حالیہ بم دھماکوں میں تحریک طالبان ملوث نہیں، دھماکوں میں ملوث قوتوں کو تلاش کرنا حکومت کا کام ہے، ترجمان کالعدم تحریک طالبان ، مذاکرات آئین کے تحت ہونے سمیت کوئی شرط نہیں ہونی چاہئے ، طالبان نے شریعت کیلئے قربانیاں دی ہیں ، شاہد اللہ شاہد کااُردو پوائنٹ کو خصوصی انٹرویو

بدھ 12 فروری 2014 07:40

پشاور(رحمت اللہ شباب ۔اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔12فروری۔2014ء) حکومت سے مذاکرات میں آئین کی باتوں سے مذاکرات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے کیونکہ طالبان شریعت کے نفاذ کے لیے بے پناہ قربانیا ں دی ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے وزیر ستان میں نا معلوم مقام پر نمائندہ اُردو پوائنٹ رحمت اللہ شباب کو خصوصی انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ طالبان امن مذاکرات کے لیے مکمل سنجیدہ ہے اور ہماری سیاسی شوریٰ نے اپنے کمیٹی کے اراکین کو اپنے تحفظات اور اختیارات سے مکمل طور پر آگاہ کر دیا ہے۔

ہم اُمید کرتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے مثبت جواب ملے گا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان جب مذاکرات ہو رہے ہیں تو پھر بم دھماکے کون کر رہا ہے ۔

(جاری ہے)

تو ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں سے جو بم دھماکے ہوئے ہیں ۔اس میں نہ تحریک طالبان ملوث ہیں اور نہ ہم ایسے دھماکو ں کی حمایت کرتے ہیں جن میں بے گنا ہ لوگوں کی ہلاکت ہوں۔ ہماری پالیسی واضع ہے۔

جبکہ یہ بات بھی اپنی جگہ واضع ہے کہ ابھی تک حکومت کے ساتھ ہماری جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ البتہ حالیہ دھماکوں میں ملوث قوتوں کو تلاش کرنا حکومت کا کام ہے۔ مذاکرات آئین کے اندر ہونے کے حوالے سے ترجمان کا کہنا تھا کہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے دونوں اطراف سے کوئی شرائط نہیں ہونا چاہیے اور غیر مشروط مذاکرات کی بات طالبا ن اور حکومت دونوں کی طرف سے بار بار کی گئی ہے ایسی صورت حال میں آئین کے تحت مذاکرات کی بات ایک شرط ہے۔

جو پیش نہیں ہونی چاہیے۔رہی بات آئین کی تو ہم نے پہلے بھی واضح کرچکے ہیں کہ ہماری جنگ نہ تو کرسی کی ہے نا اقتدارکی ۔ ہم تو صرف شریعت چاہتے ہیں۔مذاکرات شورش زدہ علاقوں کے حوالے سے شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا کہ شورش زدہ علاقوں کی کوئی خاص حد بندی نہیں ہے۔اسکی وضاحت ہونے پر اسکے بارے میں کوئی بات کی جاسکتی ہے۔ ویسے تو پورا پاکستان شورش زدہ ہے ، بہتر یہی ہے کہ مذاکرات پورے ملک کے حوالے سے ہو۔

افغانستان میں موجود امریکی افواج کے 2014کے نکلنے کے حوالے سے ترجمان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ امریکہ کے نکلنے یا نہ نکلنے کا نہیں بلکہ ہمارا ہدف فسادی نظام ہے۔ جو امریکہ مغربی تہذیب کی شکل میں لیکر آیا ہے۔ اور میڈیا نے اُس نظام کی مضبوطی میں مغربی قوتوں کا ساتھ دیا ہے۔ 90فیصدمیڈیا آج مسلمانوں کے خلاف جنگ میں بطور ہتھیار استعمال ہور ہا ہے۔

میڈیا اس نظام کی خرابی بیان کرنے کے بجائے اس نظام سے مسلک افراد کو بدنام کرکے نظام کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثلا پرویز مشرف کو آج بڑا مجرم بنا دیا گیا ہے۔ اس کے جرائم کا اصل سبب وہ نظام ہے جس نے مشرف کو کھلی چھوٹ دی تھی۔اور وہ جو چاہے کرتا رہے۔ پہلے قبائلیوں کو خون میں نہلا دیا۔ اور بعد میں مساجدوں کو بھی نہیں بخشا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مشرف کو مجرم سمجھنے کے باوجود بھی اُسی کی غلط پالیسیاں اُ ن کے جانے کے بعد بھی حکمرانوں نے اُن سے دو قدم آگے جاری رکھے ہوئے ہیں۔