تحریک طالبان ’اصولی طور‘ پر جنگ بندی پر تیار ہے،شاہداللہ شاہد ، طالبان رہنماوٴں کے مابین مفاہمت بھی ہو چکی ہے لیکن طالبان قیدیوں کی بوری بند لاشوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ بند کیا جائے،طالبان ترجمان ، جنگ بندی دونوں اطراف سے ہوگی، یک طرفہ جنگ بندی کا حکومتی کمیٹی کا مطالبہ درست نہیں،پروفیسر ابراہیم،طالبان سے منسوب شرائط میڈیا نے مفروضوں کے تحت پیش کئے ہیں،مولانا یوسف شاہ، طالبان کمیٹی کوبتادیا جنگ بندی کے اعلان تک مذاکرات نہیں ہوسکتے ،کمیٹی کے معاملات جہاں رکھے ہیں وہیں پرہیں ،عرفان صدیقی

جمعرات 20 فروری 2014 07:36

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔20فروری۔2013ء)کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ کہ اصولی طور پر تحریک طالبان جنگ بندی کے لیے رضامند ہے اور اس سلسلے میں طالبان رہنماوٴں کے مابین مفاہمت بھی ہو چکی ہے لیکن طالبان قیدیوں کی بوری بند لاشوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔طالبان ترجمان کی جانب سے یہ بیان بی بی سی پشتو سروس کو دیا گیا ۔

طالبان ترجمان نے بیان میں کہا کہ ’ہم قیام امن کے لیے سنجیدہ ہیں لہذا ایک بار پھر خلوص نیت سے پیشکش کی جاتی ہے کہ اگر وہ ہماری نامزد کردہ کمیٹی کو یہ یقین دہانی کرائیں کہ تحریک کہ مجاہدین کی بوری بند لاشیں گرانا اور گرفتاریاں بند کریں تو ہم بھی جنگ بندی کے لیے عملی طور پر تیار ہیں۔

(جاری ہے)

‘طالبان کا دعویٰ ہے کہ ’حکومت نے کراچی سمیت دیگر شہروں میں’روٹ آوٹ‘ کے نام سے جو آپریشن شروع کیا ہے اس میں تحریک طالبان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

‘طالبان کی جانب سے دیے گئے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ جہاں تک مہمند ایجنسی کی کارروائی کا تعلق ہے تو وہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے بار بار تحریک طالبان کے قیدیوں کو قتل کرنے کے ردعمل میں کیاگیا۔کالعدم تحریک طالبان کا موقف ہے کہ خفیہ اداروں کی طرف سے ان کے خلاف کاروائیوں کا یہ سلسلہ کراچی سے لے کر پشاور تک جاری ہے اور منگل کو بھی کراچی میں چار طالبان کو ہلاک کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ:’ ہم سمجھتے ہیں کہ خفیہ اداروں کی طرف سے یہ اشتعال انگیز کارروائی صرف مذاکرات کو سبوتاڑ کرنے کی غرض سے کیا گیا ہے۔‘اس بیان میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان کے لوگوں کو نشانہ بنانے کے باوجود انھوں نے امن مذاکرات کو سنجیدگی سے آگے بڑھایا۔جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر اور طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ جنگ بندی دونوں اطراف سے ہوگی۔

یک طرفہ جنگ بندی کا حکومتی کمیٹی کا مطالبہ درست نہیں۔مذاکرات کا سلسلہ میڈیا پر چل پڑا ہے جو مذاکراتی عمل کے لئے نقصان دہ ہے۔ کراچی اور مہمندایجنسی کے واقعات پر افسوس ہے ۔ یہ واقعات رونما نہ ہوتے تو ہم پیش رفت کی طرف جارہے تھے لیکن ان واقعات نے مذاکراتی عمل کو معطل کردیا ہے ۔ دونوں فریق زیادتی کے دعوے کررہے ہیں لیکن ہم کسی طرف کی بات بھی قبول یا رد نہیں کرسکتے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے المرکز اسلامی پشاور سے جاری کئے گئے ایک بیان میں کیا ۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں جنگ بندی یک طرفہ نہیں بلکہ دونوں طرف سے ہوتی ہے ۔ حکومت بھی جنگ بندی کا اعلان کرے۔ ایک فریق سے جنگ بندی کا مطالبہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے حکومتی اور طالبان کمیٹی کے درمیان ڈیڈلاک موجود ہے۔

