مسعود جنجوعہ لاپتہ کیس ، وزارت دفاع کو حساس اداروں کے افسران کے بیانات حلفی جمع کرانے کیلئے آخری مہلت ، اگر بیانات حلفی جمع نہ کرائے گئے تو عدالت خود کوئی مناسب حکم جاری کریگی،سپریم کورٹ ،حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت نے مسعود جنجوعہ کو بازیاب نہ کرایا تو ہم کرائیں گے ،جسٹس جواد ایس خواجہ ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سابق صدر مشرف کی کتابوں کے اُردو اور انگریزی ایڈیشن عدالت میں پیش کر دیئے ،سابق صدر نے 689 افراد کو قیدی بنایا،300 کو بیرون ملک فروخت کیا گیا،طارق کھوکھر

ہفتہ 22 فروری 2014 07:22

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22فروری۔2014ء)سپریم کورٹ نے مسعود جنجوعہ لاپتہ کیس میں وزارت دفاع کو حساس اداروں کے افسران کرنل(ر)حبیب اللہ،لیفٹیننٹ جنرل (ر)شفقات احمد اور لیفٹیننٹ جنرل (ر)ندیم تاج کے بیانات حلفی جمع کرانے کے لئے آخری مہلت دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر بیانات حلفی جمع نہ کرائے گئے تو عدالت خود کوئی مناسب حکم جاری کرے گی ۔

ریٹائرڈ افسران آخر کو بینک اکاؤنٹس کے ذریعے پنشن بھی تو وصول کرتے ہیں ۔اگر ان کا ڈیٹا وزارت دفاع کے پاس موجود نہیں ہے تو پھر ایسے افسران کے پنشن کون وصول کر تا ہے؟ایسی پنشن تو بند ہونی چاہیے جبکہ عدالت نے آئی ایس آئی کے سیف ہاؤس میں مسعود جنجوعہ کی موجودگی بارے ڈاکٹر عمران منیر کا ویڈیو آڈیو بیان ریکارڈ کر کے پیش کرنے کے لئے حکومت پنجاب کو کسی سینئر پولیس کو ذمہ داری سونپنے کی ہدایت کی ہے اور13 مارچ تک رپورٹ طلب کی ہے۔

(جاری ہے)

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے طارق کھوکھر نے قیدی اور لاپتہ افراد کو بیرون ملک فروخت کرنے کے حوالے سے سابق صدر مشرف کی کتابوں کے اُردو اور انگریزی ایڈیشن عدالت میں پیش کر دیئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر نے 689 افراد کو قیدی بنایا،300 کو بیرون ملک فروخت کئے ہیں۔ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت دفاع نے اپنے ریٹائر افسران کے بیانات حلفی جمع نہ کرنے کی جو وجوہات تحریر کی ہیں وہ نامناسب ہیں ان کو مسترد کرتے ہیں۔

حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت نے مسعود جنجوعہ کو بازیاب نہ کرایا تو ہم کرائیں گے ۔انہوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روز دیئے ہیں ۔مسعود احمد جنجوعہ لاپتہ کیس کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی جمعہ کے روز سماعت شروع ہو ئی تو اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر اور آمنہ مسعود جنجوعہ پیش ہوئے۔ طارق کھوکھر نے بیانات حلفی کی کاپی عدالت میں پیش کی ۔

پرویز مشرف کی کتاب ان دی لائن آف فائر کی کتاب کا اردو ،انگریزی ایڈیشن پیش کی۔متعلقہ صفحہ پر موجود پیراگراف کا حوالہ دیا ۔جسٹس جواد کہا کہ آپ کیپ اس بھی تو شواہد ہوں گے۔ طارق کھوکھر نے بتایا کہ زاہدہ شریف نے اپنے خاوندڈاکٹر عابد شریف کے حوالے سے بیان حلفی پیش کیا جس میں انہوں نے بتا رکھا تھا کہ 9 سال ہو گئے ہیں ان کا خاوند نہیں مل سکا۔

689 افراد کے حوالہ سے بتایا۔آفتاب شیرپاؤ کا بھی حوالہ دیا کہ 4000 افراد غائب ہوئے ہیں۔ مشرف کی کتاب2006 ء میں شائع ہوئی جون2006 میں کہا گیا ہے کہ خفیہ حراستی مراکز کے حوالے سے یورپین پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کی گئی تھی۔1225 افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔یہ میری اپنی معلومات ہیں ۔پرویز مشرف نے 2006 کو جو عدد بتایا تھا وہ متعلقہ اداروں نے بھی انہیں دیا تھا جسٹس جواد نے کہا کہ متعلقہ حکام سے پتہ کر کے دیں۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے بتایا کہ 2005 کا معاملہ ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ وہی عرصہ بنتا ہے ۔آمنہ نے بتایا کہ انہوں نے ایک درخواست دی تھی اس میں تمام تر تفصیلات موجود ہیں۔صحفہ نمبر8 پر ڈاکٹر عمران منیر کررہے ہیں کہ ان سے اگلے سیل میں مسعود جنجوعہ موجود تھے۔سی پی او راولپنڈی اور ایس ایچ او راجہ رشید بھی موجود تھے جب یہ بیانات ریکارڈ ہو رہے تھے ۔

