قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک کا ملک میں زرعی مالکاری کے فروغ کے لیے چھ نکاتی ایکشن پلان کا اعلان ، زراعت ہماری معیشت کا بے حد اہم شعبہ ہے،معیشت کے دوسرے شعبوں کے ساتھ اس کے رابطے ہیں جس کے بہت اہم معاشرتی اور معاشی اثرات ہیں، دوسرا سب سے بڑا شعبہ ہے جو جی ڈی پی کے 21 فیصد سے زیادہ کا حامل ہے، اپنے ایکشن پلان کا خاکہ بیان

منگل 18 فروری 2014 07:24

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18فروری۔2014ء)اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قائم مقام گورنر اشرف محمود وتھرا نے ملک میں زرعی مالکاری کے فروغ کے لیے چھ نکاتی ایکشن پلان کا اعلان کیا ہے۔ پیر کو اسٹیٹ بینک کراچی میں ایگری کلچرل کریڈٹ ایڈوائزری کمیٹی (ACAC) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ایکشن پلان کا خاکہ بیان کیا جس میں یہ اقدامات شامل ہیں: (i) دیہی اور زرعی قرضوں کے لیے Financial Innovation Challenge Fund -FICF کا آغاز، تاکہ مالیاتی جدت کو فروغ دیا جائے اور نئی مارکیٹوں کو ٹیسٹ کیا جائے، ڈیلیوری کا خرچ گھٹایا جائے، اور کاشت کاری کی سرگرمیوں کی بھاری طلب پوری کرنے کے نئے اور زیادہ موٴثر طریقے اور سسٹم بنائے جائیں، (ii) ملک بھر کے 100 ٹاپ زرعی گریجویٹس کے لیے ”انٹرن شپ پروگرام“ کا آغاز جس کے لیے رقم اے ڈی بی کے Financial Services Endowment Fund سے لی جائے گی، (iii) زرعی قرضے کی صوبائی تقسیم کے ٹارگٹ برائے 2013-14ء کو 360 بلین روپے سے بڑھا کر 380 بلین روپے کرنا، کیونکہ گذشتہ دو سال میں بینکوں کی کارکردگی حوصلہ افزا رہی ہے، یہ ٹارگٹ 2012-13ء میں تقسیم کیے گئے قرضے 336 بلین روپے سے 13 فیصد زائد رکھا گیا ہے، (iv) رواں سال سے بینکوں کو ٹارگٹ دیے جائیں گے کہ وہ آؤٹ اسٹینڈنگ ایگرکلچر پورٹ فولیو اور قرض گیروں کی تعداد پوری کریں تاکہ زرعی قرضوں کا نچلی سطح تک زیادہ اثر ہو، (v) اسٹیٹ بینک زرعی قرضوں کو بینکوں بشمول اسلامی بینکوں کی کارکردگی کا اہم اشاریہ بنائے گا جو اُن کی supervisory ratings میں ظاہر ہو گا، اور (vi) ایک ورکنگ گروپ کی تشکیل جو چھوٹے کاشت کاروں کے قرضوں کی صورتحال کا جائزہ لے، اور اس طبقے کے قرضے بڑھانے کے لیے سفارشات دے، نیز مزید چھوٹے کاشت کاروں کو قرضے کے باقاعدہ نظام میں لانے کی بھی سفارشات پیش کرے۔

(جاری ہے)

پاکستان کی معاشی ترقی میں شعبہ زراعت کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے اشرف محمود وتھرا نے کہا کہ پاکستان دنیا میں گندم کی پیداوار میں نویں، کپاس میں چوتھے اور چاول میں بارہویں نمبر پر ہے۔ پاکستان چھوٹی زرعی اشیا کے دس سب سے بڑے پیدا کنندگان میں شامل ہے۔ زرعی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ا شرف محمود وتھرا نے کہا کہ زراعت مجھے بہت عزیز ہے کیونکہ میرا تعلق بھی ایک زرعی گھرانے سے ہے۔

چنانچہ اسٹیٹ بینک میں آنے کے بعد سے زرعی مالکاری اِس ادارے کی اوّلین ترجیحات میں شامل ہوگئی ہے۔انہوں نے کسانوں کے نمائندوں اور حکومتی محکموں پر زور دیا کہ بینکوں کی کوششوں میں شامل ہوں اور طلبی پہلو کی رکاوٹیں دور کریں جن میں کم پیداوار، مناسب مارکیٹنگ اور ذخیرہ کاری، پانی کا مؤثر استعمال، زمین کے ریکارڈ کا انتظام، جدید تکنیک کا اختیار کرنا، مشینوں اور دیگر زرعی جدتوں کا استعمال شامل ہیں۔

