اپوزیشن نے نجکاری کو آئی ایم ایف کی فرمانبرداری قراردیدیا،یہ قومی اثاثے اونے پونے داموں بیچنے کی سازش ہے، ارکان کا سینٹ میں اظہار خیال،بدحال اقتصادی صورتحال کی ذمہ داری گزشتہ حکومت کی غلط پالیسیاں ہیں ،حکومتی ارکان،پی آئی اے کے آٹھ فیصد حصص قرض کے بدلے مسلم کمرشل بینک کو دیئے گئے ہیں، رضاربانی کا انکشاف،پانچ برس میں پنجاب حکومت کے کسی پروگرام پر بدعنوانی کی ایک بھی الزام نہیں آیا، چوہدری جعفراقبال،خسارے میں جانے والے اداروں کی نجکاری بہت ضروری ہے،نسرین جلیل

جمعہ 14 فروری 2014 03:27

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14فروری۔2014)سینٹ میں حزب اختلاف نے حکومت کی نجکاری پالیسی کو آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کے حصول کیلئے عائد کردہ شرائط کی فرمانبرداری قرار دیتے ہوئے اسے اپنے من پسند لوگوں کو قومی اثاثے اونے پونے داموں بیچنے کی سازش قرار دیدیا تاہم حکومتی بینچوں نے حزب اختلاف کے اس دعوے کی نفی کی اور ملک گیر موجودہ اقتصادی صورتحال میں حکومت کی نجکاری پالیسی کو انتہائی اہم قرار دیا اور کہا کہ ملک کی موجودہ بدحال اقتصادی صورتحال کی ذمہ داری گزشتہ حکومت کی غلط پالیسیاں ہیں ۔

