طالبان اورحکومت کے مذاکرات کھٹائی میں پڑگئے ،حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے طالبان کمیٹی سے ملاقات سے معذرت کر لی ،ایف سی اہلکاروں کے قتل کے واقعے کے بعد مذاکراتی کمیٹیوں کے اجلاس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، عرفان صدیقی، طالبان کمیٹی کے احساسات حکومتی کمیٹی سے مختلف نہیں، مولانایوسف ،طالبان باضابطہ طورپرجنگ بندی کااعلان کریں،اب کوئی معجزہ ہی مذاکرات کوواپس لاسکتاہے ،رستم شاہ مہمند،حکومت پر دباوٴ بڑھ گیا ہے‘اب حکومت کو ہی فیصلہ کرنا ہے کہ مذاکراتی عمل کو روکا جائے یا وضاحتیں طلب کی جائیں،رحیم اللہ یوسفزئی

منگل 18 فروری 2014 07:17

اسلام آباد،اکوڑہ خٹک (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18فروری۔2014ء)تحریک طالبان مہمند ایجنسی کی جانب سے اغوا کیے گئے 23 ایف سی اہل کاروں کے قتل کے بعد طالبان اورحکومت کے مذاکرات کھٹائی میں پڑگئے ہیں حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے اکوڑہ خٹک میں طالبان مذاکراتی کمیٹی سے ملاقات سے انکار کر دیا ہے۔اس حوالے سے حکومتی کمیٹی کے کو آرڈی نیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ 23ایف سی اہلکاروں کے قتل کے واقعے کے بعد مذاکراتی کمیٹیوں کے اجلاس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ان کا مزید کہنا ہے کہ اس قسم کے واقعات مذاکرات پر انتہائی منفی اثر دال رہے ہیں۔مذاکراتی ٹیم نے اتفاق رائے سے اس واقعے کو افسوس نا ک اور قابل مذمت قرار دیا ہے ۔کالعدم تحریک طالبان مہمند ایجنسی نے اغوا کیے گئے 23 ایف سی اہل کاروں کو اتوار کوقتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا ، جس کی وجہ سے مذاکراتی عمل مشکل صورتحال سے دو چار ہے۔

(جاری ہے)

پیر کو اکوڑہ خٹک میں طے شدہ کمیٹیوں کا اجلاس ملتوی ہوگیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی کمیٹی اعلیٰ قیادت کی جانب سے باقاعدہ ردعمل اور ہدایات کی منتظر ہے ،جس سے طے ہوسکے گا کہ مذاکراتی عمل کو روکا جائے یا وضاحتیں طلب کی جائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں پولیس بس پر حملے کے بعد حکومت پہلے ہی دباو کا شکار تھی اور ایف سی اہل کاروں کے قتل کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔

علاوہ ازیں حکومتی کمیٹی میں شامل ایک عہدیدار نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ شدت پسندوں کی نامزد کردہ ٹیم کو یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ پیر کو ہونے والی ملاقات ”اب نہیں ہو گی اور طالبان کمیٹی اور سیاسی شوریٰ سے وضاحتیں مانگی ہیں“۔”ہم نے ان سے وضاحت مانگی ہے کہ ہم تو بات کر رہے تھے فائر بندی کی اور اب یہ بات ہو گئی ہے تو ان حالات میں ملنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

“سرکاری اور طالبان کی تشکیل کردہ مذاکراتی ٹیم نے پیر کو ملنا تھا جس میں توقع کی جارہی تھی کہ حکومت کے فائر بندی کے مطالبے پر طالبان شوریٰ کے فیصلے سے سرکاری ٹیم کو آگاہ کیا جائے گا۔تاہم اتوار کو رات گئے کالعدم تحریکِ طالبان مہمند ایجنسی کے سربراہ عمر خراسانی نے بذریعہ ای میل ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ اس کے جنگجووٴں نے سکیورٹی اداروں کی تحویل میں موجود اپنے زیرِ حراست ساتھیوں کے قتل کے واقعات کے بعد بطورِ انتقام 23 ایف سی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا ہے۔

ان اہلکاروں کو طالبان نے 2010ء میں یرغمال بنایا تھا۔طالبان نے جمعہ کو کراچی میں پولیس وین پر حملے میں 13 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مزید ایسی کارروائیوں کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اکوڑہ خٹک میں طالبان کی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔کمیٹی کے کوآرڈی نیٹر مولانا یوسف شاہ نے کہا ہے کہ حکومتی کمیٹی ارکان اجلاس کے لیے اکوڑہ خٹک آئے اور نہ ہی اس بارے میں کوئی اطلاع دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز کے واقعے پر مولانا سمیع الحق شدید پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کمیٹی کو بھی دوسرے شہریوں کے طرح اس واقع پر شدید دکھ ہے ۔ادھرحکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے کہاہے کہ ایف سی اہلکاروں کی شہادت کے بعدمذاکرات ڈیڈلاک کاشکارہوگئے ،طالبان باضابطہ طورپرجنگ بندی کااعلان کریں ،اب کوئی معجزہ ہی مذاکرات کوواپس لاسکتاہے ۔

