حکومت تذبذب کا شکار ہے، طالبان مات پہ مات دے رہے ہیں اور لگتا ہے کہ چند ہفتوں میں شاہ مات کردیں گے،اعتزاز احسن،خانہ جنگی میں ملوث گروپ کیساتھ حکومت برابری کی سطح پر مذاکرات کررہی ہے،وزیراعظم نے بحث میں حصہ لینا مناسب نہ سمجھا، وزیر داخلہ ڈر کر بھاگ گئے،ایک مسلک کے مطابق سفارشات منظوراور شہریوں کے حقوق پامال نہ ہونے دیں گے،سینٹ میں خطاب،طالبان پاکستان کو بھی مانتے ہیں اور آئین کو بھی ،مشاہداللہ خان ،مذاکرات کی ابتداء ہی ہوئی ہے کوئی فیصلہ نہیں ہوا‘ پی پی کے لوگوں نے بی بی کے قاتلوں سے مذاکرات کئے،سوات میں منتیں کرکے صوفی محمد سے مذاکرات اور معاہدہ کیا گیا، سب کو مل کر دعا کرنی چاہئے کہ ملک سے دہشت گردی ختم ہو، ہم کامیاب ہوں گے ، ہمیشہ نظرئیے اور بندوق کی جنگ میں نظریہ ہی جیتا ہے،بحث میں جواب

بدھ 12 فروری 2014 07:47

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔12فروری۔2014ء)سینٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ حکومت تذبذب کا شکار ہے۔ طالبان مات پہ مات دے رہے ہیں اور لگتا ہے کہ چند ہفتوں میں شاہ مات کردیں گے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ خانہ جنگی میں ملوث گروپ کیساتھ حکومت برابری کی سطح پر مذاکرات کررہی ہو۔ حکومت اسے تسلیم کرکے مذاکرات کررہی ہے۔

وزیراعظم نے بحث میں حصہ لینا مناسب نہیں سمجھا۔ وزیر داخلہ بھی ڈر کر بھاگ گئے ہیں۔ ہم ایک مسلک کے مطابق سفارشات اور مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کی عورت‘ مزدور اور عام شہریوں کے حقوق کو پامال نہیں ہونے دیں گے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا کہ مذاکرات کی ابتداء ہی ہوئی ہے کوئی فیصلہ نہیں ہوا‘ پی پی کے لوگوں نے بی بی کے قاتلوں سے مذاکرات کئے۔

(جاری ہے)

سوات میں منتیں کرکے صوفی محمد سے مذاکرات اور معاہدہ کیا گیا۔ اس وقت بھی اسی شریعت کی بات کی گئی تھی۔ قتل و غارت روکنے کا ایک طریقہ ہے اور وہ ہے مذاکرات‘ طالبان پاکستان کو بھی مانتے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان نام بھی رکھا ہوا ہے۔ پاکستان کو ماننا ملک کے آئین کو ماننا ایک برابر ہے۔ سب کو مل کر دعا کرنی چاہئے کہ ملک سے دہشت گردی ختم ہو۔

ہم کامیاب ہوں گے کیونکہ ہم نے بندوق نہیں اٹھائی۔ ہمیشہ نظرئیے اور بندوق کی جنگ میں نظریہ ہی جیتا ہے۔منگل کے روز یہاں سینٹ میں امن وامان کی صورت حال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر سردار یعقوب ناصر نے کہا کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر تمام کی نظریں مذاکرات پر ہیں ۔ایسے موقع پر کوئی ایسی بات نہ کی جائے جس سے یہ مذاکرات متاثر ہوں ۔

ہمیں طالبان کی مجبوریوں کو سمجھنا چاہیے وہ ایک گروپ نہیں بلکہ کئی ہیں ۔کچھ گروپس مذاکرات کی کامیابی اور تشدد کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک میں امن وامان قائم رکھنے کے لئے صبر سے کام لینا ہوگا۔سینیٹر ڈاکٹر سعیدہ اقبال نے کہا کہ پشاور میں جس دن دھماکہ نہ ہو حیرت ہوتی ہے ۔مذاکرات کے دوران دھماکے ہو رہے ہیں ۔ملک حالت جنگ میں ہے ۔

اس صورت حال میں ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنا ہوگا۔ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے حل کے لئے سب کو مل کر چلنا ہوگا۔سینیٹر احمد حسن نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) جب بھی اقتدار میں آئی اس نے فاٹا ،پاٹا اور قبائلی علاقوں کو نظر انداز کیا جو کچھ سہولیات میسر ہوئی ہیں یہ حکومت کو ان کو واپس لے لیتی ہے ۔ معاشی حالت کمزور ہو جاتی ہے جو امن وامان کی صورت حال خراب ہونے کی بنیادی وجہ ہے۔

ہماری غلط منصوبہ بندی سے امن وامان کی صورت حال خراب ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت وقت گزاری کی پالیسی پر گامزن ہے جس سے حالات خراب ہو رہے ہیں لہذا ایسی پالیسی کو ترک کر دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کے‘ فاٹا اور پاٹا کے عوام کو روزگار فراہم کرنے کیلئے ایک طریقہ کار بنایا جانا چاہئے۔ منصوبہ بندی کی جانی چاہئے اور پالیسیوں کا تسلسل بھی ہونا چاہئے۔

