تحریک طالبان نے اپنے مطالبات سے مولانا یوسف شاہ اور پروفیسر ابراہیم کو آگاہ کر دیا،حکومت ایسی پیشگی شرائط عائد کرنے سے گریز کرے جن سے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو،شاہد اللہ شاہد، طالبان شوریٰ نے امن مذاکرات کے لیے ابھی کسی قسم کی شرائط کا اعلان نہیں کیا،طالبان ثالثی کمیٹی آج اسلام آباد پہنچے گی، حکومتی کمیٹی سے ملاقات کا قوی امکان، عرفان صدیقی کا مولانا سمیع الحق سے ٹیلیفونک رابطہ، کمیٹی کے دورئہ وزیرستان اور طالبان مذاکرات پر متعلق امور پر تبادلہ خیال، دونوں فریق مخلص ہیں، یقین ہے امن کی بحالی میں کامیاب ہو جائیں گے، پروفیسر ابراہیم،حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات قومی مسئلہ ہے جذبات سے کام نہ لیا جائے، مولانا سمیع الحق

منگل 11 فروری 2014 04:03

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11فروری۔2014ء)تحریک طالبان پاکستان نے اپنے مطالبات سے مولانا یوسف شاہ اور پروفیسر ابراہیم کو آگاہ کر دیا ہے اور کہا ہے کہ مذاکرات کیلئے بہتر ماحول فراہم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے،حکومت ایسی پیشگی شرائط عائد کرنے سے گریز کرے جن سے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔پیر کومیڈیا کو جاری ہونیوالے ایک بیان میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ حکومت اورتحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کے سلسلے میں طالبان کی رابطہ کار کمیٹی کے ارکان مولانا یوسف شاہ اور پروفیسر ابراہیم نے طالبان کی سیاسی شوری سے ملاقات کی ، دونوں رہنماؤں نے حکومت کے مطالبات نگران سیاسی شوری کو پیش کیے جن سے طالبان قیادت کوآگاہ کیا گیا اورمکمل غورو خوض کے بعد انکو مثبت جوابات دیئے گئے جبکہ طالبان کی طرف سے مذاکراتی عمل کے لئے بہتر ماحول کی فراہمی سے متعلق ابتدائی مطالبات بھی پیش کیے گئے ہیں جو وہ حکومتی کمیٹی کے سامنے پیش کریں گے۔

(جاری ہے)

ترجمان نے کہا کہ دوران ملاقات مذاکرات کے لئے بہتر ماحول فراہم کرنے پر اتفاق ہوا اور یہ کہ مذاکرات کے عمل کو تدریجاً آگے بڑھایا جائے گا ،جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا اور دوران مذاکرات پیش آنے والی تلخیوں پر دونوں فریق صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ترجمان نے کہا کہ مذاکراتی وفد پر واضح کر دیا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات کے پہلے مرحلے میں ایسی غیر ضروری شرط سے گریز کیا جانا چاہئے جس کے پورے نہ ہونے کی صورت میں مذاکراتی عمل کونقصان پہنچ سکتا ہو۔

ادھرطالبان ثالثی کمیٹی آج (منگل کو)اسلام آباد پہنچے گی، حکومتی کمیٹی سے ملاقات کا قوی امکان، مولانا سمیع الحق اپنے ناراض رکن مولانا عبدالعزیز کو منانے کیلئے لال مسجد بھی جائینگے، عرفان صدیقی کا مولانا سمیع الحق سے ٹیلیفونک رابطہ، کمیٹی کے دورئہ وزیرستان اور طالبان مذاکرات پر متعلق امور پر تبادلہ خیال، پروفیسر ابراہیم کہتے ہیں کہ طالبان کی جانب سے مثبت جواب ملاہے ، دونوں فریق مخلص ہیں، یقین ہے کہ امن کی بحالی میں کامیاب ہو جائیں گے ۔

