خطیب لال مسجدو طالبان کے اعتراضات مسترد ، آئین کو اسکی روح کے مطابق نافذ کیا جائے تو خود بخود شریعت نافذ ہوجائیگی،جماعت اسلامی، ملک میں قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہیں ہوسکتی، مجلس وحدت مسلمین، آئین پر انگلی اٹھانے والے باغی ہیں، سنی تحریک ،کسی کو بندوق کے زور پر شریعت کے نفاذ کی اجازت نہیں دی جاسکتی ،جے یو آئی

پیر 10 فروری 2014 07:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔10فروری۔2014ء) آئین یا شریعت ، مذہبی سیاسی جماعتوں نے دستور پاکستان کو شرعی قرار دیتے ہوئے خطیب لال مسجدو طالبان کے اعتراضات کو مستردکرتے ہوئے اسے غیر سنجیدہ رویہ قرار دیدیا، جمعیت علمائے اسلام (ف) نے کہاہے کہ پاکستان کا دستور شرعی ہے ، بندوق کے زور پر شریعت نافذ نہیں کی جاسکتی، جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ آئین کو روح کے مطابق نافذ العمل بنایا جائے تو ملک میں خود بخود شریعت نافذ ہوجائیگی، مجلس وحدت مسلمین نے بھی آئین کو شرعی قرار دیتے ہوئے کہاکہ ملک میں قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہیں ہوسکتی،اسلامی نظریاتی کونسل بے اختیار ادارہ ہے، سنی تحریک نے آئین پر انگلی اٹھانے والوں کوباغی قراردیتے ہوئے بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے کا مطالبہ کردیا۔

(جاری ہے)

چند روز قبل سابق خطیب لال مسجد وطالبان مذاکراتی کمیٹی کے اہم رکن مولانا عبدالعزیز نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران آئین کی بجائے قرآن پاک کو ضامن قرار دینے کا مطالبہ کرکے سیاسی و مذہبی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے ۔ اس سلسلے میں جب ”خبررساں ادارے“ نے موقف جاننے کیلئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی ترجمان جان اچکزئی سے استفسار کیا توان کا کہنا تھا کہ مولانا عبدالعزیز اب صرف لال مسجد کے خطیب نہیں بلکہ وہ طالبان ثالثی کمیٹی کے اہم رہنما ہیں اس لئے انہیں ذاتی حیثیت سے اس طرح کے بیانات نہیں دینے چاہئیں اور مذاکراتی عمل میں رہ کر بات کرنا چاہیے۔

انہوں کے کہاکہ اس طرح کا مطالبہ غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتاہے کہ اس مطالبے کو تسلیم کیا جائے ورنہ مذاکرات سے علیحدگی اختیار کرتاہوں۔ انہوں نے کہاکہ آئین پاکستان پر جید علماء کے دستخط ہیں اور اسے مکمل شریعت کے مطابق بنایاگیا تھا اگر کسی کو اختلاف رائے ہے تو معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل میں اٹھایا جائے لیکن کسی کو بندوق کے زور پر شریعت کے نفاذ کی اجازت نہیں دی جاسکتی البتہ اگر وہ اس معاملے پر احتجاجاً جمہوری راستہ اختیار کریں اور سڑکوں پر آئیں تو ہم بھی ساتھ دے دینگے۔

جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کہتے ہیں کہ ملک کا آئین اسلامی ہے قرآن و سنت کے مخالف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ آئین پر روح کے مطابق عمل نہیں کیا جاتا جس سے نظریاتی تصادم پیدا ہوا ہے جو آئین پر عمل نہ کرے وہ بھی انحراف کرتاہے۔انہوں نے کہاکہ مذاکرات پھولو ں کی سیج نہیں کانٹوں کی مالا ہے جسے ہر کوئی اپنے گلے میں نہیں ڈالنا چاہتا۔

مذاکرات کیلئے ضروری ہے کہ سیز فائر کیا جائے۔ لیاقت بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ بم دھماکوں اور خود کش حملوں سے شریعت نافذ نہیں ہوگی۔مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے اس معاملے پر ”خبر رساں ادارے“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی کا مطالبہ خوبصورت بات ہے اگر کوئی شخص ایسا مطالبہ کرے تو اسے معلوم ہوکہ اس کا مطلب کیاہے ۔

ساڑھے چھ ہزار آیات میں سے ساڑھے پچاس سو آیات قانون سازی اور فقہی معاملات پر آئی ہیں اور اگر کسی اسلامی ریاست کو اسلامی قوانین پر چلانا ہے تو پھر انہی آیات کی روشنی میں قانون سازی کرنا ہوگی ۔ انہوں نے کہاکہ 73ء کے آئین کے تحت اقتدار اعلیٰ کی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے جبکہ قرآن و سنت آئین پاکستان سے بالادست ہوگا اور خلاف اسلام کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی ۔

انہوں نے کہاکہ تحریک طالبان یا ان کے نمائندوں کی جانب سے قرآن پاک یا سنت رسول کے دائر ے کے اندر مذاکرات کی بات فی الوقت سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ ایک طرف وہ بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں جبکہ اسلام کسی بھی شخص کو بے گناہ قتل کرنے پر پوری انسانیت کاقتل قرار دیتاہے ماضی کی طرح اب بھی شر پسند عناصر قرآن پاک کے نام پر اپنی مرضی عوام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں بتایا جائے کہ بچیو ں کو تعلیم سے روکنا، ڈرادھمکا کر اپنے نظریات پر مسلط کرنا کون سی شریعت ہے ۔

ایک اورسوال پر انہوں نے کہاکہ اسلامی نظریاتی کونسل بے اختیار ادارہ ہے جس کے پاس کوئی اختیار نہیں ۔سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کو اسلامی قوانین کے مطابق سزائیں دی جائیں ۔پچاس ہزار سے زائد شہداء کے قتل کا حساب لینا حکومت کا شرعی فریضہ ہے ۔ انہوں نے کہاکہ تحریک طالبان کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ غیر شرعی ہے ہزارو ں لوگوں کے اعلانیہ قاتلوں کو رہاکیاگیا تو دہشت گردی مزید بڑھے گی جو آئین پاکستان سے ہٹ کر مذاکرات کی بات کررہے ہیں وہ باغی ہیں ایسے لوگوں کیخلاف آرٹیکل 6کے تحت بغاوت کا مقدمہ درج کیا جائے۔

متعلقہ عنوان :