حکومت کا طالبان سے مذاکرات میں تعطل اور سیکورٹی فورسز کو اپنے دفاع کیلئے ہر قسم کی کارروائی کا اختیار دینے کا باقاعدہ اعلان،مذاکرات اور دہشتگردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے، چوہدری نثار،وزیراعظم نے آپریشن کا فیصلہ کرلیا تھا اور تقریر بھی تیار ہوچکی تھی لیکن اس کے باوجود پورے خلوص کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی گئی،اب بھی زیر زمین رابطے ہیں،اسلام آباد میں القاعدہ یا ٹی ٹی پی کا کوئی وجود نہیں، 8ماہ کے دوران صرف ایک دہشتگردی کا واقعہ پیش آیا جس کا نیٹ ورک تین دن میں توڑ دیا گیا،اسلام آباد کیلئے ریپڈرسپانس فورس بنائی گئی ہے جو جدید اسلحہ ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور اس کی بہترین تربیت کی گئی ہے ، فورس نیٹ ورک کو پورے پاکستان میں پھیلایا جائے گا،دارالحکومت میں 1500کیمروں کو سینٹرل نیٹ ورک کے ساتھ نصب کیا جائے گا ،یہ تاثر بالکل بے بنیاد ہے کہ اسلام آباد غیر محفوظ ہوچکا ہے،اسے مکمل محفوظ بنانے کیلئے سیف سٹی پراجیکٹ جلد شروع کیا جائے گا جو ایک سال میں مکمل ہوگا،ہم پر تنقید کرنے والے اپنے دور حکومت کے حالات کو بھی یاد رکھیں،وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس

جمعہ 21 فروری 2014 07:38

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21فروری۔2014ء)حکومت نے طالبان سے مذاکرات میں تعطل اور سیکورٹی فورسز کو اپنے دفاع کیلئے ہر قسم کی کارروائی کا اختیار دینے کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے جبکہ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ مذاکرات اور دہشتگردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے،وزیراعظم نے آپریشن کا فیصلہ کرلیا تھا اور تقریر بھی تیار ہوچکی تھی لیکن اس کے باوجود پورے خلوص کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی گئی،اب بھی زیر زمین رابطے جاری ہیں اور امید ہے کہ مذاکراتی عمل بحال ہوجائے گا۔

قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی نے وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کو دہشتگردی کے خطرات بارے غلط اعداد وشمار فراہم کئے گئے جو گزشتہ کئی برس کے تھے،اسلام آباد میں القاعدہ یا ٹی ٹی پی کا کوئی وجود نہیں،گزشتہ 8ماہ کے دوران صرف ایک دہشتگردی کا واقعہ پیش آیا جس کے نیٹ ورک کو تین دنوں میں بریک کردیاگیا۔

(جاری ہے)

نیشنل کاؤنٹر ٹیررز اتھارٹی(نیکٹا) کو انسداد دہشتگردی کا پریمےئر ادارہ بنایا جائے گا اور اندرونی سلامتی پالیسی کی منظوری کے بعد یہاں ایک جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جائے گا جو 26چھوٹی اور بڑی انٹیلی جنس کا ڈیٹا اکٹھا کرکے دہشتگردی کا تدارک کرے گا۔

اسلام آباد کیلئے ریپڈرسپانس فورس بنائی گئی ہے جو جدید اسلحہ ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور اس کی بہترین تربیت کی گئی ہے اور اس فورس کے نیٹ ورک کو پورے پاکستان میں پھیلایا جائے گا اور انہیں ہیلی کاپٹرز اور جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کرکے چاروں صوبوں کے ساتھ شےئر کیا جائے گا۔دارالحکومت میں 1500کیمروں کو سینٹرل نیٹ ورک کے ساتھ نصب کیا جائے گا اور راولپنڈی کے اہم مقامات کو بھی اس سے کور کرکے جدید ٹیکنالوجی سے دہشتگردی اور شدت پسندی پر قابو پایا جائے گا۔

یہ تاثر بالکل بے بنیاد ہے کہ اسلام آباد غیر محفوظ ہوچکا ہے،اسے مکمل محفوظ بنانے کیلئے سیف سٹی پراجیکٹ جلد شروع کیا جائے گا جو ایک سال میں مکمل ہوگا،ہم پر تنقید کرنے والے اپنے دور حکومت کے حالات کو بھی یاد رکھیں۔وہ جمعرات کو یہاں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے جس میں وزیر مملکت برائے امور داخلہ بلیغ الرحمن اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے،وزیرداخلہ نے اسلام آباد کو محفوظ بنانے کیلئے ایک منصوبے پر تفصیلی روشنی ڈالی اور بتایا کہ اسلام آباد بھر میں ایک ایک گھر میں موجود لوگوں کا ریکارڈ اکٹھا کیا جارہا ہے اور آج ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ کس گھر میں کون کون رہتا ہے،اعداد وشمار اکٹھا کرنے کے بعد ان لوگوں کے انخلاء کا عمل شروع ہوگا جنہیں وفاقی دارالحکومت میں نہیں رہنا چاہئے،انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں 24سے زائد کچی آبادیاں ہیں جن میں ہزاروں لوگ بستے ہیں،ہم نے ان آبادیوں میں بھی 84,000لوگوں کو رجسٹرڈ کیا ہے اور اب اس مرحلے میں پہنچ چکے ہیں کہ کس کے ساتھ کس طرح ڈیل کرنا ہے،یہ تمام تر اعداد وشمار کمپیوٹرائزڈ کئے جائیں اور میں اسلام آباد کے شہریوں کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ اعداد وشمار صرف سیکورٹی مقاصد کیلئے استعمال ہوں گے۔