باوثوق ذرائع نے ”خبر رساں ادارے“ کو بتایا کہ طالبان کی ثالثی کمیٹی کا طویل اجلاس رات گئے جاری رہا اور طالبان کی جانب سے کئے گئے مطالبات پر غور کیا جاتا رہا۔ ذرائع کے مطابق طویل مشاورت کے بعد طالبان ثالثی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کا حکومتی کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی سے ٹیلیفونک رابطہ بھی ہوا ۔ رابطے میں طالبان سے مذاکرات اور کمیٹی کا حالیہ دورئہ وزیرستان بھی زیر بحث آیا جس کے بعد حکومتی کمیٹی نے عرفان صدیقی کی سربراہی میں وزیراعظم میاں نوازشریف سے بھی ملاقات کی اور انہیں مذاکراتی کمیٹیوں کے پہلے اجلاس کے حوالے سے مفصل بریفنگ دی او ر انہیں دوسری جانب کے مطالبات سے آگاہ کیا ۔

ملاقات میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ، رستم شاہ مہمند اور میجر (ر) عامر بھی شریک تھے۔ ادھر طالبان ثالثی کمیٹی جوکہ طالبان شوریٰ سے مذاکرات کے بعد اکوڑہ خٹک پہنچ چکی ہے اور وہاں انکا مشاورتی اجلاس بھی مولانا سمیع الحق کی زیر صدارت ہوا ہے ۔ کمیٹی آج (منگل) اسلام آباد پہنچے گی اور سب سے پہلے اپنے ناراض رکن مولانا عبدالعزیز کو منانے کیلئے لال مسجد کا دورہ کرے گی۔

ذرائع کے مطابق طالبان کی اس ثالثی کمیٹی کی حکومت کی مذاکراتی کمیٹی سے ملاقات کا بھی امکان ہے اور آج دونوں کمیٹیوں کا دوسرا اجلاس ہوسکتا ہے جس میں ثالثی کمیٹی کے حالیہ دورہ وزیرستان کا جائزہ لیا جائیگا اور طالبان کی جانب سے پیش کئے گئے مطالبات پر غور کیا جائیگا ۔ ادھر دوسری جانب طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ حکومت اور طالبان کی جانب سے مثبت اشارے ملے ہیں ، امید ہے دس سالہ بدامنی کا جلد خاتمہ ہوگا اور قوم کو خوشخبری ملے گی ، آئین پر جید علماء کے دستخط ہیں اس پرکوئی اختلاف نہیں لیکن چند شقوں پر تحفظات اور عملدرآمد نہ ہونا ایک مسئلہ ہے ، طالبان کے مطالبات سامنے نہیں لا سکتے ، حکومتی کمیٹی کے ساتھ ان کو شیئر کیا جائے گا ۔

پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ انہیں شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ سے جنوب کی جانب لے جایا گیا اور ساڑھے چار گھنٹے کے سفر کے بعد وہ ایک مقام پر پہنچے جہاں پر ان کی طالبان شوریٰ سے ملاقاتیں ہوئی جن میں انہوں نے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے مطالبات پیش کئے ۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے حکومتی تجاویز کے مثبت جوابات دیئے ہیں اب مذاکراتی عمل حساس مرحلے میں داخل ہوگیا ہے اور امید ہے کہ مذاکراتی عمل مثبت نتیجے پر پہنچے گا اور ملک امن کا گہوارہ بنے گا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں امن چاہتے ہیں کچھ عناصر ایسے ہیں جو مذاکراتی عمل کوناکام بنانا چاہتے ہیں ہماری میڈیا سے گزارش ہے کہ مذاکراتی عمل کو کامیابی کی جانب پہنچائیں اور سنی سنائی باتوں پر کان نہ دھریں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے حکومتی تجاویز کا مثبت جواب دیا ہے اور بعض معاملات پر وضاحتیں بھی مانگیں ہیں طالبان نے جو مطالبات پیش کئے انہیں حکومتی کمیٹی کے حوالے کرینگے اور اس سے قبل ہم اپنے ایجنڈے کو ظاہر نہیں کرسکتے ہمیں امید ہے کہ طالبان اور حکومت کو اتفاقی نقطے پر پہنچانے میں کامیاب ہوں گے ان کا کہنا تھا کہ قوم خوشخبری کے لیے بے تاب ہے امید ہے دس سال سے جاری بدامنی کا جلد خاتمہ ہوگا اور قوم کو جلد کوئی اچھی خبر ملے گی ہماری کوشش ہے کہ کم سے کم وقت میں کوئی نتیجہ برآمد کرکے قوم کو خوشخبری دے سکیں ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی باتوں میں اخلاص نظر آتاہے اور کچھ مثبت اشارے ملے ہیں ہم ایسی راہ ہموار کررہے ہیں کہ حکومتی کمیٹی کی طالبان سے ملاقات کرواسکیں اور جب ملاقاتیں ہوں گی تو نکات کا سلسلہ بھی چلے گا اور پتہ بھی چلے جائے گا ۔ ایک اور سوال پر کہا کہ آئین پاکستان اسلامی آئین ہے اس پر مولانا مفتی محمود ، مولانا عبدالحق اور مولانا غبام غوث سمیت جید علماء کے دستخط ہیں اس پر کوئی اختلافات نہیں ہیں تاہم ہمارے بعض نکات پر تحفظات ہیں جیسا کہ صدر کے کے معافی دینے پر اعتراضات ہیں لیکن اصل مسئلہ آئین پر عملدرآمد نہ ہونے کا ہے اگر آئین کی اصل روح پر عمل ہوتا تو آج اس کا اسلامی ہونے کا سوال نہ اٹھتا ۔

