فورسز کی موجودگی میں ڈپٹی کمشنر کا اغواء ہونا افسوسناک ہے ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ،ثابت ہوتا ہے ہماری سیکورٹی فورسز کچھ علاقوں میں مفلوج ہے ، آپریشن کا فیصلہ تاحال نہیں ہوا ، مذاکرات سے ضلعی انتظامیہ کی بازیابی چاہتے ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان کی سیمینار میں شرکت کے بعد صحافیوں سے بات چیت

ہفتہ 15 فروری 2014 07:34

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15فروری۔2014ء)وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ فورسز کی موجودگی میں ڈپٹی کمشنر کا اغواء ہونا افسوسناک عمل ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے سیکورٹی فورسز کچھ علاقوں میں مفلوج ہے آپریشن کا فیصلہ تاحال نہیں ہوا مذاکرات سے ضلعی انتظامیہ کی بازیابی چاہتے ہیں یہ بات انہوں نے جمعہ کے روز کوئٹہ پریس کلب میں ممتاز شاعر عطاء شاد مرحوم کے حوالے سے ہونیوالے ایک سیمینار کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہاکہ کیچ کے ڈپٹی کمشنر عبدالحمید ابڑو اسسٹنٹ کمشنر حسین جان سمیت دیگر سرکاری اہلکار جواغواء ہوئے ہیں وہ علاقے کے مفاد کیلئے کام کررہے تھے اور انہوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا جس کیلئے ایک کالعدم تنظیم کو تحقیقات کرنے کا حق حاصل ہے انہوں نے کہاکہ بازیابی کیلئے کسی نے اب تک کوئی رابطہ نہیں کیا نہ ہی کسی کا کوئی مطالبہ سامنے آیا ہے اس حوالے سے گذشتہ روز اور آج اغواء شدگان کی بازیابی کے حوالے سے امن وامان سے متعلق اجلاس طلب کیا تھا اور کل بھی ایک اجلاس طلب کیا ہے اب تک ان علاقوں میں کوئی آپریشن کا فیصلہ نہیں ہوا ہماری کوشش ہے کہ بات چیت سے مسئلہ حل کیا جائے آج قبائلی معتبرین اور اسسٹنٹ کمشنر پر مشتمل ایک مذاکراتی کمیٹی تربت کے علاقے گومازی روانہ کی تھی تاکہ وہاں کے شہریوں اور کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد کے عزیزوں سے ملے اور یہ مسئلہ حل کریں لیکن بدقسمتی سے 8موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے مذاکراتی ٹیم کو بھی اغواء کرلیا جو انتہائی افسوسناک عمل ہے اور اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہمارے کچھ سیکورٹی ادارے مفلوج ہوچکے ہیں دریں اثناء اس سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ممتاز شاعر عطاء شاد کے حوالے سے ہونیوالے کوئٹہ پریس کلب میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عطاء شاد ایک شاعر تھا اس کی شاعری کو زندہ رکھا جائیگا انہوں نے بلوچی زبان میں جو شعر لکھے تھے وہ قابل تعریف تھے بلوچ قوم کیلئے ایک ایسا راستہ ہے جس پر عمل کرنا چاہیے انہوں نے کہاکہ میں اورعطاء شاد ایک گاؤں یعنی تربت کے رہنے والے ہیں ہم نے ان کی زندگی میں ڈگری کالج خضدار کا نام عطا ء شاد ڈگری کالج رکھا تھا کیونکہ اکثر مرنے کے بعد نام رکھے جاتے ہیں ہم نے ان کی زندگی میں ان کا نام رکھ دیا تھا انہوں نے کہاکہ ہم نے اپنے بجٹ میں بھی شاعروں کیلئے ایک حصہ رکھا ہے تاکہ ان کی زندگی میں بھی ممتاز شاعروں کی خدمت کی جاسکے اس سے قبل سیمینار سے صوبائی وزیر صحت رحمت بلوچ رکن صوبائی اسمبلی نیشنل پارٹی ڈاکٹر شمع اسحاق بلوچ رکن صوبائی اسمبلی نیشنل پارٹی فتح محمد بلیدی ،نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر اسحاق بلوچ نے بھی اظہار خیال کیا اور عطاء شاد کی زندگی اور شاعری کے بارے میں خیالات کااظہار کیا تقریب میں صوبائی الیکشن کمشنر سلطان بایزید وزیراعلیٰ بلوچستان کے میڈیا ایڈوائزر میر جان محمد بلیدی ممتاز شاعر خاتون فرزانہ رئیسانی سمیت ممتاز بلوچ اردو کے شعراء نے شرکت کی اور اپنے اشعار سنائیں ۔