نجی ٹی وی پروگرام میں اظہارخیال کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ایف سی اہلکاروں کوقتل کرنامذاکرات سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے ،مذاکرات کے عمل کاآگے چلنامشکل لگ رہاہے ،حکومت کوتمام ترحالات کاموازنہ کرناہے ۔انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کوبھی مذاکرات جاری رکھنے میں مشکلات ہیں ،اگرآپریشن ہواتوحالات پھرخراب ہونگے ،آپریشن کے نتائج بھی بھیانک نکلیں گے بڑی تعدادمیں لوگ نقل مکانی پرمجبورہوجائیں گے۔

کالعدم تحریکِ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے حکومت کی جانب سے قائم کی گئی کمیٹی کے رکن رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت کے تازہ واقعے کے بعد متوقع مذاکراتی اجلاس سے قبل حکومت سے مشارورت ضروری ہے۔اتوار کو رات دیر گئے تحریکِ طالبان مہمند ایجنسی کے ترجمان عمر خالد خراسانی کی جانب سے میڈیا کو ارسال کیے گئے پیغام میں دعوی کیا گیا ان کی تنظیم نے جون 2010ء میں اغواکیے گئے ایف سی کے 23 اہل کاروں کو قتل کر دیا ہے۔

اس واقعے پر ردِ عمل میں برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے حکومتی کمیٹی کے رکن رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت کا یہ بیان تحریکِ طالبان پاکستان مہمند ایجنسی کی طرف سے آیا ہے جبکہ حکومت کے مذاکرات کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان سے ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومتی کمیٹی کی تاحال تحریکِ طالبان پاکستان کی مرکزی طالبان شوریٰ سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی بلکہ ان کی نمائندہ کمیٹی سے ہی مذاکرات کا عمل جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی یہ بھی غیر واضح ہے کہ ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت کا فیصلہ تحریکِ طالبان کی مرکزی شوریٰ کا ہے یا مہمند ایجنسی کے طالبان نے خود ہی یہ فیصلہ کیا ہے۔‘رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ کہ طالبان سے مذاکرات میں یہ بات پہلے ہی واضح کر دی گئی تھی اگر اس طرح کی کارروائیاں کی گئیں تو بات چیت کرنا نہ صرف مشکل ہوگا بلکہ ان میں کوئی پیش رفت بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی ان مذاکرات کا کوئی فائدہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی کمیٹی کی جانب سے طالبان کی کارروائیاں روکے جانے کے مطالبے کا جواب بھی آ گیا تھا۔ انہیں طالبان کی مرکزی شوری کی جانب سے جنگ بندی کا پیغام بھی ملا تھا۔رحیم اللہ یوسفزئی نے بتایا کہ پیر کو طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ حکومتی کمیٹی کی ملاقات طے تھی۔ جس میں یقیناً اس معاملے پر بات ہوگی۔تاہم انہوں نے واضح کیا کہ مذاکراتی کمیٹی سے ملاقات سے قبل وہ حکومتی کمیٹی کے دیگر ارکان سے مشاورت کریں گے اور حکومت سے بھی اس بابت بات کی جائے گی کہ طالبان کی اس کارروائی پر حکومتی کمیٹی کیا ردِ عمل دے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک نئی اور خطرناک صورتحال سامنے آئی ہے۔‘حکومتی کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کے رکن رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ’چونکہ اس کی توقع نہیں تھی اس لیے اب حکومت پر دباوٴ بڑھ گیا ہے۔ اب حکومت کو ہی فیصلہ کرنا ہے کہ مذاکراتی عمل کو روکا جائے یا وضاحتیں طلب کی جائیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے واقعے میں طالبان کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کے بعد حکومت پہلے ہی دباوٴ کا شکار ہے۔

اس لیے صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے لوگ مشاورت کر رہے ہیں اور وہ اس کا جواب دیں گے۔طالبان کی جانب سے سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت پر فوج کی خاموشی کے حوالے سے رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ فوج کو پہلے بھی ان مذاکرات پر تحفظات تھے کیونکہ ماضی میں بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے ناکام ہو چکے ہیں۔ اس لیے امکان ہے کہ فوج اس تازہ کارروائی میں 23 ایف سی اہلکاروں کی ہلاک پر ناراض ہو۔

اتوار کی رات جارت بیان میں مہمند طالبان نے کہا کہ ’اپنے ساتھیوں کے انتقام کی خاطر ہم نے آج ایف سی کے ان 23 اہل کاروں کو قتل کیا جنھیں جون سنہ 2010 میں شونکڑی پوسٹ پر گرفتار کیا گیا تھا۔‘یاد رہے جون سنہ 2010 میں ایسی خبریں آئی تھیں کہ ایف سی کے 40 اہل کاروں کو طالبان نے اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ اپنی پوسٹ پر موجود تھے۔