انہوں نے کہا کہ قانون کو اسلامی بنانے کے لیے آئین میں طریقہ کار موجود ہے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور اس کونسل کی رپورٹ کسی بھی اسمبلی میں کبھی پیش ہی نہیں کی گئی جو ایک بڑا سوال ہے ۔طالبان کی جانب سے تشکیل کردہ کمیٹی نے کہا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات قومی معاملہ ہے اس معاملے پر جذبات سے کام نہ لیا جائے ۔

سالوں کے معاملات منٹوں میں حل نہیں ہو سکتے ۔حکومت کی جانب سے چار نکات طالبان کو پیش کر دیئے ہیں جن کا حوصلہ جواب موصول ہوا۔ آئین کے دائرے میں رہ کر مذاکرات پر اتفاق ہوا ۔پیر کو اکوڑہ خٹک میں شمالی وزیرستان میں طالبان شوری کے ساتھ ملاقات کرنے کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے رکن کمیٹی مولانا سمیع الحق نے کہا کہ طالبان کی تشکیل کردہ کمیٹی کے دو معزز ارکان جن میں مولانا محمد یوسف اور پروفیسر ابراہیم شامل تھے ۔

میرانشاہ سے سات گھنٹے کی مسافت پر نامعلوم مقام پر گئے جہاں انہوں نے دو روز گزارے ۔مولانامحمد یوسف کو کمیٹی کی رکنیت حاصل ہے ۔ان دونوں معزز ارکان نے طالبان کی سیاسی شوری سے ملاقات کی جو کہ بہت ہی خوشگوار ماحول میں ہوئی ۔طالبان نے بڑی مہمان نوازی کی ۔دو رکنی کمیٹی نے طالبان کی سیاسی شوری سے دو روز مذاکرات کئے اور حکومت کے چار مطالبات کو ان کے سامنے رکھا جس پر طالبان کی جانب سے حوصلہ افزا جواب موصول ہوا ۔

طالبان نے بھی کچھ مطالبات رکھے ۔کمیٹی اور طالبان دونوں نے آئین کے دائرے میں رہ کر مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔طالبان سے کمیٹی کی ملاقات پیر کی صبح تک جاری رہی ۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ طالبان کی جانب سے پیش کردہ نکات کو منظر عام نہیں کر سکتے۔ منگل یا بدھ کو حکومتی کمیٹی کے سامنے پیش کریں گے حکومت اور طالبان کمیٹی کے ساتھ تمام معاملات کو خفیہ رکھیں گے۔

میڈیا ناراض ہوگا لیکن مجبوری ہے ۔طالبان مذاکرات کا ہر نکتہ پیش کرنے سے مذاکرات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے سب کو شش کرنی چاہیے کہ مذاکرات کے درمیان کوئی بھی ایسی بات نہ کی جائے جس سے مذاکرات میں خلل آئے ۔مولانا سمیع الحق نے کہا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات قومی مسئلہ ہے اس معاملے پر جذبات سے کام نہ لیا جائے ۔سالوں کے معاملات چند منٹوں میں حل نہیں ہو سکتے ۔