وتھرا نے کہا کہ صنعت کاری کی جانب جانے کے باوجود زراعت ہماری معیشت کا بے حد اہم شعبہ ہے اور معیشت کے دوسرے شعبوں کے ساتھ اس کے رابطے ہیں جس کے بہت اہم معاشرتی اور معاشی اثرات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دوسرا سب سے بڑا شعبہ ہے جو جی ڈی پی کے 21 فیصد سے زیادہ کا حامل ہے۔انہوں نے شرکا کو اسٹیٹ بینک کے چند اہم حالیہ اقدامات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے زرعی مالکاری کے لیے پروڈنشل ریگولیشنز میں ترامیم کرتے ہوئے بینکوں پر زور دیا ہے کہ وہ جامع زرعی فنانس پالیسیاں بنائیں اور بینکوں کے اندر اس مقصد کے لیے مخصوص ڈویژن یا یونٹ قائم کریں جن میں تربیت یافتہ پروفیشنل عملہ موجود ہو، تاکہ زرعی قرضے کو فروغ ملے۔

انہوں نے مزید کہا کہ زرعی مالکاری کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے اور ترمیم شدہ پروڈنشل ریگولیشنز میں اسلامی نیز ویلیو چین فنانسنگ کے پہلو بھی شامل کردیے گئے ہیں۔قائم مقام گورنر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے فصلوں، باغات اور جنگلات کے لیے قرضے کی فی ایکڑ اشاراتی (indicative) حد میں بھی تبدیلی کی ہے جو پہلے 2008ء میں مقرر کی گئی تھی۔ اس سے کسانوں کی قرضے کی بڑھی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے اور بینکوں کا کریڈٹ پورٹ فولیو کئی گنا بڑھانے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے قرض لینے والوں کے لیے لائیو سٹاک انشورنس اسکیم شروع کی ہے تاکہ بیماری، قدرتی آفات اور حادثات کی وجہ سے مویشیوں کے نقصان کا خطرہ کم سے کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ حکومت سے چھوٹے کسانوں کے لیے پریمیم سبسڈی فراہم کرنے کی درخواست بھی کی گئی ہے جیسا کہ کراپ لون انشورنس کے معاملے میں کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بینکوں میں زرعی مالکاری کے حوالے سے افسران کی صلاحیتیں بڑھانے کے لیے اسٹیٹ بینک ’نباف‘ کی شراکت سے کمرشل اور مائیکرو فنانس بینکوں کے زرعی قرضہ افسران کا تربیتی پروگرام کروا رہا ہے۔ ادھر، اسٹیٹ بینک کا کسانوں کے لیے مالی خواندگی کا پروگرام چل رہا ہے جس کا مقصد نچلی سطح پر آگاہی بڑھانا ہے اور تقریباً 400 زرعی قرضہ افسران کو کسانوں کی مالی خواندگی کے سیشن کرانے کے طریقوں کی تربیت دی گئی ہے۔

وتھرا نے کہا کہ ان اقدامات سے فائدہ ہوا ہے، ان کے نتیجے میں زرعی قرضے کی تقسیم مالی سال 13ء میں بڑھ کر 336 بلین روپے تک پہنچ گئی ہے۔ حالیہ برسوں میں بینک زرعی شعبے کے قرضے کی ضروریات کو پہلے سے بڑھ کر پورا کر رہے ہیں، تاہم ایک بڑا طبقہ اب بھی موجود ہے جس کی باضابطہ قرضے کی ضرورت پوری نہیں ہوتی، کیونکہ بینک زرعی شعبے کی مجموعی ضروریات کا صرف 45 فیصد پورا کرتے ہیں۔

انہوں نے بینکوں پر زور دیا کہ وہ اس تناسب میں معقول اضافہ کریں۔ کاشت کار برادری کے نمائندوں نے قائم مقام گورنر کے انگریزی کے بجائے اردو میں خطاب کرنے کو سراہا کیونکہ کسان قومی زبان آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔حبیب بینک اور فیصل بینک نے زرعی فنانسنگ کے فروغ کے لیے اپنے اختراعی اور کامیاب ماڈلز پر پریزینٹیشنز دیں۔ اشرف محمود وتھرا ے ان اختراعی ماڈلز کی تعریف کی اور امید ظاہر کی کہ دوسرے بینک زرعی مالکاری کے فروغ کے لیے ان ماڈلز کی تقلید کریں گے۔

شرف محمود وتھرا نے بینکوں اور کاشتکار برادری کے نمائندوں کو یقین دلایا کہ ان کی تمام حقیقی شکایات کا جائزہ لیا جائے گا اور دیگر متعلقہ فریقوں کی شراکت سے حل کیا جائے گا۔ انہوں نے بینکوں پر زور دیا کہ زرعی شعبے میں مالی وساطت (intermediation) کا بڑھا کر پاکستان کی معاشی ترقی میں فعال کردار ادا کریں۔ اجلاس میں دیگر کے علاوہ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سعید احمد، ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک محمد اشرف خان، اسٹیٹ بینک، کمرشل بینکوں، تخصیصی بینکوں، مائیکروفنانس بینکوں اور اسلامی بینکوں کے سینئر افسران اور وفاقی و صوبائی حکومتوں اور کاشتکاروں کی انجمنوں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ #

متعلقہ عنوان :