مذاکرات جہاں رکے تھے وہیں رکے ہوئے ہیں۔جب تک دونوں کمیٹیاں ایک ساتھ نہیں بیٹھیں گی اور جنگ بندی کے معاملے پر اتفاق نہیں کریں گی اس وقت تک معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی کمیٹی کی جانب سے ملنے سے انکار کے بعد لگتا ہے مذکرات کا سلسلہ میڈیا پر چل پڑا ہے اور یہ سلسلہ میڈیا پر ہی چلتا رہے گا۔ حکومتی کمیٹی اور ہمارا آپس میں رابطہ آسان ہے لیکن ہمارا اور طالبان کا رابطہ مشکل سے ہوپاتا ہے ۔

ہمیں طالبان سے ملنے کے لئے زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے ۔ فون پر رابطے میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں ۔یوں لگ رہا ہے جیسے اب شرائط بھی میڈیا کے ذریعے سامنے آئیں گی ۔ طالبان اپنی شرائط ہم تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی بتا رہا ہے۔میڈیا کے ذریعے مذاکرات نقصان دہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک کمیٹیاں مل بیٹھ کر مشترکہ کوششیں نہیں کریں گی تب کسی کے بھی سچا اور جھوٹا ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

انہوں پشاور کے علاقے گلبہار نمبر 4 گھر پر دستی بم حملے کی شدید مذمت کی۔ جمعیت علمائے اسلام (س ) کے مرکزی ترجمان اور طالبان کمیٹی کے کوآرڈینیٹر مولانا یوسف شاہ نے کہا ہے کہ طالبان سے جو بھی شرائط منسوب کئے جاتے ہیں یہ سب میڈیا نے مفروضوں کے تحت پیش کئے ہیں اب تک طالبان کی جانب سے کوئی مطالبہ پیش نہیں کیا گیا ہے مذاکرات میں جو ڈیڈ لاک پیدا ہوا ہے بہت جلد اس کو پھر بحال کیا جائے گا اور بہت جلد قوم خوشخبری سنے گی ۔