انہوں نے گزشتہ روز مجلس قائمہ برائے امور داخلہ میں انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے اسلام آباد میں القاعدہ،طالبان اور لشکر جھنگوی کی موجودگی کے بارے میں رپورٹ پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ کئی سالوں پر مبنی ہے مگر اس میں پورے اعداد وشمار نہیں دئیے گئے اور نہ ہی سالانہ بنیادوں پر یہ بتایا گیا ہے کہ یہاں خطرے کی سطح کیا تھی اور اب کہاں تک پہنچ چکی ہے،انہوں نے کہا کہ 2011ء میں اسلام آباد میں میریٹ پر حملہ اور سفارتکار کے قتل جیسے بڑے واقعات ہوئے،اس وقت خطرے کا لیول بھی بہت اونچا تھا لیکن آج وہ حالات نہیں ہیں،آج اسلام آباد میں القاعدہ اور طالبان کا کوئی وجود نہیں تاہم فرقہ وارانہ تنظیم کی موجودگی ہوسکتی ہے،اسلام آباد کو محفوظ بنانے کیلئے کئی سالوں سے سیف سٹی پراجیکٹ کی باتیں ہورہی تھیں لیکن ہم نے عملی طور پر اس میں پیش رفت کی ہے اور اب یہ منصوبہ شروع کیا جارہا ہے جو ایک سال میں مکمل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ سٹینڈنگ کمیٹی میں رپورٹ کے بعد نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک سے بھی مجھ سے رابطہ کیا گیا ہے اور ان لوگوں نے معلومات حاصل کی ہیں جو آنے والے دنوں میں اسلام آباد آنے والے ہیں اور اس رپورٹ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اسلام آباد غیر محفوظ ہو چکا ہے۔وزیرداخلہ نے کہا کہ سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت ہزاروں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں گے اور ہر گھر کا ریکارڈ جمع کیا جائے گا،اس منصوبے میں راولپنڈی بھی شامل ہے،انہوں نے کہا کہ ہم نے جب اعداد وشمار اکٹھے کرنے کا عمل شروع کیا تو اس کے دوران 1500گھروں نے اعداد وشمار دینے سے انکار کردیا،حتی کہ درجنوں گھروں کے مالکان تالے لگا کر فرار ہوچکے ہیں اور ہم ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے سیکورٹی اداروں کا بھی اجلاس بلایا ہے اور ان سے دریافت کیا ہے کہ اسلام آباد میں القاعدہ کہاں ہے اور ہدایت کی ہے کہ انہیں یہ اعداد وشمار ان کیمرہ جاری کرنے چاہئے تھے لیکن انہوں نے رپورٹ عام کردی اور میڈیا نے اسے اپنے انداز میں شائع کیا۔وزیرداخلہ نے کہا کہ حکومت کے تمام فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں اور تمام متعلقہ حکام کو مکمل اعتماد میں لیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت ملک کا محفوظ شہر ہے جہاں بسنے والے ہر شہری ،کرایہ دار،غیر ملکی اور سفارتکاروں کا مکمل ڈیٹا وزارت داخلہ کے پاس موجود ہے اور یہ کام ہم نے حکومت میں آنے کے بعد سرانجام دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اندرونی سیکورٹی کی پالیسی اگلے ہفتے اجلاس میں دوبارہ پیش کی جائے گی اور اس کی منظوری کے بعد اسے فوری طور پر نافذ کیا جائے گا۔

