پرویزمشرف کی جانب سے غداری مقدمہ کی خصوصی عدالت سے ملٹری کورٹ میں منتقلی کی درخواست پر سماعت آج تک ملتوی ، آرٹیکل چھ کی خصوصی عدالت میں کارروائی صرف سویلین تک محدود ہے، آرٹیکل 6کی کاروئی کے لئے صرف ایک قانون کا ہونا ضروری نہیں،قانون کا تقاضا ہے خصوصی عدالت مقدمہ فوجی عدالت کو بھجوا دے، وکیل صفائی خالد رانجھا،خصوصی عدالت نے سماعت سے قبل کمرہ عدالت میں پراسیکیوٹر اور وکلائے صفائی میں جھڑپ کا نوٹس لیتے ہوئے واقعہ کی فوٹیج طلب کر لی

منگل 11 فروری 2014 04:05

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11فروری۔2014ء) سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے غداری مقدمہ کی خصوصی عدالت سے ملٹری کورٹ میں منتقلی کی درخواست پرتین رکنی خصوصی عدالت نے آج منگل تک ملتوی کر دی ہے جبکہ وکیل صفائی خالد رانجھا ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ آرٹیکل چھ کی خصوصی عدالت میں کارروائی صرف سویلین تک محدود ہے اور آرٹیکل 6کی کاروئی کے لئے صرف ایک قانون کا ہونا ضروری نہیں، سزا کے لئے دوالگ الگ قوانین ہیں جن میں سے ایک کا اطلاق فوجی ملازم پر ہوتا ہے،قانون کا تقاضا ہے کہ خصوصی عدالت مقدمہ فوجی عدالت کو بھجوا دے اس کے لیے ملزم کے اعتراض کی بھی ضرورت نہیں ،خصوصی عدالت کو چاہیے تھا کہ جب معاملہ پیش ہوا تو وہ پاک فوج کے علم میں معاملہ لاتی اور پندرہ روز انتظار کرتی ۔

(جاری ہے)

ادھر خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے سماعت سے قبل کمرہ عدالت میں پراسیکیوٹر اور وکلائے صفائی کے درمیان ایک مرتبہ پھر ہونے والی جھڑپ کا نوٹس لیتے ہوئے واقعہ کی فوٹیج طلب کر لی ہے جو آج (پیرکو)عدالت کو دکھائی جائے گی۔پیر کے روز غداری مقدمہ کی سماعت جسٹس طاہر صفدر اور جسٹس یاور علی پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت نے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں کی۔

سماعت شروع ہوئی تو مقدمہ کے پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ رانا اعجاز نے حملہ کرنے کی کوشش کی پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ یہ مجھ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کررہا ہے ،جسٹس فیصل عرب نے سی سی ٹی وی فوٹیج طلب کرلی ان کا کہنا تھا کہ آج سماعت کے بعد فوٹیج دیکھی جائے گی،آپ سینئر وکلاء ہیں پہلی دفعہ ایسا ماحول دیکھ رہا ہوں تین ہائی کورٹس میں کام کیا مگر ایسا ماحول نہیں دیکھا،وکلاء غصے میں تو آتے ہیں مگر ایسا تو اسکول میں بھی نہیں ہوتا ،خالد رانجھا نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ آج آغاز اچھا نہیں ہوا ،قاضی کا موڈ ٹھیک نہ ہو تو کیس نہیں سننا چاہیے ،آپ کا موڈ وکلا نے آج خراب کردیا ،آئین شکنی کا جرم اگر کوئی فوجی کرے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے ،خالد رانجھاآرٹیکل چھ کی خصوصی عدالت میں کارروائی صرف سویلین تک محدود ہے ،خصوصی عدالت ایکٹ 1976صرف میپ اور ولی خان کے خلاف کارروائی کے لیے جاری ہوا،آرٹیکل چھ کے لیے صرف ایک قانون کا ہونا ضروری نہیں سزا کے لیے دو الگ الگ قوانین ہیں جن میں سے ایک کا اطلاق فوجی ملازم پر ہوتا ہے ،مقدمے کی فوجی عدالت میں منتقلی کی درخواست کا مطلب اعتراف جرم نہ سمجھاجائے ،جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ اعتراف تو ملزم اپنی زبان سے بھی کرتے تو عدالت احتیاط سے اس کا جائزہ لیتی ہے ،وکیل خالد رانجھا نے کہا کہ فوجی ریٹائر بھی ہو تو مقدمہ فوجی عدالت میں ہوتا ہے ،ضابطہ فوجداری کے تحت بھی فوجی ملازم کو ملڑی کورٹ کے حوالہ کیا جاتا ہے ،مشرف کے خلاف موجودہ عدالت کی کارروائی بغیر کسی قانون کے ہے،حال ہی میں این ایل سی کارروائی کے لیے فوج کے تین جنرل کو بحال کیا کیا ،جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا اس حوالہ سے کسی نوٹی فکیشن کی ضرورت ہوتی ہے ،وکیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی دفعہ سات اور آٹھ کے تحت ملزم عہدے پر خود بحال ہوتا ہے ،فوجی عدالت زیادہ سخت ہوتی ہے قانون کا تقاضہ نہ ہو تو کوئی پاگل ہی عام عدالت سے مقدمہ فوجی عدالت میں لے کر جائے گا،قانون کا تقاضا ہے کہ خصوصی عدالت مقدمہ فوجی عدالت کو بھجوا دے اس کے لیے ملزم کے اعتراض کی بھی ضرورت نہیں ،خصوصی عدالت کو چاہیے تھا کہ جب معاملہ پیش ہوا تو وہ پاک فوج کے علم میں معاملہ لاتی اور پندرہ روز انتظار کرتی ۔

مقدمہ کی سماعت آج منگل کو بھی جاری رہے گی۔

متعلقہ عنوان :