پاکستان کے قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے بلوچ قومی سوال کے حل کیلئے بلوچ مزاحمت کاروں کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے سے قبل ساز گار ماحول بنا رہے ہیں، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، مخلوط حکومت میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے اختلافات اور تحفظات کو دور کرنے کیلئے معاملے طے کرلینگے ہمیں قانون شکنی اور وی آئی پی کلچر کو ختم کرکے قانون کی پاسداری کو اپنانا ہوگا ، رویئے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ،تقریب سے خطاب، صحافیوں سے بات چیت

جمعہ 14 فروری 2014 03:29

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14فروری۔2014 )وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان کے قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے بلوچ قومی سوال کے حل کیلئے بلوچ مزاحمت کاروں کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے سے قبل ساز گار ماحول بنا رہے ہیں تاکہ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنایا جاسکے مخلوط حکومت میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے اختلافات اور تحفظات کو دور کرنے کیلئے معاملے طے کرلینگے ہمیں قانون شکنی اور وی آئی پی کلچر کو ختم کرکے قانون کی پاسداری کو اپنانا ہوگا بلوچستان کے احساس محرومی کو تسلیم کرتے ہوئے اسے پاکستان کی ترقی کی ضامن سمجھا جاتا ہے لیکن جب اسے حقوق دینے کی بات آتی ہے تو اس وقت ہچکچاہٹ سے کام لیا جاتا ہے جو درست عمل نہیں اس رویئے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں روڈ سیفٹی کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب اور صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا تقریب سے آئی جی موٹر وے پولیس ذوالفقار چیمہ اور سی سی پی او کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کمشنر ڈویژن کمبر دشتی پرنسپل گرلز کالج مس شگفتہ نے بھی خطاب کیا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ بد قسمتی سے ہمارے ہاں قانون کو اہمیت نہیں دی جارہی قانون توڑنے کے عمل کو وی آئی پی ازم سمجھا جاتا ہے ٹریفک قوانین کو توڑنے میں ہمیں مزہ آتا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ دو ڈھائی سو روپے جرمانہ ادا کرکے ہم اپنی جان چھڑا سکتے ہیں مگر ہمیں اس چیز سے بھی باخبر ہونا چاہیے کہ قانون توڑنے سے پورا معاشرہ تباہی کی جانب گامزن ہوجاتا ہے ہمیں قانون پر عملدرآمد کی سوچ اپنانا ہوگی اور ہمیں اپنی عادات کو بھی بدلنا ہوگا انہوں نے کہاکہ تیز رفتاری کے باعث بہت سی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ ہم قانون کے اصولوں کو نہیں اپناتے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ موجودہ حکومت عوام کے مسائل کے حل کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اٹھا رہی ہے امن و امان سب سے بڑی اور پہلی ترجیح ہے ہمارے اقدامات کی وجہ سے پولیس اپنے پاؤں پر کھڑی ہے اور ہم نے پولیس کو اپنی فورس سمجھ کر انہیں ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں انہوں نے کہاکہ قانون توڑنے کے کلچر کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ ہم جرمانہ کلچر کو مضبوط بنائیں تاکہ لوگ قانون پر عملدرآمد کریں جہاں قانون نہیں ہوتا وہ معاشرہ وحشی بن جاتا ہے قانون ہمیں امن اور ڈسپلن کا درس دیتا ہے وزیراعلیٰ بلوچستان نے آئی جی موٹر وے پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں محرومیاں بہت زیادہ ہیں بڑی تعداد میں لوگ بے روز گار ہیں اس لئے ضروری ہے کہ موٹر وے پولیس میں بلوچستان سے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو نمائندگی دی جائے کیونکہ بلوچستان کی محرومیوں کا ذکر کرتے ہوئے اسے پاکستان کے بہتر مستقبل کی ضمانت کو سمجھا جاتا ہے مگر صوبے کے نوجوانوں کو روز گار فراہم نہیں کیا جاتا کیونکہ بلوچستان میں بہت ٹیلنٹ اور نوجوانوں میں جذبہ موجود ہے بلوچستان کی محرومیوں کو تسلیم کرتے ہیں لیکن جب صوبے کا حق دینے کی بات آتی ہے تو اس وقت ہچکچاہٹ سے کام لیا جاتا ہے یہ روش تبدیل ہونی چاہیے تاکہ نوجوانوں اور صوبے کے عوام کا وفاق اور دیگر اداروں پر اعتماد بحال ہوسکے جس طرح دیگر صوبوں میں موٹر وے پولیس نے کرپشن نہیں اسی طرح بلوچستان میں بھی موٹر وے پولیس میں کوئی کرپشن تاحال سامنے نہیں آئی تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ بلوچستان کے مسئلے کے حوالے سے ہمارا نقطہ نظر بہت واضح ہے اور مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہتے ہیں اس مسئلے کو بہت جلد حل کرینگے مخلوط حکومت میں مسائل و مشکلات اور گلے شکوے ہوتے ہیں جن کو ہم مل بیٹھ کر حل کرینگے سردار ثناء اللہ زہری سے بات چیت ہوئی ہے بہت جلد معاملات کو حل کرلیا جائیگا میں جمہوری آدمی ہوں جمہوریت میں تنقید ہوتی رہتی ہے اور جمہوریت کا حسن بھی یہی ہے میں اس تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرونگا انہوں نے کہاکہ بلوچستان کا مسئلہ بندوق سے نہیں بلکہ بات چیت سے حل ہوگا اور یہ اتنا آسان بھی نہیں جتنا سمجھا جارہا ہے بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے ہم ساز گار ماحول پیدا کررہے ہیں دیر ضرور ہوئی ہے مگر مثبت اور دیرپا حل سامنے آئیگا وفاق کی جانب سے فنڈز کے اجراء کے متعلق انہوں نے کہاکہ فیڈرل پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کیلئے مختص بجٹ کے اجراء میں تاخیر ہوئی ہے جو فنڈز ہمیں ملے ہیں اس کا 50 فیصد حصہ ہم خرچ کرچکے ہیں اب تک 43 بلین میں سے صرف 18 بلین ریلیز کئے جاچکے ہیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ بلوچستان پیکج کے تحت پانچ ہزار افراد کو بھرتی وفاق اور صوبائی حکومت کی جانب سے ایک مذاق تھا موجودہ حکومت نے پانچ ہزار پیکج اساتذہ کو مستقل بنیادوں پر روز گار فراہم کرکے اہم کارنامہ سر انجام دیا ہے تعلیم اور صحت ہماری پہلی ترجیحات میں شامل ہے تعلیم کی ترقی کیلئے ڈیویلپمنٹ میلینیم گولز کا ٹارگٹ حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے متعلق انہوں نے بتایا کہ کانفرنس جلد بلائی جائیگی اس سے پہلے ہم ساز گار ماحول پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وفاق سول اور ملٹری لیڈر شپ ملکر مسئلے کا حل نکال سکیں ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ صوبے کے جو بھی مسائل ہیں ان کے حل کیلئے ہماری کوشش ہے کہ مرکز سے ملکر حل کیا جاسکے آل پارٹی کانفرنس میں تاخیر ساز گار ماحول اور مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے حکمت عملی طے کرنے کیلئے ہورہی ہے ۔