فضل الرحمن کی جانب سے طالبان اور حکومت کے مذاکرات کی حمایت کا اظہار،عالمی قوتوں کا افغانستان سے نکل جانا مسائل کا واحد حل ہے،امریکہ‘ نیٹو‘ یورپی یونین اور پڑوسیوں سے بھی دوستی کرسکتے ہیں لیکن غلامی قبول نہیں،فضل الرحمان،آئین کے مطابق قانون سازی ہوتی تو دہشت گردی کا وجود نہ ہوتا، بندوق کے ذریعے مطالبات منوانا درست نہیں مگر ملک میں جائز طریقے سے بات کہنے کا بھی طریقہ کار ہونا چاہئے،تقریب سے خطاب اور صحافیوں سے بات چیت

بدھ 12 فروری 2014 07:47

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔12فروری۔2014ء) جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے طالبان اور حکومت کے مذاکرات کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مذاکرات کامیابی پر ہی ختم ہونے چاہئیں،عالمی قوتوں کا افغانستان سے نکل جانا مسائل کا واحد حل ہے۔امریکہ‘ نیٹو‘ یورپی یونین اور پڑوسیوں سے بھی دوستی کرسکتے ہیں لیکن غلامی قبول نہیں،آئین کے مطابق قانون سازی ہوتی تو دہشت گردی کا وجود نہ ہوتا۔

بندوق کے ذریعے مطالبات منوانا درست نہیں مگر ملک میں جائز طریقے سے بات کہنے کا بھی طریقہ کار ہونا چاہئے۔منگل کو یہاں مقامی ہوٹل میں ایک تقریب سے خطاب اور صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد ایک انتقام کا سلسلہ شروع ہوا جسے دہشت گردی کا نام دیا گیا‘ آج بتایا جائے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ کے کیا نتائج حاصل ہوئے‘ امریکہ 2014ء کے بعد افغانستان سے نکلے گا‘ نیٹو کی افغانستان میں موجودگی کم سے کم تر ہوچکی ہے‘ امریکہ ایک خاص وژن کیساتھ افغانستان میں اپنی موجودگی رکھنا چاہتا ہے۔

(جاری ہے)

ہمیں امریکیوں کا افغانستان سے فوری انخلاء چاہئے تاہم انخلاء کیلئے مراحل پر بات ہوسکتی ہے اور افغانستان میں موجود مختلف قوتیں مراحل پر بات کرسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی قوتوں کا افغانستان سے نکل جانا مسائل کا واحد حل ہے۔ اس کیساتھ ساتھ افغانستان میں داخلی مفاہمت بھی ضروری ہے۔ ہم افغانستان میں داخلی جنگ بندی سے بچنے کیلئے سیاسی مفاہمت کو سپورٹ کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ریاست کے طور پر عالمی اتحادی بھی ہے اور اس کیساتھ ہم نے افغانستان کیساتھ تعلقات بھی بہتر رکھنے ہیں اور داخلی کنٹرول بھی رکھنا ہے۔ پاکستان میں امن مذاکرات کی ہم حمایت کرتے ہیں۔ یہ کامیابی پر ہی ختم ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک بڑا مذہبی طبقہ ہے جو امن سے وابستہ ہے۔ اس کو اسلام کہہ دیا گیا۔

ان رویوں کے پیچھے نیک نیتی کیسے کارفرماء ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم داخلی امن چاہتے ہیں اور اس کیلئے تمام کوششوں کی حمایت کررہے ہیں۔ افغانستان کے مسئلے کے مستقل حل کیلئے دنیا کو اکٹھا ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین پر موجود گرد کو صاف کرنا پڑے گا۔ مذہبی طبقے کے بارے میں سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہم اس آئین پر عمل کرانا چاہتے ہیں جو بنایا گیا تھا۔

آئین کے مطابق قانون سازی ہوتی تو دہشت گردی کا وجود نہ ہوتا۔ بندوق کے ذریعے مطالبات منوانا درست نہیں مگر ملک میں جائز طریقے سے بات کہنے کا بھی طریقہ کار ہونا چاہئے مگر ہم آئین کے مطابق قانون سازی کرکے اس کا مقابلہ کرسکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ مذہبی دنیا کی ضرورت نہیں۔ دنیا کو سوچنا چاہئے کہ جنگ کے ذریعے کونسی قوتیں اپنے ایجنڈے کی طرف جانا چاہتی ہیں۔ ہم دوستی کے قائل ہیں۔ امریکہ‘ نیٹو‘ یورپی یونین اور پڑوسیوں سے بھی دوستی کرسکتے ہیں لیکن غلامی قبول نہیں۔