پرامید ہے کہ معاملات مذاکرات اور آئین کے دائرے میں رہ کر کامیاب ہوں گے۔قوم بھی دعا کرے۔مذاکرات احسن طریقے سے حل ہو جا ئیں اور ملک میں قتل وغارت اور بدامنی کا سلسلہ ختم ہو اور امن قائم ہو۔طالبان کمیٹی کے کوآرڈینیٹر محمد یوسف شاہ نے بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے انتہائی مثبت رویہ اپنایا ہے ۔پر امید ہیں مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے ۔

مذاکرات کے دوران طالبان نے انتہائی پرامن ماحول پیدا کیا تھا۔طالبان نے جو مطالبات کئے ہیں وہ حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھیں ہیں وہ منظر عام پر نہیں لا سکتے اور نہ ہی امانت میں خیات کر سکتے ہیں۔ مذاکرات کے دوران فجر کی اذان تک چار سے پانچ ڈرون طیارے مسلسل پروازیں کرتے رہے۔طالبان شوریٰ نے امن مذاکرات کے لیے ابھی کسی قسم کی شرائط کا اعلان نہیں کیا ان سے منسوب کی جانے والی شرائط درست نہیں ،طالبا ن مذا کرات کے آغا ز میں ایسی شرائط نہیں رکھیں گے جن سے معاملات آگے نہ بڑھ سکیں اور تلخیاں پیدا ہوں ہے۔

یہ با ت طالبان کے ذرائع نے بر طا نو ی نشریا تی ادارے کو بتا ئی ،طالبان کے ذرائع نے بتایا کہ جنوبی وزیرستان میں ہونے والے مشاورتی عمل کے دوران باضابطہ طور پر طالبان نے ابھی اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کہا۔یاد رہے کہ اتوار کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی نمائندہ کمیٹی کے دو رکنی وفد اور طالبان رہنماوٴں کے درمیان جاری مشاورت کا عمل مکمل ہو گیا تھا۔

طالبان ذرائع نے مقامی ذرائع ابلاغ میں اتوار کو سامنے آنے والی پندرہ شرائط کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کا اصرار ہے کہ وہ ایسی شرائط ابتدا میں نہیں رکھیں گے جن سے معاملات آگے نہ بڑھ سکیں اور تلخیاں پیدا ہوں۔ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ طالبان جلد باضابطہ طور حکومت کے سامنے اپنی شرائط پیش کریں۔مشاورت کے عمل کی طوالت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ طالبان کچھ چیزوں کی وضاحت کرنا چاہ رہے تھے اور کچھ وضاحتیں انھیں درکار تھیں اور اس میں وقت لگا ہے۔

تاہم ذرائع نے دو روزہ مشاورتی عمل کو مثبت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ’کچھ نہ کچھ پیشرفت ہوئی ہے‘۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو ان کے ترجمان اور طالبان سے مشاورت کے لیے جانے والے یوسف شاہ نے بتایا کہ ’حالات اچھے ہیں اور بات آگے بڑھی ہے۔‘اتوار کو دوسرے روز کے مشاورتی اجلاس کے اختتام پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق سے فون پر بات بھی کی۔

سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ نے مذاکراتی ٹیم کی واپسی میں تاخیر کے بارے میں استفسار کیا جس پر مولانا سمیع الحق نے بتایا کہ شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون طیاروں کی پروازوں کے باعث مشاورت کا مقام بار بار تبدیل کرنا پڑا جس کے باعث تاخیر ہوئی ہے۔یاد رہے کہ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور جماعتِ اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم اور کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے ترجمان یوسف شاہ پر مشتمل مذاکراتی وفد طالبان سے بات چیت کے لیے سنیچر کو روانہ ہوا تھا۔ ادھر طا لبا ن کی مذاکراتی ٹیم شما لی وزیرستا ن سے ہیلی کا پٹر پر اسلا م آ با د یا پشا ور کے لئے روانہ ہو گئی ہے۔