حکومتی کمیٹی نے طالبان شوریٰ کے خط کا جواب دیدیا ، تشدد کے خاتمے کا مطالبہ، طالبان شوریٰ ایسے بیانات سے گریز کرے جن سے مذاکراتی ماحول متاثر ہو ،حکومتی کمیٹی،حکومتی کمیٹی کی جانب سے لکھا گیا خط موصول نہیں ہوا، مذاکرات میڈیا کے ذریعے نہ کئے جائیں،خط کے مندرجات پہلے ہمیں بتائے جاتے تو اچھا تھا،مولانا سمیع الحق، خط دوبارہ فیکس کردیا ہے، یوسف شاہ نے وصول ہونے کی تصدیق کردی ہے،مندرجات نہیں بتاسکتے، سمیع الحق کے بیان کے کچھ دیر بعد عرفان صدیقی کی وضاحت

جمعہ 14 فروری 2014 03:19

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14فروری۔2014)حکومتی کمیٹی نے طالبان شوریٰ کے خط کا جواب دیدیاہے جس میں پرتشدد کارروائیاں ختم کرنے پر زوردیا گیا ہے، حکومتی اور طالبان کمیٹی کے درمیان جلد ملاقات ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ ذرائع کے مطابق بدھ کو اسلام آباد میں طالبان سے مذاکرات کرنیوالی حکومتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں انہوں نے طالبان شوریٰ سے ملاقات کے بعد پیش کی گئی طالبان کمیٹی کی رپورٹ پر تفصیلی غور کیا گیا ۔

اجلاس میں امن مذاکراتی کمیٹی کے ارکان وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی،میجر (ر) محمد عامر،رحیم اللہ یوسفزئی اور رستم شاہ مہمند شریک ہوئے۔سرکاری طور پر جاری ہونیوالے بیان کے مطابق جمعرات کی صبح طالبان کمیٹی کو تحریری طور پر حکومتی کمیٹی نے اپنے باضابطہ ردعمل سے آگاہ کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

حکومتی کمیٹی نے طالبان شوریٰ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے بیانات دینے سے گریز کریں جن سے مذاکرات کا ماحول متاثر ہو اور تشدد کی کارروائیاں بند ہونی چاہئیں۔

جوابی خط میں زوردیا گیا ہے کہ اگر اس طرح کی کارروائیاں چھوٹے گروپس کرتے ہیں تو ان کیخلاف کارروائی کرنا بھی تحریک طالبان کی ذمہ داری ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان جلد ملاقات ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ادھر طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ انہوں نے طالبان کی تجاویز حکومت تک پہنچادی ہیں اورجواب کے منتظر ہیں تاہم دونوں کمیٹیوں کے درمیان آج اور کل اجلاس متوقع نہیں ہے۔

پروفیسر ابراہیم طالبان کمیٹی کے وہ رکن ہیں جو کمیٹی کے کوآرڈینیٹر یوسف شاہ کے ہمراہ طالبان کی سیاسی شوریٰ سے ملاقات کرنے گئے تھے ، طالبان کے مطالبات لے کر واپس آئے اور پھر اپنی پوری کمیٹی کے ہمراہ حکومتی کمیٹی سے ملاقات میں طالبا ن کے مطالبات سامنے رکھ دیئے۔ 11 فروری کو ہونے والی یہ ملاقات اگرچہ غیر رسمی کہلائی لیکن اس کے بعد سے اب تک دونوں کمیٹیوں کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔

پروفیسر ابراہیم کاکہنا ہے کہ انہوں نے طالبان کے مطالبات حکومت تک پہنچادیئے ہیں اور اب جواب کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وہ مذاکرات کی رفتار سے کسی حد تک مطمئن ہیں۔دوسری طرف طالبان کمیٹی کے ایک اور رکن رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ طالبان نے سیز فائر پر اتفاق کیا ہے ، ان کے کچھ مخالفین مذاکرت کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔جبکہ آج کراچی میں پولیس وین پر حملے کے بعد رد عمل دیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہاکہ مذاکرات کا عمل بے معنی ہوتا جارہاہے۔

ادھرطالبان کی مذاکراتی کمیٹی نے کہا ہے کہ حکومتی کمیٹی کی جانب سے لکھا گیا خط موصول نہیں ہوااور مطالبہ کیا ہے کہ مذاکرات میڈیا کے ذریعے نہ کئے جائیں میڈیا کو خط کے مندرجات سے قبل ہمیں بتا دیا جاتا تو اچھا تھاجبکہ حکومتی کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ خط بھیج دیا ہے، یوسف شاہ نے وصول ہونے کی تصدیق کردی ہے۔میڈیا کے مطابق حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے ملک بھر میں جاری حالیہ دھماکوں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ملک میں حالیہ جاری تشدد کی کارروائیاں بند کی جائیں ۔

میڈیا رپورٹ پر خبر آنے کے بعد طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے تحفظات کا اظہار کیا اور مولانا سمیع الحق کی طرف سے کہا گیا کہ حکومتی کمیٹی کی جانب سے لکھا گیا خط ہمیں موصول نہیں ہوا ۔بہتر تھا کہ میڈیا پر خط کا ذکر آنے سے پہلے ہمیں بتایا جاتا ۔میڈیا کے ذریعے ہمارے ساتھ مذاکرات نہ کئے جائیں بلکہ ہمارے ساتھ بالمشافہ ملاقات کریں۔طالبان کمیٹی کے رکن نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ ہم میڈیا کو نہیں بتاتے کہ ہماری ملاقات کہاں ہو رہی ہے لیکن حکومتی کمیٹی کا کارکن میڈیا ایس ایم ایس کے آگاہ کر دیتے ہیں اور میڈیا وہاں پہنچ جاتا ہے لہذا مذاکرات کی کامیابی کے لئے حکومتی کمیٹی ذرا احتیاط سے کام لے۔

میڈیا اطلاعات کے مطابق مولانا سمیع الحق کی طرف سے یہ بیابن سامنے آنے کے کچھ دیر بعد حکومتی کمیٹی کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے بتایا کہ خط دوبارہ فیکس کردیا گیا ہے اور طالبان کمیٹی کے رابطہ کار یوسف شاہ نے خط ملنے کی تصدیق کردی ہے، ان کا کہنا تھا کہ وہ خط کے مندرجات نہیں بتا سکتے تاہم میڈیا نے ذرائع کے حوالہ سے بتایا کہ اس خط میں ایسے بیانات سے گریز کا مطالبہ کیا گیا ہے جن سے مذاکرات کا ماحول خراب ہو جبکہ پرتشدد کارروائیاں روکنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