ایف آئی آر2010 ء میں درج ہوئی تھی ۔سپریم کورٹ کے حکم پر ایف آئی آردرج ہوئی ۔دو سال تک کمیشن میں وقت ضائع کیا گیا ۔صرف لیپ ٹاپ سٹوری پیش کر کے جان چھڑائی گئی تھی ۔جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں آپ کے معاملے کا احساس ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا اگلہ قدم کیا ہونا چاہیے ۔آمنہ نے کہا کہ اخبارات میں میرے خاوند کو ڈبل ایجنٹ لکھا گیا جس سے دلی تکلیف ہوئی ہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ اخبارات جو خبر دی تھی وہ انہوں نے اپنے ذرائع سے دی تھی ۔طارق کھوکھر نے کہا کہ کس سے پتہ کریں کون ہمیں بتائے گا۔وزارت دفاع سے جواب مانگنا پڑے گا۔طارق کھوکھر نے بتایا کہ جی ہاں اس حوالے سے وزارت دفاع سے رجوع کرنا پڑے گا۔جسٹس جواد نے کہا کہ689 افراد کے حوالے سے آپ کیا جوا دیں گے ۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اس کے غیر ضروری لوگوں کے ساتھ تعلقات تھے۔

کیا بیانات حلفی آ گئے ہیں ۔طارق کھوکھر نے بتایا کہ تین افسران کا بیانات حلفی نہیں مل سکے ہیں ۔جسٹس جواد نے کہا کہ بتلا دیں پھر ان کو سمن جاری کر دیتے ہیں ۔وزارت دفاع کے نمائندے سے کہا ہے کہ وہ وزارت دفاع کی جانب سے لکھ کر دے دیں کہ یہ وہ بیانات حلفی جمع نہیں کروا سکتے کیونکہ یہ سب ریٹائرہو چکے ہیں ان کی وجوہات بھی بتلا دیں۔ تحریری شکل میں بتلا دیں کہ ان لوگوں کے بیانات حلفی ان وجوہات کی وجہ سے سپلائی نہیں کئے جا سکتے ۔

قانون اگر ایسا ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود کوئی ایسا شخص ہے جو عدالتی احکامات روگردانی کرتاہے۔اس بارے عدالت کو بتا دیں۔عدالت نے وزارت دفاع کے ڈائریکٹر لیگل گروپ کیپٹن محمد عرفان کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی اور کہا کہ وہ صرف ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بتا سکتے ہیں ۔طارق کھوکھر نے بتایا کہ وزات دفاع نے ایک سی ایم اے فائل کیا ہے اس بارے میں مکمل وضاحت موجود ہے۔

عدالت نے درخواست کا معائنہ کیا ۔جسٹس جواد نے سی ایم اے میں دی گئی وضاحت مسترد کر دی اور کہا کہ یہ تو کوئی وجہ نہیں ہے ۔تفتیش بارے لکھا گیا ہے۔یہاں بھی انہوں نے بیان حلفی کا حوالہ دیا ہے ۔اگر کوئی ملزم ہے تو اس کو گرفتار کریں ۔ہارون جو قید بطور تفتیشی پیش ہوئے ۔آمنہ نے بتایا کہ ڈاکٹر عمران منیر کی فیملی کو دھمکیاں دی جارہی ہیں وہ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کو تمام تر واقعات بتلانے کو تیار ہیں۔

صرف عدالت کی اجازت کی ضرورت ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ یہ ہم نے نہیں کرتا ۔حکومت پنجاب کے پرنسپل لاء افسر کریں گے۔حکومت پنجاب ویڈیو لنک فراہم کرے۔ آمنہ مسعود نے کہا کہ اگر ڈاکٹر عمران منیر کو عدالت تحفظ فراہم کرے تو بات ہوگی ۔اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ نہیں سری لنکا میں ہم کسی کو کیا تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔مصطفی رمدے نے کہا کہ ڈاکٹر عمران منیر نے دوسرا بیان دیا ہے۔

ویڈو لنک کے ذریعے معاملات چلا سکتے ہیں ۔عدالت نے کھوکھر نے کہا کہ ریٹائرافسران عوام الناس کے خرچ سے پنشن نہیں لیتے جو اب ان سے جواب نہیں لیا جا سکتی۔اس طرح کی باتیں کون کرتا ہے کہ ریٹائرڈ افسران یہ بیانات حلفی نہیں لیا جا سکتا پھر ایسے افسران کی پنشن بند کی جائے۔ پنشن کہاں سے لیتے ہیں آخر ان کے بینک اکاؤنٹس ہوں گے۔وہاں اس ضمن میں تمام تر تفصیلات بھی ہوں گی ۔

