہم کراچی میں دشمن عناصر کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن جاری رہے گا۔

دونوں رہنماوٴں کے درمیان دونوں کمیٹیوں کی جانب سے بیان بازی سے گریز اور عملی اقدامات کرنے پر بھی اتفاق ہوا۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سیاسی شوریٰ کے رکن اعظم طارق نے بھی پروفیسر ابراہیم سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ جنگ بندی کیلئے تیار ہیں، لیکن ساتھیوں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آئین پاکستان کے بجائے مذاکرات قرآن و سنت کے تحت کیے جائیں۔

دوسری جانب طالبان مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ افغانستان اورپاکستان کے طالبان کی حکومت کے ساتھ جھگڑے کی بنیاد آئین ،جمہوریت ،شریعت وغیرہ جیسے ایشوز نہیں بلکہ پاکستان کا اسلام دشمن سامراجی قوتوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی وجہ سے ہے ‘ساری تباہی بربادی دہشت گردی اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے محرکات اور اصل عوامل پر غور کرنا ہے‘ حکومت کا اولین فریضہ ہے کہ اپنی قوم اور نہتے شہریوں پر بمباری سے احتراز کرے اس سے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید تباہی کا ذریعہ بنیں گے۔

مولاناسمیع الحق نے اللہ اوررسول کے نام پر حکومت اور طالبان سے اپیل کی کہ وہ فوری طورپر جنگ بندی کریں اور جنگ بندی کسی ایک فریق کا نہیں بلکہ دونوں فریقوں کا کام ہوتاہے۔جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ مغرب کی اسلام دشمن قوتیں اور مسلمانوں کے لبرل اور سیکولر دانشورحکام اور سیاستدان ‘طالبانائزیشن کی آڑ میں اسلام سے اپنی نفرت ‘ بغض اور خبث باطن کا اظہار کررہے ہیں اور یہ آج کے روشن خیالوں کا ایک فیشن بن گیا ہے۔

مولانا سمیع الحق یہاں دارالعلوم حقانیہ کے وسیع ہال ”ایوان شریعت “ میں تقسیم انعامات کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ جس میں ہزاروں طلبہ اور علماء نے شرکت کی‘ تقریب میں دارالعلوم کے مختلف شعبوں اور درجات کے نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو انعامات دئیے گئے۔ اس موقع پر دارالعلوم حقانیہ سے منسلک تمام شعبوں درس نظامی ‘ شعبہ حفظ و تجوید ‘ فقہ افتاء اورحدیث کے سپیشلائزیشن (تخصص) شعبہ حقانیہ ہائی سکول شعبہ کمپیوٹر کے طلبہ موجود تھے ۔

تقریب سے نائب مہتمم مولانا انوارالحق ‘مولانا ڈاکٹر سید شیر علی شاہ اور دیگر علماء نے بھی خطاب کیا۔ مولانا سمیع الحق نے خصوصی خطاب میں عالم اسلام اور باالخصوص دینی مدراس اوراس میں پڑھائے جانے والے اسلامی علوم کو عالم کفر کی طرف سے درپیش چیلنجوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی او رکہاکہ ان چیلنجوں کا نشانہ مسلم امہ کے جرنیل ‘ حکمران سیاسی پارٹیوں اور نام نہاد جمہوری اداروں کے پارلیمنٹ اور اسمبلیاں نہیں ہیں کیونکہ یہ سب اسلام دشمن قوتوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

اور ان سے دشمن کو خطرہ نہیں جبکہ ان کا اصل نشانہ دینی مدارس کانظام اور نصاب تعلیم ہے جبکہ یہ مدارس دہشت گردی اور انتہاپسندی نہیں بلکہ اسلام کے امن و سلامتی پر مبنی تعلیمات پھیلا رہے ہیں اور عالمی دہشتگرد ان تعلیمات کو اپنے مذموم مقاصد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔ مولانا سمیع الحق نے کہاکہ اسلام کے فطری اصولوں کی وجہ سے اور دشمن کی واویلا اورپروپیگنڈہ کی وجہ سے لوگ اسلام کی طرف بڑی تیزی سے راغب ہورہے ہیں اور دشمن کے دبانے سے یہ مزید ابھرتا جارہا ہے۔

مولانا سمیع الحق نے طلباء پر زور دیا کہ وہ اپنے آپ کو دینی اور جدید علوم سے لیس کرکے شمع محمدی کو گھر گھر تک پہنچانے کا عزم کریں‘ انہوں نے کہاکہ اس وقت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کو جو چیلنجز اور مشکلات درپیش ہیں اس کا مقابلہ آپ نے کرنا ہے۔ مولانا سمیع الحق نے کہاہے کہ علماء اور دینی قوتوں کو قوم کے سامنے ملک کو غیرملکی تسلط اور اس کے نتیجہ میں پیداشدہ شدید بحرانوں سے نکالنے کے لئے واضح لائحہ عمل رکھنا چاہیے۔

قوم کی رہنمائی اور عملاً جدوجہد کا آغاز سب کا فریضہ ہے اس وقت اسلام کے دفاع اور پاکستان کے استحکام کے لئے عملی جدوجہد کے آغاز میں مزید ترددّ اورانتظار ملک کو ایسی تباہی سے دوچار کرسکتا ہے جس کی تلافی ناممکن ہوگی۔ مولانا سمیع الحق نے دینی علوم حاصل کرنے والے طلبہ اور مدارس عربیہ کو موجودہ درپیش چیلنجوں کی طرف توجہ دلائی اور علمی و فکری اور تعلیمی لحاظ سے اس کے مقابلہ کیلئے تیاری پر زور دیا۔

مولانا سمیع الحق نے کہاکہ حکومت اگر بڑی طاقتوں کی غلامی سے نکل کر موجودہ پالیسیوں پر نظرثانی کرلے اور عسکریت پسندوں سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرلے تو آج ہی دہشت گردی کے سارے واقعات ختم ہوسکتے ہیں۔ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کی بڑھکیں ماری جارہی ہیں جبکہ مسئلہ کا واحد اور آخری حل غیروں کے مفادات کے لئے جاری جنگ سے علیحدگی ہے اورپارلیمنٹ کی قراردادیں اس سلسلہ میں واضح رہنمائی کررہی ہیں۔

اگر ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کی تو آئندہ ملک کا کوئی بھی حصہ امریکی حملوں کی زد میں آسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا دینی مدارس سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے اور نہ ہی مدارس دینیہ میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ دہشت گردی کی آڑ میں مدارس کو بدنام کیا جارہا ہے اور بے بنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں۔

مولاناسمیع الحق نے کہاکہ سازشی عناصر ملک کے امن کو تباہ کرنے میں مصروف ہیں جبکہ ہمارے ملک کے سیاستدان اقتدار کی رسہ کشی میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔انہوں نے تمام سیاسی او رمذہبی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ سیاست سے بالاتر ہوکر ملک کو امریکی تسلط اورغلامی سے نکالیں ۔مولانا سمیع الحق نے بعد میں انعام کے مستحق طلباء کو انعامات اور سندات دیں۔آخر میں ملک کی سلامتی امن وامان کی بحالی عالم اسلام اورامت مسلمہ کی کامیابی سرخروئی اوردارالعلوم کے ہزاروں لاکھوں وابستگان اور معاونین کے لئے دعائیں کی گئیں۔