اس موقع پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر اعظم خان نے کہا کہ خراب حالات کے باوجود یہ کہنا کہ حالات ٹھیک ہیں‘ سمجھ سے بالاتر ہیں۔ مذاکرات کی مخالفت تو نہیں کرتا تاہم یہ تو بتایاجائے کہ مذاکرات کس سے کئے جارہے ہیں۔ قوم کو سب کچھ نہ بتایا جائے مگر اصل بات کا چوتھائی تو بتایا جائے۔ انہوں نے کہاکہ لوگوں کو پرامید کرنے کیلئے تمام معلومات دی جائیں۔

سینیٹر محسن لغاری نے اس پر کہا کہ مذاکرات کو سنسنی خیز انداز میں دیکھا اور پیش نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ کرنے کا اختیار حکومت کا ہے اور نتائج کی ذمہ دار بھی حکومت ہی ہوگی۔ تمام دنیا میں یہ طریقہ رائج ہے کہ مذاکرات کئے جاتے ہیں مگر یہ مذاکرات میڈیا اور دیگر سے چھپ کر ہورہے ہیں اور ساری چیزیں لمحہ بہ لمحہ قوم کے سامنے نہیں لائی جارہیں۔

محسن لغاری نے کہا کہ ان معاملات کو زیر بحث ہی نہ لایا جائے تاہم حتمی فیصلے کے وقت قوم کو حقیقت بتادی جائے۔ سینیٹر الیاس بلور نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات پر پیشرفت کو خفیہ رکھا جائے۔ ایک طرف مبارکبادیں دی جارہی ہیں تو دوسری طرف دھماکے ہورہے ہیں۔ خیبرپختونخوا فاضل پن بجلی پیدا کررہا ہے مگر بجلی کے ریٹ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بڑھا کر 15 روپے کردئیے گئے ہیں۔

نواز لیگ جب سے برسراقتدار آئی ہے سابقہ اداروں کو حاصل سہولیات اور پیکیج بھی واپس لے لئے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت کوئی نئی سہولت نہیں دے سکتی تو کم از کم سابقہ ادوار کی سہولیات تو واپس نہ لے۔ ایک طرف لوگ مر رہے ہیں اور دوسری طرف عوام کو سہولیات سے محروم کیا جارہا ہے۔ سینیٹر عبدالنبی بنگش نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی سیمی طالبان ہے‘ غیر سنجیدگی کا ایک اعلی مظاہرہ کیا گیا ہے کہ اس میں حکومت کی کوئی نمائندگی نہیں۔

مذاکرات کیلئے جو کمیٹی گئی تھی وہ سوا ممبر کمیٹی تھی۔ اس کے تین ممبران مختلف جگہوں پر پریس کانفرنس کررہے تھےٰ۔ مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ فوجی کے جنازے ناجائز ہیں۔ کمیٹی کے ارکان کا اپنا اپنا موقف ہے۔ مذاکرات پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ۔ ایک رکن کیساتھ مذاکرات پر بغلیں بجائی جارہی ہیں۔ عبدالنبی بنگش نے کہا کہ ہمارے ہاتھ پیر باندھ دئیے گئے ہیں۔

ہم ہر روز لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ وزارت دفاع و داخلہ اور حکومت فوجیوں کی لاشوں کے بیان پر کیوں خاموش ہے۔ ہم اتنے معذرت خواہانہ کیوں ہیں‘ شرافت اور بزدلی میں فرق کرنا چاہئے۔ قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حکومت تذبذب کا شکار ہے۔ طالبان مات پہ مات دے رہے ہیں اور لگتا ہے کہ چند ہفتوں میں شاہ مات کردیں گے۔

دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ خانہ جنگی میں ملوث گروپ کیساتھ حکومت برابری کی سطح پر مذاکرات کررہی ہو۔ حکومت اسے تسلیم کرکے مذاکرات کررہی ہے۔ بحث میں وزیراعظم نے حصہ لینا مناسب نہیں سمجھا۔ وزیر داخلہ بھی ڈر کر بھاگ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بحث ہورہی ہے کہ آئین اسلامی ہے تاہم اسے چند تبدیلیوں سے مزید اسلامی کرنا ہے۔

آئین جمہوری ہے اس میں عدلیہ آزاد ہے یہ عوام کی مرضی سے بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کہتے رہے کہ مذاکرات آئین کے دائرے میں رہ کر ہوں مگر آئین کی تشریح کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ آئین کو ایک مسلک کے تابع کردیا جائے گا۔ یہ عوام کو قبول نہیں ہوگا۔ ہم ایک مسلک کے مطابق سفارش کو منظور نہیں کریں گے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کی عورت‘ مزدور اور عام شہریوں کے حقوق کو پامال نہیں ہونے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ طالبان سے طالبان مذاکرات کررہے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت نے اپنا نمائندہ حکومتی ٹیم میں دیا ہے اسی جماعت کے سربراہ کا نام طالبان نے اپنی ٹیم میں بھی دیا ہے۔ صرف ہم خیال لوگوں کو ہی اپنی ٹیم میں شامل کیا جاتا ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ طالبان کے ممنون ہیں کہ انہوں نے بعض لوگوں کے چہروں سے نقاب ہٹادیا ہے۔ حکومت اور دیگر جماعتوں نے حلف اٹھایا ہوا ہے کہ آئین کا تحفظ کیا جائے گا۔

