جن پولنگ سٹیشنز پر خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی ہوگی ان کے نتائج تسلیم نہ کئے جائیں اور امیدواروں کو نااہل قرار دیا جائے،پارلیمانی امور کمیٹی کی سفارش،انتخابات عدلیہ کے نہیں الیکشن کمیشن کے زیر نگرانی قابل قبول ہیں،ریٹرننگ آفیسرز کو غیر متعلقہ اور ذاتی سوالات سے روکنے کے ساتھ امیدواروں کی تضحیک سے گریز کیا جائے، ای ووٹنگ سسٹم، الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیو میٹرک ڈیوائس کے استعمال پر مشاورت کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس طلب ، ”35 پنکچرز “ کے معاملے پر کارروائی نہیں کرسکتے، الیکشن کمیشن کا اختیار صرف 60 دن کا ہے،پارلیمنٹ چاہے تو مدت 400دن کر سکتی ہے،سیکرٹری الیکشن کمیشن، 2 سال میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین قابل عمل بنالیں گے، بارہا قانون سازی کا مطالبہ کیا مگر سابق پارلیمنٹ میں توجہ نہ دی گئی، قائمہ کمیٹی کو بریفنگ

بدھ 19 فروری 2014 03:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19فروری۔2014ء)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے سفارش کی ہے کہ جن پولنگ سٹیشنز پر خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی ہوگی ان کے نتائج تسلیم نہ کئے جائیں اور امیدواروں کو نااہل قرار دیا جائے اورکہاہے کہ انتخابات عدلیہ کے نہیں الیکشن کمیشن کے زیر نگرانی قابل قبول ہیں، شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں، قانون سازی کیلئے ہر ممکن تعاون کرینگے ،ریٹرننگ آفیسرز کو غیر متعلقہ اور ذاتی سوالات سے روکنے کے ساتھ امیدواروں کی تضحیک سے گریز کیا جائے اور ای ووٹنگ سسٹم، الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیو میٹرک ڈیوائس کے استعمال کی مشاورت کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے مشاورت کیلئے الگ اجلاس بھی طلب کرلیا جبکہ سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے کہاہے کہ ”35 پنکچرز “ کے معاملے پر کارروائی نہیں کرسکتے، الیکشن کمیشن کا اختیار صرف 60 دن کا ہے،پارلیمنٹ چاہے تو مدت 400دن کر سکتی ہے، 2 سال میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین قابل عمل بنالیں گے، 2016ء کے بعد ملک بھر میں انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرائے جائینگے، بارہا قانون سازی کا مطالبہ کیا مگر سابق پارلیمنٹ میں توجہ نہ دی گئی، سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر عدلیہ سے انتخابات کرائے تھے۔

(جاری ہے)

منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کا اجلاس چیئرمین میاں عبدالمنان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں اراکین کمیٹی، وزارت پارلیمانی امور، الیکشن کمیشن اور نادرا حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیو میٹرک ڈیوائس کے ذریعے انتخابات کرانے کے معاملات کا جائزہ لیاگیا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے کمیٹی کوبریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرائے جاتے ہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کئی سال قبل الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر کام شروع کیا تھا جنوری 2016ء کے بعد سے الیکشن کمیشن ملک بھر میں تمام انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانے کے قابل ہوجائیگا ۔

انہوں نے مزید بتایاکہ اب بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو قابل عمل بنانے کیلئے 2برس کا عرصہ درکار ہے جس کے دوران پولنگ سٹاف کی تربیت مشین کا جائزہ سمیت دیگر امور طے کرنا ہیں۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ قانون کے مطابق ملک میں انتخابات الیکٹرانک مشین کے ذریعے نہیں ہوسکتے اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے دھاندلی کی شکایات میں کمی ، ووٹوں کی گنتی میں آسانی، ٹرن آؤٹ میں اضافے سمیت دیگر معاملات میں بہتری آئیگی۔

جس پر چیئرمین کمیٹی میاں عبدالمنان نے کہاکہ حکومت ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے سنجیدہ ہے اور وزیراعظم میاں نوازشریف نے خصوصی پیغام کے ذریعے باور کرایا ہے کہ آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ چیئرمین نے کہاکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی قانون سازی کیلئے جلد قومی اسمبلی میں بل پیش کیا جائیگا۔