اس سیکورٹی کے نیٹ ورک کو پورے پاکستان میں پھیلایا جائے گا جس کیلئے فورس کو گزشتہ چار ماہ سے ٹرین کیا جارہا ہے،ان کا کہنا تھا کہ فیڈرل لیول پر اور جدید آلات اسے فراہم کئے جائیں گے اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی مدد کی جائے گی،انہوں نے بتایا کہ نیکٹا کو انسداد دہشتگردی کا پریمےئر ادارہ بنایا جائے گا جہاں جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ قائم ہوگا اور ون پوائنٹ ایجنڈے انسداد دہشتگردی کے تحت ملک میں کام کرنے والی 26چھوٹی بڑی ایجنسیوں کا ڈیٹا اکٹھا کرکے دہشتگردی کا انسداد کیا جائے گا،ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی ایجنسیز کیلئے چائنا سے سیف سٹی کے تحت ہی جدید سامان اسلام آباد پہنچ گیا ہے لیکن ہیلمٹ بلٹ پروف جیکٹس ،سکینرز اور دیگر سامان شامل ہے جبکہ آئندہ چند ماہ میں 50جدید ترین گاڑیاں بھی سیکورٹی ایجنسیز کے حوالے کی جائیں گی اور انہیں مزید مضبوط بنایا جائے گا،ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا اور اس کیلئے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے جائیں گے،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران ہزاروں کی تعداد میں ٹارگٹ کلرز اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری کے ملزمان اور سنگین جرائم میں ملوث کریمنلز کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ کوئٹہ میں گزشتہ برسوں کی نسبت حالات میں بہت حد تک بہتری آئی ہے اور ناکوں کی تعداد بھی کم ہوئی ہے۔

ملٹری آپریشن کا بار بار طعنہ دینے والوں نے پانچ برس میں ملٹری آپریشن کیوں نہیں کیا،دہشتگردی کا واحد حل مذاکرات ہیں،جس پر ہم یقین رکھتے ہیں اور سابق آرمی چیف نے بھی بتایا تھا کہ اگر پورے ملک میں بھی آپریشن شروع کردیا جائے تو اس میں صرف40فیصد تک کمی آسکتی ہے،مگر دہشتگردی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے،طالبان بار بار سیز فائر کا کہتے ہیں مگر ستمبر 2013ء سے لیکر ابھی تک کسی قسم کا چھوٹا بڑا آپریشن نہیں کیا گیا اور دستوں کی معمولی نقل وحرکت بھی 5ماہ سے تعطل کا شکار ہے تاکہ اس سے یہ تاثر نہ جائے کہ آپریشن کیلئے نقل وحرکت کی جارہی ہے مگر اس کے باوجود دہشتگردی کے واقعات ہوتے رہے۔

اس حوالے سے تمام ادارے متحد اور متفق ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں،انہوں نے کہا کہ جب سے موجودہ حکومت آئی ہے،ہم نے کوئی بڑی فوجی کارروائی نہیں کی،اس سے زیادہ ہمارا خلوص اور ہماری طرف سے فائر بندی کیا ہوسکتی ہے جبکہ دوسری جانب مذاکرات کے ساتھ ساتھ ہمارے جوانوں کے گلے کاٹے جارہے ہیں،یہ صورتحال کسی صورت برداشت نہیں کی جاسکتی اور حکومت نے سیکورٹی اداروں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے دفاع میں ضروری کارروائی کرسکتے ہیں جس کا سلسلہ گزشتہ 24گھنٹوں میں شروع کیا گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم نے امریکہ اور برطانیہ سے علیحدگی پسندوں کو بھرپور پروٹوکول دینے پر بھی احتجاج کیا ہے جس پر امریکی دفتر خارجہ نے بیان بھی جاری کیا جبکہ برطانیہ نے بھی یقین دلایا ہے کہ آئندہ ان لوگوں کو پارلیمانی یا ریاستی سطح پر کوئی پروٹوکول نہیں دیا جائے گا۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایف سی کے اہلکاروں کی شہادت کے واقعہ پر افغان حکومت اور نیٹو فوج سے بات چیت کی ہے اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھی مالدیپ میں افغان وزیر خارجہ سے ہونے والی ملاقات میں اس پر احتجاج کیا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے امریکی اخبار میں چھپنے والی خبر کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ کراچی یا کوئٹہ میں کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں طالبان کا 30فیصد کنٹرول ہو،یہ خبر کسی شخص کی ذہنی استراع تو ہوسکتی ہے مگر اس میں کوئی حقیقت نہیں،کراچی میں کوئی نوگوایریا نہیں۔انہوں نے کہا کہ میں میڈیا کو ساتھ لے جانے پر تیار ہوں اور وہ جہاں جانا چاہیں جا سکتے ہیں۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ بلوچستان میں 2سال پہلے سکولوں میں قومی ترانہ نہیں پڑھا جاتا تھا اب وہاں کی رپورٹ لیں اور اگر چاہیں تو میں آپ کے ساتھ کوئٹہ جانے کیلئے بھی تیار ہوں۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران فاروق قتل کیس کے بارے میں برطانوی حکومت کی طرف سے قانونی معاونت کیلئے 5ماہ پہلے درخواست دی گئی تھی لیکن پھر وہ واپس لے لی گئی،چند ہفتے پہلے ایک اور درخواست آئی ہے جس پر حکومتی اور قانونی سطح پر صلاح مشورہ جاری ہے اور ہم یقین کرتے ہیں کہ اس کا شفاف انداز میں جواب دیں گے اور عوام کو بھی اس سے آگاہ کیا جائے گا۔