بلدیاتی اداروں کو سیاسی نہیں انتظامی ہونا چاہئے،140 اے کو آئین میں شامل کرنے کی کیا منطق تھی؟،چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی،آسان کام تو یہ تھا کہ انیس سو چوہتر میں حلقہ بندیوں کا قانون بنا، اس میں بلدیاتی انتخابات کی بات بھی شامل کر دی جاتی، سندھ اورپنجاب میں حلقہ بندیوں کے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس،سماعت آج دوبارہ ہوگی

جمعرات 20 فروری 2014 07:39

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔20فروری۔2013ء )سپریم کورٹ آف پاکستان میں سندھ اورپنجاب میں حلقہ بندیوں کے مقدمے میں چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دئیے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کو سیاسی نہیں انتظامی ہونا چاہئے ایک سو چالیس اے کو آئین میں شامل کرنے کی کیا منطق تھی، آسان کام تو یہ تھا کہ انیس سو چوہتر میں حلقہ بندیوں کا قانون بنا، اس میں بلدیاتی انتخابات کی بات بھی شامل کر دی جاتی۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین اور میئر کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہونا انتظامی نہیں سیاسی یونٹ ہوگا، سندھ اور پنجاب کے بلدیاتی ایکٹ نکال کر پڑھ لیں ، آرٹیکل دو سو بائیس کے تحت حلقہ بندیاں کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیئے کہ شفاف حلقہ بندیاں نہ ہوں تو ایسی صورت میں بلدیاتی انتخابات کیسے شفاف ہو سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا بلدیاتی انتخابات میں بدعنوانی جائز ہے، الیکشن عمل میں بدعنوانی کے عمل کو روکنا بھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل اکرم شیخ کا حلقہ بندیوں کے موجودہ قانون میں سقم موجود ہونے کا اعتراف،کہتے ہیں شفاف بلدیاتی انتخابات کیلئے قانون سازی کے ذریعے الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کا اختیار دیا جائے۔

بدھ کے روز کیس کی سماعت چیف جسٹس تصدق جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ عوامی نمائندوں کا انتخاب ہر شہری کا حق ہے۔ جمہوریت آسمان سے نہیں گرتی، اس کا اطلاق نچلی سطح سے ہوتا ہے۔انھوں نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے موجودہ قوانین شفاف انتخابات کرانے میں مدد گار نہیں، حلقہ بندی کی ذمے داری الیکشن کمیشن کو دینی ہے تو قانون میں ترمیم کرنا ہو گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بلدیاتی اداروں کو سیاسی نہیں انتظامی ہونا چاہئے، آسان کام تو یہ تھا کہ انیس سو چوہتر میں حلقہ بندیوں کا قانون بنا، اس میں بلدیاتی انتخابات کی بات بھی شامل کر دی جاتی۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے موقف اختیار کیا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے قومی و صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی، ترمیم کے بعد بلدیاتی انتخابات کی ذمہ داری بھی اسے سونپ دی گئی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حلقہ بندیوں سے متعلق اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل دو سو بائیس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، لوکل باڈیز سسٹم سیاسی نہیں انتظامی یونٹ ہوگا۔بلدیاتی انتخابات میں ووٹ بنیادی نہیں، سول حق ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سو چالیس اے کو آئین میں شامل کرنے کی کیا منطق تھی،انہوں نے اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ آپ کے خیال میں کیا الیکشن کمیشن کو بلدیاتی حلقہ بندیوں کا اختیار دینا غیرآئینی ہے جس کا اکرم شیخ نے ہاں میں جواب دیا اور کہا کہ قانون اور حلقہ بندیوں کے بغیر ہی بلدیاتی انتخابات کرانے کا ہائیکورٹ کا حکم ناقابل عمل ہے۔

قانون سازی کے ذریعے الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کا اختیار دیا جائے تو انتخابات شفاف ہو سکتے ہیں۔سندھ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت آج (جمعرات ) دوبارہ ہو گی۔