طالبان کیساتھ مذاکرات بارے پرامید اورخوشخبری سنناچاہتے ہیں ،وزیر اعظم ،فوج اورعوام مذاکراتی عمل میں حمایت حاصل ہے ،مستحکم افغانستان پاکستان کے استحکام سے مشروط ہے ،بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر میکنزم بنناچاہئے ،پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہیں ہوگی،محمدنوازشریف کی انقر ہ میں صحافیوں سے گفتگو، ترک صدر عبداللہ گل کا وزیراعظم نواز شریف اورافغان صدر کے اعزازمیں عشائیہ

جمعرات 13 فروری 2014 03:24

انقرہ(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13اگست۔2014)وزیراعظم محمدنوازشریف نے کہاہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں پرامیدہیں اورخوشخبری سنناچاہتے ہیں ،فوج اورعوام مذاکراتی عمل کی حمایت کررہی ہے ،مستحکم افغانستان پاکستان کے استحکام سے مشروط ہے ،بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پرفائرنگ بارے معلوم کرنے کیلئے میکنزم بنناچاہئے ،پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہیں ہوگی۔

ان خیالات کااظہاروزیراعظم نے بدھ کے روزآٹھویں پاک افغان ترکی سہ فریقی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کیلئے ترکی کے تین روزہ سرکاری دورے پرانقرہ میں صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کیا۔وزیراعظم نے کہاکہ دہشتگردی کے سدباب کیلئے ان کی حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کی کارکردگی تسلی بخش ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ جولوگ دھماکے کررہے ہیں طالبان نے اس کانوٹس لینے کی یقین دہانی کرائی ہے ،طالبان کی جانب سے پشاورحملوں سے لاتعلقی کااظہارسامنے آیاہے ،حکومت طالبان سے مذاکرات آگے بڑھنے کی امیدہے ،حکومت ملک میں امن وامان کی بحالی اوراستحکام کواولین ترجیح دیتی ہے اوراس کیلئے اقدامات اٹھارہی ہے ،مذاکرات سے پہلے دہشتگردی بندہونی چاہئے ،مذاکرات کوسبوتاژ کرنے والوں کودیکھ رہے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ مذاکرات کے حوالے سے ڈیڈلائن کاسوچنے سے پہلے اس عمل کوسپورٹ کیاجائے ۔طالبان سے مذاکرات میں ہم بھی چاہتے ہیں کہ کوئی خوشخبری سننے کوملے ۔فوج اورعوام کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی جارہی ہے ،افغانستان کے حوالے سے وزیراعظم نے کہاکہ افغانستان میں جمہوری استحکام پاکستان کیلئے بہترہے ،حامدکرزئی بھی چاہتے ہیں کہ طالبان سے بات چیت کریں ۔

مگرطالبان نہیں چاہتے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی سرزمین کسی ملک کیخلاف استعمال نہیں ہوگی ،چاہتے ہیں کہ افغانستان میں انتخابی عمل پرامن ہو،افغان صدرپاکستان سے مددکے خواہشمندتھے لیکن ہم پہلے اپنے معاملات ٹھیک کریں گے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی جانب سے ملابرادرکورہاکردیاگیاہے اب یہ افغانستان کامعاملہ ہے ،ہمارے کچھ لوگ پکڑے گئے توافغانستان سے انہیں رہاکردیاتھا،بھارت کے حوالے سے وزیراعظم کاکہناتھاکہ بھارت سے اہم امورپرپیشرفت ہوئی ہے ،ڈی جی ایم اوزکی میٹنگ میں طے پایاکہ دونوں طرف سے سرحدپارگولہ باری نہیں ہوگی ،ہم نے طے کیاتھاکہ اگرآئندہ ایساہواتوہم معاملے کی طے تک پہنچیں گے ۔

ڈی جی ایم اوزکی ملاقات کے بعدایساکوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔انہوں نے کہاکہ بھارت مسئلہ کشمیرپربات چیت کرنے کوتیارہے ،پاکستان مسئلہ کشمیرکاحل چاہتاہے ،بھارت اوراقوام متحدہ سے کشمیرپرثالثی کاکرداراداکرنے کوکہا۔بھارت کومسئلہ کشمیرپربات چیت کیلیئے راضی ہوناچاہئے ،گزشتہ 65برسوں سے دونوں ملک مل رہے ہیں لیکن مسئلہ کشمیرحل نہیں ہورہا،امریکی صدرباراک اوبامہ سے بھی مسئلہ کے حل کیلئے بات چیت ہوئی تھی ۔

دریں اثناء ترک صدرعبداللہ گل کی جانب سے وزیراعظم محمدنوازشریف اورافغان صدرحامدکرزئی کے اعزازمیں عشائیہ بھی دیاگیاتھا۔قبل ازیں وزیراعظم بدھ کے روزتین روزہ سرکاری دورے پرترکی پہنچے جہاں انقرہ میں ان کاوالہانہ استقبال کیاگیا۔انقرہ ائیرپورٹ پرترکی کے وزیرماحولیات اوردیہی منصوبہ بندی ادریس گل پاک ترک پارلیمانی دوستی گروپ کے چیئرمین برھان کیاترک اوردیگراعلیٰ سطحی حکام نے ان کااستقبال کیا۔

وزیراعظم کے ہمراہ وفدمیں وزیردفاع وپانی وبجلی خواجہ آصف ،وزیراعظم کے مشیربرائے امورخارجہ سرتاج عزیز،وزیراعظم کے خارجہ امورپرخصوصی معاون طارق فاطمی ،چیئرمین سرکاری بورڈمفتاح اسماعیل احمداراکین پارلیمنٹ اوراعلیٰ سطحی فوجی وسول حکام شامل ہیں ۔وزیراعظم پاک افغان اورترک سہ فریقی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے ۔سہ فریقی اجلاس اعلیٰ سطحی سیاسی مذاکرات،سیکورٹی تعاون اورترقیاتی شراکت داری سمیت افغانستان میں امن واستحکام کے فروغ کیلئے تینوں برادرملکوں کے درمیان ایک غیرمعمولی پلیٹ فارم مہیاکرتاہے ۔وزیراعظم اس موقع پراستنبول بھی جائیں گے اورترکی کے اعلیٰ حکام سمیت تاجروں اورسرمایہ کاروں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