طالبان مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس طے کرنے کے بعد عین وقت پر حکومتی کمیٹی کے اکوڑہ خٹک نہ آنے پر شدید افسوس کا اظہار ،حکومتی کمیٹی نے ہمیں بھی طالبان قرار دیدیا ہے ، ہم مشاورت سے مسائل کا حل چاہتے ہیں ، ان حالات میں مشاورت کیلئے مل بیٹھنا فرض عین بن جاتا ہے، اگر کسی قسم کا آپریشن کیا گیا تو اس سے بڑا جانی و مالی نقصان ہوگا ، آج تک کوئی آپریشن بھی مفید ثابت نہیں ہوسکا،کمیٹی اجلاس کے بعد کمیٹی کے ارکان پروفیسر محمد ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ کی میڈیا سے بات چیت ،مل کر فیصلے کرنا نہایت ضروری ہے وزیراعظم نواز شریف کوچاہیے کہ وہ دونوں کمیٹیوں سے بریفنگ لیں ،مشترکہ بیان، ہم انتہائی مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں ہم نے میرانشاہ کا سفر کرکے بڑی پیش رفت کی تھی،پروفیسر ابراہیم

منگل 18 فروری 2014 07:17

اکوڑہ خٹک(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18فروری۔2014ء) طالبان کی طرف سے بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی نے اجلاس طے کرنے کے بعد عین وقت پر حکومتی کمیٹی کے اکوڑہ خٹک نہ آنے پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی کمیٹی نے ہمیں بھی طالبان قرار دیدیا ہے جبکہ ہم مشاورت سے مسائل کا حل چاہتے ہیں ا ور ان حالات میں مشاورت کیلئے مل بیٹھنا فرض عین بن جاتا ہے، اگر کسی قسم کا آپریشن کیا گیا تو اس سے بڑا جانی و مالی نقصان ہوگا اور آج تک کوئی آپریشن بھی مفید ثابت نہیں ہوسکا ۔

طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس پیر کو یہاں کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی رہائش گاہ پر ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان پروفیسر محمد ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ شریک ہوئے ۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا یوسف شاہ نے اجلاس کامشترکہ بیان پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا تھا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور طالبان کی نامزد کمیٹی کا مشترکہ اجلاس مولانا سمیع الحق کی رہائش گاہ اکوڑہ خٹک میں طے پایا تھا لیکن آخری وقت میں جب یوسف شاہ نے حکومتی کمیٹی کے رابطہ کار عرفان صدیقی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کی کمیٹی کے ارکان کی رائے میں یہ اجلاس نہیں ہونا چاہیے اس لئے وہ نہیں آرہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہ کمیٹیاں ثالث کا کردارادا کررہی ہیں ہم خود کو حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے الگ نہیں سمجھتے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی کمیٹی نے آج دوسری مرتبہ اس قسم کا رویہ اختیار کیا ہے اس سے پہلے چار فروری کو اسلام آباد میں اجلاس ہونا تھا جس میں مولانا سمیع الحق گھنٹوں کا سفر طے کرکے پہنچے تھے مگر آخری لمحے میں بتایا گیا کہ حکومتی کمیٹی کے ارکان آج کے اجلاس میں شرکت نہیں کرینگے اور آج دوسری مرتبہ یہی کہا گیا ہے ۔

مشترکہ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ ہمیں بھی مہمند ایجنسی کے واقعہ پرافسوس ہے اگر اجلاس ہوتا تو ہم مل بیٹھ کر اس قسم کے واقعات کی روک تھام اور امن کیلئے سر جوڑ کر صلاح مشورہ کرتے مگر افسوس ہے کہ ہمیں طالبان قرار دیکر یہ اجلاس ملتوی کردیا گیا جو انتہائی افسوسناک ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات میں مشاورت کیلئے مل بیٹھنا فرض عین بن جاتا ہے ۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بعض ذرائع ابلاغ کی اطلاع کے مطابق حکومت نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کرلیا ہے مگر ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ دس سالوں میں کوئی نتیجہ نہیں نکلا اس سے لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ، ہزاروں جانیں ضائع اور سینکڑوں بستیاں اجڑ جائینگی ۔ بیان میں کہا گیا کہ آج ہم جنگ بندی کے قریب پہنچ گئے تھے اور ہم اس عمل کو آگے لے جانا چاہتے تھے لیکن افسوس ہے کہ اجلاس نہیں ہوسکا جس میں ہم نے اس قسم کے واقعات کو روکنے پر غور کرنا تھا ۔

مشترکہ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ ہمیں اب بھی یقین ہے کہ تشدد اور خونریزی اور تباہی سے بچنے کیلئے رابطے مضبوط کئے جائیں ہم مقتدر حلقوں سے براہ راست رابطے کی کوشش کررہے ہیں اور ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی کمیٹی کو بھی مقتدر حلقوں سے رابطے کا موقع نہیں مل رہا ۔ مل کر فیصلے کرنا نہایت ضروری ہے وزیراعظم نواز شریف کوچاہیے کہ وہ دونوں کمیٹیوں سے بریفنگ لیں کیونکہ دونوں کمیٹیوں کا مقصدمذاکرات کے ذریعے امن کا قیام ہے ۔

وزیراعظم کو دونوں کمیٹیوں کو سننا چاہیے اس موقع پر مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ ہم انتہائی مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں ہم نے میرانشاہ کا سفر کرکے بڑی پیش رفت کی تھی طالبان سے مثبت جواب لائے تھے اور ہماری کوشش تھی کہ جلد جنگ بندی ہو ۔ یہ ایک مشکل اور کٹھن کام ہے طالبان قانونی طور پر کالعدم اور زیر زمین ہیں ہم بھی ان سے مشکل سے رابطہ کرتے ہیں لیکن ہم نے ملک وقوم کو امن دینے کیلئے یہ سب کچھ کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس میڈیا کے بہت سے سوالوں کے جواب نہیں ہوتے طالبان نے مہمند ایجنسی کے واقعہ پر وضاحتیں جاری کی ہیں اور آج ہم بھی مل کر ان سے وضاحت مانگتے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم طالبان کا دفاع نہیں کرسکتے ان واقعات میں بہت سے ہاتھ ملوث ہیں ہم نہیں کہہ سکتے کہ کون کیا کررہا ہے ہم نے تو حکومتی کمیٹی سے مل کر اپیل کی ہے کہ پرتشدد کارروائیوں سے روکیں ۔

علماء و مشائخ کے کنونشن میں بھی یہی اپیل کی گئی تھی اور ہم اب بھی اپیل کرتے ہیں کہ ملک کو بچائیں ۔انہوں نے کہا کہ آج جب حکومتی کمیٹی کے ارکان نہیں آئے تو یقیناً یہ ڈیڈ لاک پیدا ہوا ہے اور ہم اس پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری حیثیت ثالث کی ہے اور ہم اپنی یہ حیثیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں اگر ہم فریق بن گئے تو پھر بات آگے نہیں بڑھے گی ۔ باہمی بات چیت کے ذریعے ہی کسی حل کی طرف پیش رفت ہوسکتی ہے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں مولانا یوسف شاہ نے کہا کہ طالبان نے ہمیں اپنا کوئی فیصلہ دیا تھا جس کے بعد ہم نے یہ اجلاس بلایا تھا لیکن جب تک ہم نتیجے تک نہیں پہنچتے کوئی چیز سامنے نہیں لاسکتے ۔