عرفان صدیقی کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے جب بھی رابطہ ہوا تو ہم بیٹھنے کیلئے تیار ہیں تمام گروپس تحریک کی قیادت میں متحد ہو گئے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاور پریس کلب میں جے یو آئی (ف) اور پاکستان راہ حق پارٹی کے عہدیداروں کی جے یو آئی (س) میں شمولیت کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر جے یو آئی (ف) کے مولانا احمد خان نے اپنے ساتھیوں مولانا اشتیاق احمد ‘ مولانا الیاس ‘ مولانا ظہیر الدین ‘ مولانا سمیع اللہ اور پاکستان راہ حق پارٹی کے محسن اور اشفاق احمد صراف نے جے یو آئی (س) میں شمولیت کا اعلان کیا ۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا یوسف شاہ کا کہنا تھا کہ ملک میں جب بھی آگ لگی تو جمعیت علمائے اسلام (س ) نے اس آگ کو بجھانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے کئی سالوں سے ملک بالخصوص خیبر پختونخوا اس آگ کی لپیٹ میں ہے اور جے یو آئی (س) اس آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس حوالے سے جب وزیر اعظم نے مولانا سمیع الحق سے درخواست کی تو وہ میدان میں آگئے لیکن بد قسمتی سے حکومت پیچھے ہٹ گئی جب دوبارہ وزیراعظم نے مذاکرات کا فیصلہ کیا تو مولانا سمیع الحق نے ملک میں بد امنی کے خاتمے اور قیام امن کی خاطر ایک بار پھر مذاکراتی عمل میں حصہ بنیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ 17 فروری کو کامیابی کی دہلیز پر پہنچ چکے تھے اور سیز فائر کا اعلان ہونے والا تھا کہ اچانک کچھ واقعات کی وجہ سے ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہم نہیں چاہتے کہ اس ملک میں اور خون بہے اس لئے قیام امن کیلئے ہر کوشش جاری رکھیں گے اور آپس میں بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے تمام مسائل حل کرینگے ان کا کہنا تھا کہ اگر شاہی فرمان سے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو مذاکرات میں بیٹھنے کا کیا فائدہ ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے اب تک کوئی مطالبہ یا شرط نہیں رکھا ہے طالبان سے جو بھی شرائط منسوب کئے جاتے ہیں یہ سب میڈیا نے مفروضوں کے تحت پیش کئے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے فون پر تفصیلی گفتگو ہوئی اور وہ بھی مذاکرات کا سفر جاری رکھنے کا خواہاں ہیں ہم دعا کرتے ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں اور ملک ایک بار پھر خوشحالی کی طرف گامزن ہو ۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومتی کمیٹی کا کوئی رکن براہ راست طالبان سے رابطہ کرنا چاہتا ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہمارا کام امن کا قیام ہے اگر خدا نخواستہ امن مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو حکومت آپریشن کی جانب جائے گی جس کا سارا نقصان عوام کو ہوگا اور لاکھوں لوگ دربدر ہو جائینگے ۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان نے تمام گروپوں سے رابطے کئے ہیں اور وہ سب کل سے تحریک کے فیصلوں کے پابند ہونگے ان کا کہنا تھا کہ وہ حکومتی کمیٹی کے با اختیار ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے البتہ طالبان کمیٹی با اختیار ہے اور وہ مولانا سمیع الحق سے رابطے میں رہتے ہیں اور ان سے مشورہ کئے بغیر کوئی بیان جاری نہیں کرتے ۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک اور خصوصاً ہمارے صوبہ خیبر پختونخوا میں جو آگ لگی ہے اس میں میڈیا سمیت سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جس کا سارا فائدہ فوج ‘ عوام ‘ طلباء ‘ تاجر ‘ وکلاء اور حکومت کو ہو گا ۔ طالبان سے مذاکرات کیلئے حکومتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹرعرفان صدیقی نے کہاہے کہ طالبان کمیٹی کوبتادیاہے کہ جنگ بندی کے اعلان تک مذاکرات نہیں ہوسکتے ،کمیٹی کے معاملات جہاں رکھے ہیں وہیں پرہیں جبکہ طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسرابراہیم نے کہاہے کہ یک طرفہ جنگ بندی کامطالبہ درست نہیں ،جنگ بندی دونوں طرف سے ہوگی ،حکومت بھی جنگ بندی کااعلان کرے ۔

بدھ کے روزعرفان صدیقی نے میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ طالبان کوپہلے بغیرکسی شرط کے سیزفائرکرناہوگااورحکومتی کمیٹی یہ بات پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ طالبان کونہ صرف جنگ بندی کااعلان کرناہوگابلکہ اس پرعملدرآمدکی یقین دہانی بھی کراناہوگی ورنہ امن مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھ سکتا،ان کاکہناہے کہ مذاکراتی عمل کے ساتھ پرتشددکارروائیوں نے سارے مذاکراتی منظرکوبھی بدل کے رکھ دیاہے اورابھی تک طالبان نے حکومتی کمیٹی کی اپیل کاکوئی مثبت جواب نہیں دیا،طالبان کی رابطہ کارکمیٹی کی نیت پرشک نہیں نہ ان سے کوئی شکایت ہے ،اب دونوں کمیٹیوں کامل بیٹھناتبھی ممکن ہے جب طالبان غیرمشروط طورپرخودتشددختم کرنے کااعلان کریں گے ،طالبان رابطہ کارکمیٹی کے رکن پروفیسرابراہیم نے اپنے ایک بیان اورنجی ٹی وی پروگرام میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ ڈیڈلاک برقرارہے حکومت کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی کامطالبہ سمجھ سے بالاترہے ،جنگ بندی تودوطرفہ ہی ہوسکتی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ مذاکراتی عمل کاسلسلہ میڈیاپرچل پڑاہے ،جومذاکراتی عمل کے لئے نقصان دہ ہے ۔انہوں نے کہاکہ جنگ بندی دونوں طرف سے ہوتی ہے ،حکومت بھی جنگ بندی کااعلان کرے ،جب تک دونوں کمیٹیاں ساتھ بیٹھ کرجنگ بندی پراتفاق نہیں کریں گی ،اس وقت تک معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے ،اورجب تک دونوں کمیٹیاں مشترکہ کوششیں نہیں کریں گی تب تک کس کے سچے اورجھوٹے ہونے بارے کچھ نہیں ہوسکتا۔