غداری کیس،مشرف اٹھارہ فروری کو پھر طلب، وکیل جوابی دلائل بھی دیں گے، پرویز مشرف اسپتال میں زیر علاج ہیں مجھے سزا دے دیں یہ میرے لیے باعث فخر ہو گا، رانا اعجاز، ابھی تو اعتراف جرم ہی نہیں ہوا تو سزا کیسے ہو سکتی ہے‘جسٹس فیصل عرب ،پرویز مشرف کے وکلاء کا پراسیکیوٹر اکرم شیخ پر اعتراض ،خصوصی عدالت ایکٹ کی دفعہ تین دو کی رو سے کوئی اور عدالت غداری کیس کی سماعت کی مجاز نہیں‘ آئین کا آرٹیکل 13 بھی دیگر عدالتوں کو سنگین غداری کیس کے اختیار سماعت سے محروم کرتا ہے، اکرم شیخ ، پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے ٹرائل ملٹری کورٹ منتقل کرنے کی درخواست پر جوابی دلائل مکمل کر لیے، مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے جواب الجواب کے لیے مہلت مانگ لی ،غداری کیس کی مزید سماعت اٹھارہ فروری تک ملتوی کر دی گئی

جمعرات 13 فروری 2014 03:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13اگست۔2014 )پرویز مشرف کے وکلاء نے استغاثہ کے خلاف ہراساں کرنے سے متعلق درخواست واپس لے لی۔ وکیل رانا اعجاز کہتے ہیں پرویز مشرف اسپتال میں زیر علاج ہیں مجھے سزا دے دیں یہ میرے لیے باعث فخر ہو گا۔ جسٹس فیصل عرب کہتے ہیں ابھی تو اعتراف جرم ہی نہیں ہوا تو سزا کیسے ہو سکتی ہے۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

پرویز مشرف کے وکلاء نے پراسیکیوٹر اکرم شیخ پر اعتراض اْٹھا دیا۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ اکرم شیخ کی تقرری کو چیلنج کر رکھا ہے فیصلہ آنے تک پراسیکیوٹر کو دلائل سے روکا جائے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ عدالت کے اختیارات محدود ہیں یہ آئینی عدالت نہیں وکلاء صفائی کے استغاثہ کے خلاف دلائل کے بعد پراسیکیوٹر سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

مشرف کے وکیل رانا اعجاز نے کہا کہ استغاثہ کے خلاف ہراساں کرنے کی درخواست سے دستبر دار ہوتے ہیں۔ رانا اعجاز نے کہا کہ پرویز مشرف اسپتال میں زیر علاج ہیں ان کی جگہ مجھے سزا دے دیں۔ پرویز مشرف کے دور میں وزیر رہا ہوں ان کی خاطر سزا کاٹنا میرے لیے باعث فخر ہو گا۔ رانا اعجاز نے کہا کہ وہ مشرف کے دور میں صوبائی وزیر رہے ہیں جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں عدالت کو اختیار نہیں دوسری جانب کہ رہے ہیں سزا سنا دیں ابھی تک تو عدالت کے سامنے کوئی اعتراف آیا ہی نہیں۔

پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ غداری کیس کی فوجی عدالت میں منتقلی کی درخواست مسترد کر چکی ہے۔ آئینی عدالت کا حکم تسلیم کرنا لازم ہے اسلام آباد ہائی کورٹ سے پرویز مشرف نے خود رجوع کیا۔ فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل زیر التواء ہے۔ انٹرا کورٹ اپیل کی جلد سماعت کی استدعا بھی نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ انور منصور تسلیم کر چکے ہیں کہ غداری آئینی جرم ہے جبکہ خالد رانجھا ان سے متضاد موقف اختیار کر رہے ہیں کہ یہ آئینی نہیں سول جرم ہے۔

آرمی ایکٹ کے باب 5 میں سنگین غداری کا تذکرہ نہیں ملتا۔ خصوصی عدالت عام فوجداری عدالت کی تعریف میں نہیں آتی اور خصوصی عدالت کے زیر سماعت آنے والا غداری مقدمہ آرمی ایکٹ کے زمرے میں نہیں آتا۔ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت ایکٹ کی دفعہ تین دو کی رو سے کوئی اور عدالت غداری کیس کی سماعت کی مجاز نہیں۔ آئین کا آرٹیکل 13 بھی دیگر عدالتوں کو سنگین غداری کیس کے اختیار سماعت سے محروم کرتا ہے۔

خصوصی عدالت صرف سنگین غداری کیس اور غداری کیس صرف خصوصی عدالت کے لیے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق بھی صرف وہاں ہوتا ہے جہاں خصوصی ایکٹ خاموش ہو۔ خصوصی عدالت ایکٹ میں ملزم کو کسی دوسری عدالت منتقل کرنے کی گنجائش نہیں۔ آرمی ایکٹ کی دفعہ 94 پر مشرف کا انحصار بے بنیاد ہے۔ پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے ٹرائل ملٹری کورٹ منتقل کرنے کی درخواست پر جوابی دلائل مکمل کر لیے۔ مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے جواب الجواب کے لیے مہلت مانگ لی جس کے بعد غداری کیس کی مزید سماعت اٹھارہ فروری تک ملتوی کر دی گئی۔

متعلقہ عنوان :