بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت، سیکرٹری دفاع پیش ، سیکرٹری داخلہ 20 فروری کو طلب ، وزارت دفاع کو لاپتہ افراد کی گمشدگی میں مبینہ طور پر ملوث ایف سی اور فوجی افسران اور اہلکاروں کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم، قانون کی خلاف ورزی کرنے والے فوجی افسران و اہلکاروں کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت ہی کارروائی کی جاسکتی ہے‘ جسٹس ناصرالملک،بلوچستان کا مسئلہ اور بھی گھمبیر ہوتا جارہا ہے‘ اب تو متاثرین کو باہر سے بھی ہمدردیاں ملنا شروع ہوگئی ہیں‘جسٹس گلزار احمدکے ریمارکس

جمعہ 14 فروری 2014 03:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14فروری۔2014) سپریم کورٹ میں بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کے دوران سیکرٹری دفاع آصف یاسین پیش ہوگئے جبکہ عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو 20 فروری کو طلب کرلیا‘ عدالت نے وزارت دفاع کو حکم دیا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی اور بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے تمام حساس اداروں کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے اور لاپتہ افراد کی گمشدگی میں مبینہ طور پر ملوث ایف سی اور فوجی افسران اور اہلکاروں کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کرکے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جائے جبکہ دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دئیے ہیں کہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کے مقدمات میں مبینہ طور پر ایف سی‘ فوج اور حساس ادارے ملوث ہیں اسلئے سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو طلب کیا تھا‘ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے فوجی افسران و اہلکاروں کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت ہی کارروائی کی جاسکتی ہے‘ عدالت نے افسران کی شناخت کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ بلوچستان کا مسئلہ اور بھی گھمبیر ہوتا جارہا ہے‘ حکومت اور ادارے آخر کس بات کا انتظار کررہے ہیں‘ اب تو متاثرین کو باہر سے بھی ہمدردیاں ملنا شروع ہوگئی ہیں‘ حکومت ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں کیوں نہیں لاتی۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دئیے۔ سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور اور بلوچستان حکومت کے وکیل شاہد حامد پیش ہوئے۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ او دفاع کے پیش نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور انہیں ساڑھے گیارہ بجے طلب کیا۔ وقفے کے بعد جب دوبارہ بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اس دوران سیکرٹری دفاع آصف یاسین پیش ہوگئے اور بتایا کہ مجھے رات کو دیر سے نوٹس ملا تھا۔

میں چاہتا تھا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے اجلاس کرکے معلومات حاصل کروں اور آپ کو دوں مگر اجلاس مکمل نہ ہوسکا‘ جمعہ کو دوبارہ ہوگا۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ آج ہی اجلاس کیوں نہیں کرلیتے اور کوئی فیصلہ کرکے بتادیتے۔ آپ خود بتارہے ہیں کہ اجلاس ہورہا تھا۔ ہم نے اس کیس میں سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ جوکہ تمامتر معاملات اور حساس اداروں کو کنٹرول کرتے ہیں‘ کو طلب کیا تھا تاکہ بتایا جائے کہ ان معاملات کا ذمہ دار کون ہے تاکہ اس کیخلاف کارروائی کی جائے۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ یہ ایک اہم ایشو ہے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ بلوچستان کا معاملہ اور بھی گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ متاثرین بیرون ملک سے ہمدردیاں حاصل کررہے ہیں۔ ملزموں کو آئین و قانون کی چھتری کے نیچے کیوں لے جایا جائے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ اب ہر بار یقین دہانیاں ہی کرائی جاتی ہیں ‘ لاپتہ افراد کا معاملہ ایسے نہیں چھوڑ سکتے۔

سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ پہلے 1100 لاپتہ افراد کا معاملہ تھا اب یہ کم ہوکر 850 تک رہ گیا ہے۔ ہم کارروائی کرکے رہیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے بتایا کہ ایف سی اہلکاروں کے فوج میں واپس جانے کے معاملے پر دونوں اداروں میں کچھ چیزوں پر تحفظات ہیں۔ یہ افسران ریٹائر ہوچکے ہیں اسلئے فوج معلومات نہیں دے رہی۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ جن آرمی افسران کے ملوث ہونے کاپتہ چلا ان کو واپس فوج میں لے لیا گیا۔

ان افسران کو شناخت کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شاہ خاور نے بتایا کہ ڈی آئی جی سی آئی ڈی کے روبرو ایف سی اہلکار پیش کئے تھے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو ملوث ہے اس کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ بلوچستان حکومت کہتی ہے کہ ان اداروں کو تحقیقات کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ اگر آرمی افسران قانون کیخلاف کچھ کرتے ہیں تو ان کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔

شاہد حامد نے بتایا کہ سیکرٹری داخلہ ملک سے باہر ہیں۔بعد ازاں آرڈر لکھواتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اجلاس منعقد کررہے ہیں اور لاپتہ افراد کے حوالے سے متعلقہ حکام سے معلومات حاصل کی جارہی ہیں‘ اجلاس مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ انہوں نے کچھ دنوں کی مہلت طلب کی ہے تاکہ دوبارہ اجلاس منعقد کرکے پیشرفت کی جاسکے۔ سیکرٹری داخلہ بیرون ملک وزیراعظم کیساتھ گئے ہیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ ان کی جگہ پیش ہوئے ہیں۔ کیس کی سماعت 20 فروری تک ملتوی کی جاتی ہے۔عدالت نے حکم دیا کہ سیکرٹری داخلہ بھی اگلی سماعت پر پیش ہوں۔