خیبر پختونخواہ کی حکومت حالات کنٹرول نہ کرنے کی پر ذمہ دار ہے،سینیٹر رضا ربانی ، پشاور دوسری جنگ عظیم کا منظر پیش کررہا ہے رذمہ دار پی ٹی آئی کی حکومت ہے ۔پختونخوں کے ساتھ اگر رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو وہاں بھی بلوچستان جیسی سوچ پیدا ہوگی ۔ صوبائی حکومت فوری طور پر مستعفی ہو جائے،سینیٹ میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال ،ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف پختونخوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ س نے ان علاقوں کا دورہ کرنا مناسب نہیں سمجھا،افراسیاب خٹک،حکومت کسی بھی مسئلے پر کوئی بیان نہیں دے رہی ۔عمران خان لوگوں اور عوام کے مورال کو ڈاؤن کررہے ہیں،زاہد خان،وزیر اعظم قوم کو یقین دلائیں کہ ہماری افواج کسی بھی ملک دشمن سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس سے ہماری افواج انڈر مائن ہو گی ا ور دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہو گی۔بابر اعوان

ہفتہ 15 فروری 2014 07:33

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15فروری۔2014ء)پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر رضا ربانی نے خیبر پختونخواہ کی حکومت کو حالات کنٹرول نہ کرنے پر ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ صوبائی حکومت فوری طور پر مستعفی ہو جائے ۔پشاور دوسری جنگ عظیم کا منظر پیش کررہا ہے اورذمہ دار پی ٹی آئی کی حکومت ہے ۔پختونخوں کے ساتھ اگر رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو وہاں بھی بلوچستان جیسی سوچ پیدا ہوگی ۔

سینیٹ میں جمعہ کے روز نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر میاں رضا ربانی نے کہا کہ پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس کو رات کے اندھیرے میں لا کر اسمبلی سے منظور بھی کروا دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت صرف آرڈیننس کے ذریعے نظام چلا رہی ہے ۔

(جاری ہے)

کوئی باقاعدہ بل نہیں پیش کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ تین دنوں سے ایوان یہ تقاضا کررہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے رہنما مسلح افواج پر تنقید کی ہے اور کہا کہ افواج طالبان کے خلاف آپریشن میں 40 فیصد سے ز ائد کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گی ۔

یہ فوج کا مورال کم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم ایشو ہے جس پر حکومت کی جانب سے جواب آنا چاہیے تھا۔رضا ربانی نے کہا کہ کراچی میں پولیسپر حملہ اور دھماکے کے بعد حکومت کو ایک پوزیشن لینی چاہیے ۔پشاور دوسری جنگ عظیم کا منظر پیش کررہا ہے ۔وہاں تباہی ہو رہی ہے جس کی ذمہ دار صوبائی حکومت ہے ان کے وزیر جنازوں میں نہیں جارہے اگر وہ حالات کنٹرول نہیں کر سکتے تو وہ مستعفی ہو جائیں ۔

سینیٹر افرا سیاب خٹک نے نکتہ اعتراض پر آغاز اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف پختونخوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ان کا قتل عام کیا جارہا ہے اور وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے ان علاقوں کا دورہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کی طرف سے پختونوں کے ساتھ نا انصافی بند نہ کی گئی تو وہاں بھی بلوچستان کی طرح سوچ پیدا ہوگی۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر کامل علی آغا نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات انتہائی کنفیوژ طریق سے شروع کی گئی ۔ایک میجر جنرل کو مارا گیا حکومت کنفیوژ تھی کہ کیا کیا جائے اور اب اس بات کی حد ہوگئی ہے کہ وزیر اعظم نے ترکی میں ایک غیر آئینی بیان دیا ہے جس سے لگتا ہے کہ ملک طالبان کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔دنیا میں ایسا کہیں ہو ا کہ ایک دہشت گرد تنظیم کو ذمہ داری دی جائے۔

اگر وزیر اعظم نے اس بات پر کوئی وضاحت نہ کی گئی تو وہ غیر آئینی وزیر اعظم ہوں گے۔ سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ شاہد اللہ شاہد کا شناختی کارڈ ایوان میں پیش کیا جائے وہ پاکستانی نہیں ہے وہ ایک شاخ ہے طالبان کی ہمیں بتایا جائے کہ بات کس سے کی جارہی ہے ۔انہوں نے تجویز دی کمیٹی بنائی جائے جو فیصلہ کرے کہ مذاکرات کس کے ساتھ کئے جارہے ہیں ۔

پوائنٹ آف آرڈرپر اظہار خیال کرتے ہوئے زاہد خان نے کا کہ حکومت کسی بھی مسئلے پر کوئی بیان نہیں دے رہی ۔عمران خان لوگوں اور عوام کے مورال کو ڈاؤن کررہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ایسی باتوں سے لوگ ہمارے ایٹمی پروگرام پر نکتہ چینی کریں گے کہ یہ پروگرام کل طالبان کے پاس جا سکتا ہے ۔پشاور میں حالات خراب ہیں اور ذمہ دار وہاں کی صوبائی حکومت ہے ۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات پر ایوان کو اعتماد میں لیں۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پوائنٹ آف آرڈر پر بولتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی نے کیلاش قبیلے اور اسماعیلی قبیلے کو وارننگ دی ہے کہ وہ اسلامی اقدار اپنائیں۔طالبان نے مختلف دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔وزیر اعظم قوم کو یقین دلائیں کہ ہماری افواج کسی بھی ملک دشمن سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس سے ہماری افواج انڈر مائن ہو گی ا ور دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہو گی۔