آئین کے تحت طالبان سے مذاکرات کئے جائیں ،آئین کو تسلیم نہ کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کی جائے،سینٹ میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کا مطالبہ،پارلیمنٹ کا بند کمرہ مشترکہ اجلاس بلایا اور پارلیمان کی حکومتی کمیٹی تشکیل دے کر تمام مکاتب فکر کو نمائندگی دی جائے ،رضاربانی، آئین پر جید علماء کے دستخط ہیں ، مسائل کے مذاکرات سے حل کو ترجیح دے رہے ہیں، راجہ ظفر الحق، ملک کو کشت و خون میں نہانے والوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے، حاجی عدیل، ملک میں آئین کی عملداری ہوتی تو بہت سی مشکلات نہ ہوتیں ،عبدالغفور حیدری،اہم معاملات پر وزیراعظم پالیسی بیان نہیں دیتے تو پارلیمنٹ کا کیا اختیار ہے ،زاہد خان

منگل 11 فروری 2014 04:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11فروری۔2014ء) ایوان بالا میں حکومت و اپوزیشن اراکین نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات آئین کے دائرہ میں کئے جائیں ، آئین تسلیم نہ کرنے والوں کیخلاف حکومت کارروائی کرے ، سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ طالبان سے آئین کے تحت مذاکرات کئے جائیں ، پارلیمنٹ کا بند کمرہ مشترکہ اجلاس میں بلایا جائے اور پارلیمان کی حکومتی کمیٹی تشکیل دے کر تمام مکاتب فکر کو نمائندگی دی جائے ۔

قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف واضح کرچکے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات آئین کے تحت ہوں گے آئین پر جید علماء کے دستخط ہیں مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ مذاکراتی عمل کے دوران کوئی دہشت گردی کی کارروائیاں کررہا ہے ملک کو کشت و خون میں نہانے والوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے ۔

(جاری ہے)

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہا کہ طالبان کے موقف کو درست نہیں سمجھتے ایوان کو بتایا جائے کہ آئین پاکستان پر چالیس سال میں کتنا عملدرآمد کیا گیا اگر ملک میں آئین کی عملداری ہوتی تو بہت سی مشکلات نہ ہوتیں ۔ مذاکرات کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں اگر آپریشن شروع کیا گیا تو ملک بھر میں مزید تباہی کا خدشہ ہے ۔ سابق وزیراعظم گورنر پنجاب کے پیچھے ہیں ملک محفوظ نہیں ، ملک میں اسلامی نظام نافذ ہے لوگ علامتی نہیں عملاً مسلمان ہیں سینیٹر حمزہ ، سینیٹر سعید غنی ، نجمہ حمید ودیگر کا سینٹ میں خطاب ۔

پیر کے روز ایوان بالا میں حالیہ دہشتگردی سرگرمیوں کے حوالے سے سیاسی اور امان وامان کی صورتحال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر حمزہ نے کہا کہ طالبان حکومت مذاکرات شروع ہوچکے ہیں مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ طالبان نے ملک وقوم اور اسلام کو بدنام کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ زائرین کی بسوں کو بم دھماکوں سے اڑا دیا جاتا ہے کراچی کی صورتحال بھی ابتر ہے ۔

انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ سکیورٹی کی ڈھانچہ کی بات کرتے ہیں مگر آج تک وہ منظر عام پر نہیں آیا ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سابق وزیراعظم اور سابق گورنر پنجاب کے بیٹوں کو سرعام اغواء کرکے وزیرستان پہنچا دیا جاتا ہے مگر معلوم نہیں کیوں حکومتی رٹ کو بحال نہیں کیا جاتا تمام سکیورٹی ادارے مل کر ملک کو دہشت گردی سے چھٹکارہ دلوائیں ۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ پہلے بھی گزارش کی تھی کہ جب مذاکرات کا عمل شروع ہوئی تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ان کیمرہ بلایا جائے مگر ایسا ہوا جبکہ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی بھی اس معاملے پر بنائی جانی چاہیے کیونکہ اس وقت مذاکرات صرف دائیں بازو اور انتہاپسند طبقوں کے درمیان ہورہے ہیں اور سول سوسائٹی و دیگر طبقات اس عمل میں شریک نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ صرف پارلیمان کے ذریعے ہی عوام کی نمائندگی ہی ہوسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے اس معاملے پر پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ تمام مکاتب فکر کی نمائندگی ہوچکے ۔ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات صرف آئین کے دائرہ کے اندر ہی ہوں گے اور وزیراعظم اس کی وضاحت کرچکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 1973ء کے آئین پر مولانا عبدالستار نیازی ، مولانا مفتی محمود ، مولانا عبدالحق اور شاہ احمد نورانی کے دستخط ہیں اور اسی آئین کے تحت حلف بھی اٹھایا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ طالبان مذاکرات کے حوالے سے کسی وقت ابہام پیدا ہوجاتا ہے اس سے اس معاملے پر ایسا فورم تشکیل دیا جانا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ نمائندگی ہوسکے ۔ اس موقع پر حاجی عدیل نے کہا کہ ملک میں کشت و خون بڑھ گیا ہے ملک بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے بعد دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی نہیں ہوئی گزشتہ روز سوئی گیس پائپ لائن کو اڑا دیا گیا بتایا گیا کہ طالبان کے علاوہ دیگر گروپوں سے بھی بات چیت ہورہی ہے یا نہیں؟ کیونکہ اب تک دہشت گردی کی وارداتوں سے طالبان اظہار لاتعلقی ظاہر کرر ہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی آل پارٹیز کانفرنسز کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ تمام شدت پسندوں سے آئین کے دائرہ میں مذاکرات کئے جائیں اور ان سے بھی بات کی جائے جو آئین کو تسلیم کرتے ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ معلوم نہیں کس طرح طالبان کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کا رکن ببانگ دھل کہتا ہے کہ پاکستان کا آئین اسلامی نہیں ہے بتایا جائے کہ پھر کس طرح ان سے بات کی جائے گی ۔

انہوں نے کہا کہ سوات میں ہم نے بھی طالبان سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی رٹ کو تسلیم کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات کے حامی ہیں مگر ان سے کئے جائیں جو ملک کے آئین کو تسلیم کرتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ مذاکرات کی کمیٹیوں میں مخصوص سوچ والے افراد کو شامل کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کمیٹی اراکین کی باتوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ اراکین ملک میں طالبان کی سوچ کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ رسم شاہ مہمند ، مولانا سمیع الحق اور مولانا عبدالعزیز کے بیان ریکارڈ پر آچکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوگئے تو پھر کس میں جرات ہوگی کہ طالبان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں پہلے ہی اسلامی نظام نافذ ہے لوگ صرف علامتی مسلمان نہیں عملاً مسلمان ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف وزیراعظم کہتے ہیں کہ مذاکرات پر مثبت پیش رفت ہورہی ہے مگر دوسری جانب تحریک طالبان کہتے ہیں کہ آئین کو تسلیم کرتے تو پھر جنگ ہی نہ کرتے ۔

ایسے بیانات نے عوام میں ابہام پیدا کردیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کرنے والوں کو حکومت کیفر کردار تک پہنچائے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف طالبان سیاستدانوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جاتی ہے مگر دوسری جانب حکومت میں سیاستدانوں کی بجائے دیگر لوگوں کومذاکرات کے لئے چین لیا جاتا ہے ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر و وزیر مملکت مولانا عبدالغفورحیدری نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی و عسکری قیادت نے اتفاق کیا ہے کہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں امن کے لیے مذاکرات کو ترجیح دی جائے گی جس کے بعد پاکستان دشمن قوتیں متحرک ہوگئیں تاکہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرسکیں کیونکہ آل پارٹیز کانفرنس میں تمام قیادت ایک نہج پر تھی ۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے موقف کو درست نہیں سمجھتے ان کے موقف کی پاکستان کے تمام علماء بھی درست نہیں سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات ملک میں امن کیلئے قائم ہونا چاہیے ۔ اگر مذاکرات چھوڑ دیں تو پھر ہم اپنی ہی قیا دت پر عدم اعتماد کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ آئین بالکل صحیح ہے اور اسلامی ہے مگر افسوس آج تک ہم نے اس آئین پر عملدرآمد نہیں کیا چالیس سال گزار چکے ہیں مگر آئین پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ آج جن مشلات سے گزر رہے ہیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ طاقت کا استعمال کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اگر آپریشن ہوا اور طالبان ملک میں پھیل گئے تو مزید تباہی ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے علاوہ بھی ہمارے ملک کی صورتحال بہتر نہیں ہے ۔مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں اور چاہتے ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں۔

مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر نجمہ حمید نے کہا کہ جب ملک پر مارشل لاء لگ جائیں اور فوری اقتدار پر شب خون مارا جائے تو ملک میں امن وامان کی صورتحال خراب ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں جس طرح سکیورٹی فورسز نے قربانیاں دیں وہ لائق تحسین ہیں اور ان کی بہادری جرات کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ سینیٹر مختار احمد نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاک فوج اور عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں اس جنگ کے باوجود عوام امید کررہے ہیں کہ ملک کے حالات ٹھیک ہو جائینگے ۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے آئین کو چیلنج کرکے مذاکرات کررہے ہیں ۔ ان سے مذاکرات افسوسناک ہیں کسی کو اختیار نہیں ہے کہ وہ ہزاروں بے گناہ لوگوں کے قتل میں ملوث لوگوں کو معاف کردیں ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ آئین کو ماننے سے انکار کرنے والوں سے مذاکرات نہیں کرنے چاہیے ۔ مذاکرات کی کامیابی کیلئے آخری حد تک جانا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے حکمرانوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے تیسری قوت ملوث ہے مگر اس تیسری قوت کو کون بے نقاب کرے گا ۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ طالبان کی پانچ رکنی کمیٹی میں سے تین ممبر نکل گئے ہیں جبکہ شمالی وزیرستان ایک ممبر گیا ہے اس ایک ممبر کی ساکھ کیا ہے؟ حکومت کی جانب سے ہیلی کاپٹر دیئے جانے کے باوجود مولانا سمیع الحق شمالی وزیرستان کیوں نہیں گئے؟ ۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ دور میں جب ہم نے سوات میں معاہدہ کیا تو ہمیں کہا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان سے معاہدہ کیا جائے تو ہمارا جواب تھا کہ اس تنظیم پر پابندی تھی اس لئے ہم نے تحریک طالبان سوات سے معاہدہ کیا ۔

انہوں نے کہا کہ کیا ہمارے لوگ مرتے رہیں گے عمران خان بتائیں کہ آج خود کش حملہ کس نے کیا جو لوگ حملے کررہے ہیں حکومت ان کو پکڑیں ۔ مذاکرات سے متعلق پارلیمنٹ کو کچھ علم نہیں ہے ۔ وزیراعظم سینٹ میں نہیں آتے ملک کے اہم معاملات پر وزیراعظم ایوان میں آکر پالیسی بیان نہیں دیتے تو ہمیں بتایا جائے کہ پارلیمنٹ کا کیا اختیار ہے حکومت قوم کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں اب طالبان حکومت سے مطالبے کرینگے کہ حکومت اتنا نیچے نہ گریں ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرے ۔ مسلم لیگ نواز کے سینیٹر جعفر اقبال نے کہا ہے کہ ماضی کی بارہ سال تک حکومت کی پالیسیوں کے باعث آج یہ حالات ہیں گیارہ مئی کو جب ہمیں مینڈیٹ ملا تو اس وقت پورے ملک میں امن وامان کی صورتحال انتہائی خراب تھی انہوں نے کہا کہ پانچ جون کو وزیراعظم کو یہ تمام مسائل ورثے میں ملے ہیں مگر سات ماہ میں ملک کے حالات میں بہتری آئی ہے اور ہم نے قانون سازی بھی کی ہے انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ تمام معاملات ایک دم ختم ہوجائیں اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو حکومت کے پاس دوسرے آپشنز موجود ہیں ۔