سیکرٹری الیکشن کمیشن نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن نے2010-14ء کے سٹرٹیجک پلان کے 80فیصد اہداف حاصل کرلئے ہیں۔ 2014-18ء کے پلان کی تشکیل مراحل میں ہے جسے مارچ 2014ء تک کمیٹی میں پیش کردیا جائیگا۔ کمیٹی نے ملک کے مختلف علاقوں میں عورتوں کو ووٹ نہ ڈالنے کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ جن علاقوں میں خواتین ووٹرز کو حق رائے دہی کا استعمال نہیں کرنے دیاگیا ان امیدواروں کو نا اہل قرار دیا جائے جس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن تجویز پیش کی کہ عورتوں کے ووٹ کو یقینی بنانے کیلئے قانون سازی کی جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ہر پولنگ سٹیشن پر 10 سے 15فیصد ووٹ خواتین کے لازم پول ہونے چاہئیں بصورت دیگر اس پولنگ اسٹیشن کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے دوبارہ پولنگ کا حکم جاری کیا جائیگا۔

اراکین کمیٹی نے 2013ء کے عام انتخابات کے دوران ریٹرننگ آفیسرز کے رویوں کو غیر مناسب اور ناشائستہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ غیر متعلقہ سوالات پوچھ کر امیدواروں کی تضحیک کی گئی ، ہماری تجویز ہے کہ آئندہ انتخابات میں عدلیہ کی بجائے الیکشن کمیشن کے زیر اہتمام کرائے جائیں اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو 500سے 1000سٹاف بھی درکار ہو تو اسے فراہم کیا جائے اور الیکشن کمیشن اپنے قواعد وضوابط تشکیل دے جس کی پابندی سب پر لازمی ہو۔

جس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہاکہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن وفاقی ، صوبائی اور مقامی حکومتوں سے ملازموں الیکشن منعقد کرانے کیلئے عارضی بنیادوں پر لے سکتاہے جبکہ 2009 ء کی جوڈیشل پالیسی میں عدلیہ کے انتخابات میں کردار پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس موقع پر رکن کمیٹی نفیسہ شاہ نے اعتراض کیا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انتخابات سے قبل اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ریٹرننگ آفیسر ز کا اجلاس طلب کیا، جبکہ ن لیگ کے رکن کمیٹی میاں طارق محمودنے اعتراض عائد کرتے ہوئے کہاکہ عدلیہ کی آزادی کیلئے قربانیاں دیں مگر ہمیں تضحیک کا نشانہ بنایاگیا ، ہمیں عدلیہ کی بجائے الیکشن کمیشن کے تحت انتخابات منظور ہیں۔

اس موقع پر چیئرمین کمیٹی میاں عبدالمنان بھی پھٹ پڑے اور کہاکہ ذاتی سوالات یا آیات کریمہ سننے کااختیار کس طرح ریٹرننگ آفیسرز کو دیدیا گیا ہے جس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے یہ جواز پیش کرتے ہوئے کہاکہ 2012ء میں سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر عدلیہ کے زیر نگرانی انتخابات کے انعقاد کیاگیا ۔ امیدواروں کی تضحیک کا مسئلہ آرٹیکل 62-63 کی غلط تشریح کی وجہ سے ہوا جو،بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد یہ معاملہ ختم ہوگیا۔

کمیٹی نے انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیو میٹرک ڈیوائس کے استعمال کی مشاورت کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے مشاورت کیلئے الگ اجلاس بھی طلب کرلیا جبکہ وزارت خزانہ کو بھی آئندہ اجلاس میں الیکشن کمیشن کے سٹاف کی فراہمی کے امو ر کا جائزہ لینے کیلئے طلب کرلیاگیاہے ۔

کمیٹی اجلاس کے دوران نادرا حکام نے خیبرپختونخواہ میں بائیو میٹرک نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ پشاو ر میں آزمائشی بنیادوں پر کئے جانے والے عمل میں مشین کے چند نقائص سامنے آئے تھے جن کو حل کرلیاگیاہے ۔ حکام نے بتایاکہ مشین کی خریداری اور اس کی لاجسٹک کھپت کے حوالے سے سمری الیکشن کمیشن کو بھجوادی گئی ہے۔

انتخابات کے حوالے سے جس حد تک نادران کا تعاون درکار ہوا الیکشن کمیشن کو فراہم کرینگے۔ کمیٹی اجلاس کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے عام انتخابات کے دوران مبینہ طور پر دھاندلی اور 35پنکچرز کا معاملہ بھی زیر بحث آگیا اوراس دوران سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہاکہ قوانین کے مطابق عام انتخابات کی شکایات کا معاملہ 60 روز میں زیر غور آتاہے اگر اراکین چاہیں تو قانون سازی کے ذریعے اسے 400دنوں تک بڑھاسکتے ہیں تاہم مذکو رہ 35 پنکچرز کا معاملہ 60 دنوں میں سامنے نہیں لایاگیا جس کے باعث الیکشن کمیشن اس معاملے کا نوٹس نہیں لے سکتا۔