آج تک دوسرے فریق سے کوئی ردعمل نہیں آرہا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم آئین نہیں مانتے۔ انہوں نے کہا کہ شریعت کا اتنا معاملہ نہیں ہے۔ قیدی رہا کریں تو ان کو فوج مل گئی۔ فوج واپس بلائی گئی تو ان کو علاقہ مل گیا اور رقم کی صورت میں بجٹ مل گیا۔ پیپلزپارٹی مذاکرات کے کبھی خلاف نہیں رہی ہے۔ اپوزیشن کو اس سارے عمل میں کچھ نظر نہیں آتا سوائے ریاست پر دباؤ بڑھانے کے مگر ہم نے پھر بھی حمایت کی۔

یہ مسئلے کا حل نہیں ہے کہ بندوق کے زور پر آئین تبدیل کردیا جائے۔ یہ کام ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوا۔ ہمیں مذاکرات سے کوئی امید نہیں ہے مگر ہم نے کہا کہ آپ مذاکرات کرکے دیکھ لیں۔ انہوں نے کہا کہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم مذاکرات کس سے کررہے ہیں۔ ایک کمیٹی بیٹھی ہے اس کے پیچھے ایک اور کمیٹی بیٹھی ہے اس کا لیڈر افغانستان بیٹھا ہے۔ حکومت کو بھی پہلے دن سے پوزیشن لینی چاہئے تھی۔

حکومتی کمیٹی عوام کے حقوق کی ضمانت ہے۔ طالبان نے اگر مطالبہ کیا ہے تو حکومت نے کیا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت کی حکمت عملی سمجھ میں نہیں آرہی‘ حکومت کی حکمت عملی ضروری ہے‘ صرف طالبان کی بات نہیں ہے‘ ذہنیت کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس شورش کا مقابلہ کرنے کیلئے فاٹا اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کافی نہیں ہوگا۔ ان کی دس فیصد تعداد پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔

جو گاڑی فاٹا میں پھٹتی ہے وہ فاتا سے تیار ہوکر نہیں آتی وہ کراچی میں بنتی ہے۔ لاہور میں پھٹنے والی گاڑی لاہورمیں بنتی ہے۔ جہاں حملہ ہوتا ہے وہیں یہ گاڑیاں تیار ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فوج کشی آخری آپشن ہے۔ اس ایشو کو انٹیلی جنس کے ذریعے ہینڈل کیا جائے۔ عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے حکومت اس معاملے میں مفلوج ہے‘ سوچ رہی ہے اور نہ ہی عمل ہورہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا کہ مذاکرات کی ابتداء ہی ہوئی ہے کوئی فیصلہ نہیں ہوا‘ جی ایچ کیو پر حملہ سابقہ دور حکومت میں ہوا۔ اس کے تدارک کیلئے کیا کیا گیا۔ پی پی کے لوگوں نے بی بی کے قاتلوں سے مذاکرات کئے۔ سوات میں منتیں کرکے صوفی محمد سے مذاکرات اور معاہدہ کیا گیا۔ اس وقت بھی اسی شریعت کی بات کی گئی تھی۔ پچھلے پانچ سالوں میں مذاکرات کیوں نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ قتل و غارت روکنے کا ایک طریقہ ہے اور وہ ہے مذاکرات‘ طالبان پاکستان کو بھی مانتے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان نام بھی رکھا ہوا ہے۔ پاکستان کو ماننا ملک کے آئین کو ماننا ایک برابر ہے۔ مسلم لیگ (ن) وفاق کی جماعت ہے کسی صوبے کا نعرہ نہیں لگایا۔ خود کو وفاقی جماعت کہنے والے صوبائیت کو بھی ہوا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کسی فرقے کیخلاف ہتھیار اٹھائے تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔

ہمیں شریعت اور جہاد کا علم ہے۔ اس ملک میں اسلامی قانون ہے اور کچھ خرابیاں بھی ہیں مگر انتخابات میں حصہ لیں اور جیت کر درست کرلیں۔ آئین کے حوالے سے فیصلہ پارلیمان سے باہر نہیں ہوگا۔ ہم مشرف تھوڑی ہیں جو ایک فون پر ہی ڈھیر ہوجائیں۔ ہم نے دنیا کا دباؤ برداشت کرکے ایٹمی حملے کئے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور کون مروانے والے تھے سب کو مل کر دعا کرنی چاہئے کہ ملک سے دہشت گردی ختم ہو۔ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے۔ ہم کامیاب ہوں گے کیونکہ ہم نے بندوق نہیں اٹھائی۔ ہمیشہ نظرئیے اور بندوق کی جنگ میں نظریہ ہی جیتا ہے۔