خورشید شاہ کا طالبان سے تمام قیدیوں کو فوری رہا اور حکومت سے حقیقی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ،نوازشریف لیڈر بن کر فیصلہ کریں،وزیراعظم بن کر نہیں،ان کی کرسی کو ئی خطرہ نہیں،عمران خان نے بیان دیکر طالبان کو پیغام دیا کہ یہ خوفزدہ ہیں، ڈٹ جاؤ ،انہوں نے ملک کی خدمت نہیں کی جمہوری اور عسکری قوتوں کی پیٹھ پر چھرا گھونپا، نواز شریف کھل کر وضاحت کریں، کراچی میں چیک کیا جائے کہ طالبان کے پاس اسلحہ کہاں سے آرہا ہے،اپوزیشن لیڈر کی پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو

بدھ 19 فروری 2014 03:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19فروری۔2014ء)قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے طالبان سے تمام قیدیوں کو فوری رہا کرنے اور حکومت سے حقیقی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوازشریف لیڈر بن کر فیصلہ کریں،وزیراعظم بن کر نہیں،ان کی کرسی کو ئی خطرہ نہیں، وہ بہت مضبوط ہے،ہمیں اتنا مینڈیٹ نہیں ملا تھا موجودہ حکومت کے پاس پورا مینڈیٹ ہے، عمران خان نے بیان دیکر سیاسی عدم پختگی کا اظہار کیا ۔

طالبان کو پیغام دیا ہے کہ یہ خوفزدہ ہیں، ڈٹ جاؤ ،عمران خان نے ملک کی خدمت نہیں کی بلکہ جمہوری اور عسکری قوتوں کی پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے ۔ نواز شریف کو عمران کے بیان پر کھل کر وضاحت کرنی چاہیے ۔ کراچی میں راہداری بند کر کے چیک کیا جائے کہ طالبان کے پاس اسلحہ کہاں سے آرہا ہے کیونکہ انہیں اسلحہ ایم کیو ایم اورمیمن نہیں دیں گے۔

(جاری ہے)

منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سید خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن نے جس طرح کی حمایت کی اور کوئی خلا نہیں ہم نے کہا کہ حکومت ہر اقدامات کی حمایت کریں گے۔

عوام کا تاثر غلط ہوتا جارہا ہے کہ اپوزیشن اپنا کردار ادا نہیں کررہی ۔ہم بات کا بتنگڑ نہیں بنانا چاہتے۔وزیراعظم نے مذاکرات کے متعلق جو بیان دیا اس کا پہلا حصہ آپریشن کا تاثر دیتا تھا جبکہ دوسرے حصے میں مذاکرات کی بات کی گئی ۔جو مذاکرات کے لئے ٹیم بنائی ہم نے کہا کہ ٹیم میں اہلیت نہیں مگر پھر بھی خاموش رہے۔حکومت سے اسی لئے ٹائم فریم مانگا کیونکہ یقین تھا کہ اس ٹیم کے تحت مذاکرات آگے نہیں بڑھیں گے۔

جیسے ہی مذاکرات شروع ہوئے خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی شروع ہوگئی ۔شروع کے واقعات کی طالبان نے ذمہ داری قبول نہیں کی اچانک کراچی میں بلاول ہاؤس پر لگائے جانے والی ٹیم پر حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی ۔23 ایف سی اہلکاروں کا قتل شریعت کا قتل ہے کیونکہ اسلام آباد اور شریعت قیدیوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتی ۔طالبان کا بیان آیا تھا کہ ہماری لڑائی جنرل کیانی سے نہیں بلکہ فوج سے ہے ۔

وزیر اعظم کا بیان آیا ہے کہ مذاکرات جنگ بندی تک بند کر دیئے ہیں مگر یہ تسلسل کب تک رہے گا ۔انہوں نے کہا کہ ایک تقریب سے شرکت کر کے نکلا تو تین نوجوان لڑکوں نے سوال کیا کہ آپ کب تک فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے رہیں گے؟۔ ہم کب تک اپنے لوگوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟۔انہوں نے کہا کہ عوام کی امید حکومت سے ہے ۔یہ ماحول اور طریقہ کب تک پاکستان برداشت کرے گا۔

ٹیپو سلطان کا قول ہے کہ گیدڑ کی سودن کی زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔طالبان اپنی کارروائیاں کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں افواج پاکستان کے لیڈروں کو تین مرتبہ بلایا۔ سوات آپریشن پر بات کی ۔حکومت اور ہم میں فرق یہ ہے کہ چیلنج کے باوجود آپریشن بھی کئے ۔ہمارا موازنہ اپنے ساتھ نہ کیا جائے، ہمیں قوم نے مینڈیٹ نہیں دیا ،ہم نے اتحادیوں کے ساتھ حکومت چلائی ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کومکمل مینڈیٹ ملا ہے اوراسے کسی جماعت کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کو کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔انہوں نے کہا کہ فورسز نے پوچھے بغیر رد عمل دکھایا ہے اس کے بعد مذاکرات پر گئے ہیں۔حکومت اور فورسز ایک پیج پر ہونے چاہئیں ۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے بیان دیکر سیاسی عدم پختگی کا اظہار کیا ہے۔

طالبان کو پیغام دیا ہے کہ یہ خوفزدہ ہیں، ڈٹ جاؤ اور فوج میں بھی پریشانی ہوئی ۔عمران خان نے ملک کی خدمت نہیں کی بلکہ جمہوری اور عسکری قوتوں کی پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے ۔اس بیان کے بعد دیکھ لیں کہ دہشت گردی کے کتنے واقعات ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کو عمران کے بیان پر کھل کر وضاحت کرنی چاہیے ۔لیڈر بن کر فصلے کرنے چاہئیں،وزیر اعظم بن کر نہیں ۔

ان کی کرسی مضبوط ہے۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ اب ملکی مفاد میں فیصلہ کرنے کی بات ہے۔ریاست کے تحفظ کے لئے کیا فیصلہ کرنا ہے۔حکومت قومی لیڈر شپ کو بٹھا کر تمام حقائق پیش کرے ۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں فاٹا اصلاحات ہوئیں۔مزید اصلاحات کی راہ میں دہشت گردی شامل ہے ۔یہاں کامیابی حکومت کی بلوچستان میں کامیابی کی نوید دے گی ۔

یہاں ناکامی وجہ سے بلوچستان میں واقعات ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ریاست کو محفوظ کرنے کے لئے فیصلے حکومت نے کرنے ہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔لوگ بجلی اور گیس کو بھول گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کل جماعتی کانفرنس کو چھوڑ کر حقیقی لیڈر شپ کو بلا کر تمام حالات سے آگاہ کیا جائے اور کھل کر بات کی جائے۔ طالبان نے سب چیزوں کو سبوتاژ کیا ہے اس لئے انہیں چاہیے کہ جتنے قیدی ان کے پاس ہیں ان کو چھوڑیں اس سے ظاہر ہوگا کہ وہ سنجیدہ ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں راہداری بند کر کے چیک کیا جائے کہ طالبان کے پاس اسلحہ کہاں سے آرہا ہے کیونکہ انہیں اسلحہ ایم کیو ایم اورمیمن نہیں دیں گے۔