ہم نے تو صوبے اور پولیس سے کام لینا ہے ۔گیارہ بجے تک حکومت پنجاب سے جواب طلب کیا گیا ۔بعد ازاں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب مصطفی رمدے گیارہ بجے دوبارہ پیش ہوئے اور بتایا کہ کس کی فائل دیکھی ہے۔ حساس ادارے کے افسران نے کیا کیا ہم اس حوالے سے دو آپشن دیتے ہیں۔ڈاکٹر عمران منیر کی ویڈیو کانفرنس کرنے کو تیار ہیں ہم ہارون جوئیر کو بھیج سکتے ہیں یہ محنتی آدمی ہیں ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارا بھی یہی خیال تھا ۔پہلے یہی تاثر دیا تھا ان کو مشکلات درپیش ہیں۔کینیڈی میں جائیں یہ بھی کریں اور بیان بھی ریکارڈ کر کے آئیں۔ ویڈیو ریکارڈنگ اور دستخط بھی ہوں گے ۔سہیل صفدر چٹھہ کو دیکھ لیں۔انہوں نے دس سال پہلے کے مقدمے کی کس طرح سے تفتیش کی ۔اس کے ذمہ لگایا تو سب کچھ پیش کر دیا وہ کہاں کہاں نہیں گیا۔قابل اعتماد رپورٹ دی تھی کہ لاپتہ نوجوان جلال آباد میں اپنی مرضی سے افغانستان جہاد پر گیا ہم نے وہ مقدمے ہی نمٹا دیا اے جی پنجاب نے کہا کہ آپ ان پر اعتماد کریں۔

سری لنکا بھیج دیتے ہیں۔دستخط کے ساتھ رپورٹ دیں گے۔ تھوڑی سی مدد کے لئے آرڈر میں بھی لکھ دیں۔جسٹس جواد نے کہا کہ سری لنکا ہر قسم کا خرچ کرتی ہے لیکن مدعی کی تسلی اور تشفی کے لئے نہیں کرتے ۔زیادہ خرچ نہیں ہوگا حکومت پنجاب نے اجازت آپ خود خرچہ کریں ۔آمنہ نے کہا کہ جنرل یوسف کا دو سے تین بار بیان یرکارڈ کرایا ہے اس کو دیکھ لیں جسٹس جواد نے کہا کہ ہم تفتیشی کے نتیجے کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ کیا تفتیش کرتے ہیں ۔

یہ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایمانداری سے تفتیش کرائے یہ نہیں کرائے گی تو ہم کرائیں گے ۔اس کے لئے شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت نے حکمنامہ تحریر کرتے ہوئے کہا کہ اے جی پنجاب مصطفی رمدے نے کہا کہ وہ ڈاکٹر عمران منیر کا بیان حاصل کرنے کے لئے پولیس افسر کو سری لنکا بھیجنے کو تیار ہے۔ پولیس محکمہ اس حوالے سے تمام تر اقدامات کرے تا کہ تفتیش کینڈی میں جا کر ڈاکٹر عمران منیر کا بیان حاصل کر سکے اور شامل تفتیش کر سکے۔

اے جی نے کہا کہ دو ہفتے کا وقت ضرور دیں۔بیانات حلفی جمع کرانے کے حوالے سے وزارت دفاع کی سی ایم اے کا بھی جائزہ لیا ہے۔سابقہ تاریخ پر عدالت نے ہدایت کی تھی کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل بیانات حلفی جمع کرائیں ۔کرنل(ر) حبیب اللہ ،لیفٹیننٹ جنرل (ر) شفقات احمد اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) ندیم تاج کے بیانات حلفی جمع نہ کرواے کی وجوہات ،وزارت دفاع کی جانب سے دی گئی ہیں جو لوگ بھی ریٹائر ہو چکے ہیں اور ان کے بیانات حلفی نہیں آسکے ہیں۔

یہ وجوہات صحیح نہیں ہیں کیونکہ آخر کو یہ ریٹائرافسران بینک اکاؤنٹس سے پنشن وصول کررہی ہوں اگر اگلی سماعت تک بیانات حلفی وفاقی حکومت نے جمع نہ کروائے تو پھر عدالت اپنا حکم جاری کرے گی ۔وزارت دفاع ان افسران کے حوالے سے بیانات حلفی حاصل کر کے عدالت میں پیش کریں۔ سابق پرویز مشرف کی کتاب ترجمعہ اُردو سب سے پہلے پاکستان اور ان دی لائن افٓ فائر کے متعلقہ صفحات عدالت میں پیش کئے گئے ۔

جسٹس جواد نیک ہا کہ جہاں مسعود جنجوعہ کے معاملے کو دس سال گزر چکے ہیں کچھ روز اور سہی ۔ حکومت کو تحریر کرنا ہی ہے۔ عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت13 مار تک کے لئے ملتوی کر دی۔جسٹس جواد نے کہا کہ آمنہ بی بی اس کیس کی کا نتیجہ چاہتی ہے کیا ہم ان کو کہیں ۔آئین و قانون کا تقاضا ہے اس کو پورا کرنا ہے اگر یہ کنفرم ہو جاتا ہے اللہ کی رضا ہے وہ ہے مگر ہم نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں اے جی نے کہا کہ ضرور پتہ چلے گا۔