جمعرات کے روز ایوان بالا میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر میاں رضا ربانی کی جانب سے حکومت کی نجکاری پالیسی پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے میاں رضا ربانی نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کوپورا کرنے کیلئے قومی اثاثوں کو اونے پونے داموں اپنے من پسند لوگوں کو فروغ کرنے کیلئے حکومت نے اس سلسلے میں ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کے مستقبل کا بھی خیال نہیں کیا اور نہ ہی یہ سوچا ہے کہ جو بھی ان اداروں کو خریدے گا وہ ان کے ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ نہیں کرے گا ۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نجکاری کے عمل میں پارلیمنٹ کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے اور اس سلسلے میں مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری بھی لینا گوارہ نہیں کی ۔ حکومت اس سلسلے میں 1997ء میں مشترکہ مفادات کونسل سے لی گئی منظوری کا حوالہ دیتی ہے لیکن ہم اسے تسلیم نہیں کرتے کیونکہ سپریم کورٹ اس منظوری کو رد کرچکی ہے اس کے علاوہ وزیراعلیٰ سندھ نے نجکاری کے عمل کی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مخالفت کی تھی ۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے ذہن میں صرف پی آئی اے اور پاکستان سٹیل مل کی اٹکے ہوئے ہیں وہ ان دونوں قومی اہمیت کے حامل اداروں کی نجکاری کرکے اپنے من پسند لوگوں کو نوازنا چاہتی ہے اگر حکومت نے اپنی پالیسی نہ بدلی تو پیپلزپارٹی پارلیمنٹ سمیت تمام ذرائع کو استعمال کرے گی اور اگر پھر بھی حکومت نہ مانی تو عدالتوں میں جائینگے ۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں حساس قومی اہمیت کے ا داروں کو حکومتیں اپنے پاس رکھتی ہیں اور بھارت ، چین ، برازیل اور روس جیسے ممالک ان اداروں کو اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں لیکن حکومت نہ صرف پی آئی اے بلکہ ائرپورٹ اور سول ایوی ایشن کے شعبوں کو بھی پرائیویٹائز کرنا چاہتی ہے جو کہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ قومی اثاثے ہیں اور قومی سلامتی سے متعلقہ چیزیں اس کے ساتھ منسلک ہیں ۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ پی آئی اے کے آٹھ فیصد حصص قرض کے بدلے مسلم کمرشل بینک کو دے دیئے گئے ہیں اس کے علاوہ حکومت کے قریبی سرمایہ کاروں کی پی آئی اے کے ملک بھر میں جائیدادوں اور امریکہ میں ہوٹلوں پر بھی نظریں ہیں وہ انہیں ہڑپ کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے پارلیمنٹ کو بالائے طاق رکھ کر نجکاری سے متعلقہ فیصلے کرنا چا رہی ہے جو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہیں اور پیپلز پارٹی اس کیخلاف بھرپور مزاحمت کرے گی اور نجکاری کئے گئے اداروں کے ملازمین کے ساتھ احتجاج میں سڑکوں پر بھی نکلے گی اس کا جواب دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری جعفر اقبال کا کہنا تھا کہ انتہائی بنیادی اہمیت کا سوال ہے کہ حکومت کو قومی ادارے بیچنے کی کیوں نوبت پیش آئی ہے جو لوگ آج نجکاری پالیسی کی مخالفت کررہے ہیں وہ خود ان اداروں کی نجکاری کی منظوری دے چکے ہیں اس کے علاوہ ان لوگوں نے گزشتہ پانچ برس میں عوام کیلئے کچھ نہیں کیا نہ ہی نئی ملازمتیں پیدا کیں اور نہ ہی ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری لے کر آئے ۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتوں کا کام ادارے چلانا نہیں ہوتا بلکہ حکومتیں عوامی فلاح وبہبود کیلئے فنڈز خرچ کرتی ہیں اور خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں پر حکومت کو سالانہ پانچ سو ارب روپے خرچ کرنا پڑ رہے ہیں اگر یہی رقم عوام کی فلاح ووبہبود پر خرچ کی جائے تو معاشرے میں مثبت تبدیلی آئے گی ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں حکومتیں ادارے نہیں چلاتی بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں تمام ادارے پرائیویٹ فرمیں چلاتی ہیں ۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ پانچ برس میں کوئی کام نہیں کیا اس کی وجہ سے حکومت کو سالانہ تین سو ارب ڈالر سے زائد قرضے کی مد میں دینے پڑتے ہیں ۔ گزشتہ حکومت نے بدعنوانی کی ہولناک داستانیں سامنے آئیں یہی وجہ ہے کہ دو سابق وزراء اعظم نیب میں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ انہوں نے ایوان کو یقین دلایا کہ نجکاری کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا اور گزشتہ پانچ برس میں پنجاب حکومت کی جانب سے جاری کردہ کسی پروگرام پر بدعنوانی کی ایک بھی الزام نہیں آیا ۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں مشترکہ مفادات کی کونسل نے حکومت کی پالیسیوں کو سراہا ہے اور انہیں درست قرار دیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے سوال کیا کہ حکومت کہتی ہے کہ ادارے چلانا حکومت کا کام نہیں ہے تو پھر لاہور اور اب راولپنڈی اسلام آباد کے درمیان میٹرو بس سروس کیوں چلائی جارہی ہے اس وقت پنجاب حکومت میٹرو بس سروس کو سالانہ ایک ارب روپے کی سبسڈی پر چلا رہی ہے جس میں بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ 166 اداروں کی نجکاری کی گئی ہے جن سے 176 ارب روپے حاصل ہوئے تھے لیکن نجی شعبے میں دیئے گئے اداروں پر قابو رکھنے کیلئے کوئی بھی طریقہ کار موجود نہیں ہے اور حکومت یہ نہیں بتا سکتی کہ گزشتہ ادوار میں نجی شعبہ کو دیئے گئے اداروں کی کامیابی کا کیا تناسب ہے اس کے علاوہ حکومت صرف ایس آراو کلچر پر قابو پالے تو پانچ سو ارب روپے سے زائد کا خسارہ ختم ہوسکتا ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی بینچوں پر بیٹھے لوگ مسلم کمرشل بینک کی مثال دیتے ہیں کہ وہ نجی شعبے میں دیئے جانے کے بعد بہت ترقی کرگیا ہے حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ نجی شعبے میں دیئے گئے بینکوں میں سے کوئی بھی خسارے میں نہیں تھا مزیدبرآں جس وقت مسلم کمرشل بینک کی نجکاری کی گئی تھی اس وقت بینک میں گیارہ ہزار ملازمین تھے اور اب ایک ہزار بھی مستقل ملازمین نہیں ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ ایوان کو بتایا جاتا ہے کہ ایم سی بی کی نجکاری کی تحقیقات نہیں کی گئیں اور ایف آئی اے نے اس سلسلے میں کوئی رپورٹ جمع نہیں کرائی ہے تاہم ان کے پاس ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ موجود ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کہتی ہے کہ نجکاری سے قبل ان اداروں کو منافع بخش بنایا جائے گا جب یہ ادارے منافع دینا شروع کردینگے تو پھر نجکاری کی کیا ضرورت ہے۔

جے یو آئی (ف) کے سینیٹر طلحہ محمود نے بھی بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومتی اور حزب اختلاف کے ارکان کے موقف کی تائید کی کبھی وہ نجکاری کی پالیسی پر تنقید کرتے اور کبھی ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کی ذمہ داری سابق حکومت پر ڈال دیتے، اس طرح انہوں نے اپنی پارٹی پالیسی پرعمل کیا ۔ انکا کہنا تھا کہ حکومت کو دفاعی اہمیت کے حامل اداروں کی نجکاری نہیں کرنی چاہیے بلکہ حکومتیں زیادہ سے زیادہ اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں لانے کی کوشش کرتی ہیں اور اگر آج موبائل فون کمپنیاں حکومت کے دائرہ اختیار میں ہوتیں تو ناجائز سموں کے استعمال کی وجہ سے ملک میں امن وامان کی موجودہ صورتحال نہ ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نجکاری کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنائے ۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر نسرین جلیل نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ملک سرکاری اداروں پر اٹھنے والے اخراجات کا حامل نہیں ہوسکتا اس لئے خسارے میں جانے والے اداروں کی نجکاری بہت ضروری ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ نجی شعبے میں دیئے جانے والے اداروں کے ملازمین کے مستقبل اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