ہمارے کارکنوں اور مہاجروں کا ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے، آرمی چیف او ر ڈی آئی ایس آئی نوٹس لیں اور ہمیں انصاف فراہم کریں، الطاف حسین ،ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر فوج کو ایم کیو ایم کے خلاف استعمال کرنے کی سازش کی جارہی ہے،ظلم وبربریت کا سلسلہ بند نہ ہوا اور مہاجر قوم میرے ہاتھ سے نکل گئی اور کچھ باغی بن گئے تو پھر اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں، اس کھیل کی سازش کرنے والوں پر عائد ہوگی، میں جنگ کی بات کرنے والا آخری شخص ہوں گا، ماضی میں نواز شریف نے خصوصی عدالتیں بنائی تھیں، جس کا وہ خود شکار ہوئے۔ اب بھی ان سے کہتا ہوں کہ وہ ہوش کے ناخن لیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ کہیں وہ اس قانون کا خود شکار ہوجائیں، ٹیلی فونک پریس کانفرنس سے خطاب

پیر 10 فروری 2014 07:46

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔10فروری۔2014ء) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں اور مہاجروں کا ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الاسلام اس ظلم وبربریت کا نوٹس لیں اور ہمیں انصاف فراہم کریں۔ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر فوج کو ایم کیو ایم کے خلاف استعمال کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔

اس میں وفاقی حکومت ملوث ہے یا کوئی بھی ادارہ اس کی تحقیقات کرانا چیف آف آرمی اسٹاف کا فرض ہے۔ ایم کیو ایم اور مہاجر قوم برطانوی، امریکی یا بھارتی ایجنٹ نہیں وہ پاکستانی ایجنٹ ہیں اور اس ملک کی سلامتی اور بقاء کے لئے فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ میں نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے، اگر ظلم وبربریت کا سلسلہ بند نہ ہوا اور مہاجر قوم میرے ہاتھ سے نکل گئی اور کچھ باغی بن گئے تو پھر اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں، اس کھیل کی سازش کرنے والوں پر عائد ہوگی، میں جنگ کی بات کرنے والا آخری شخص ہوں گا۔

(جاری ہے)

تحفظ پاکستان آرڈی ننس آمریت اور جبر کا قانون ہے، ایم کیو ایم اس کی مخالفت کرتی ہے۔ ماضی میں نواز شریف نے خصوصی عدالتیں بنائی تھیں، جس کا وہ خود شکار ہوئے۔ اب بھی ان سے کہتا ہوں کہ وہ ہوش کے ناخن لیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ کہیں وہ اس قانون کا خود شکار ہوجائیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو لندن سے بذریعہ ٹیلی فونک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینرز ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، انجینئر ناصر جمال، ڈاکٹر نصرت، اراکین رابطہ کمیٹی، ارکان پارلیمنٹ اور دیگر بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ بظاہر آج کی یہ ہنگامی پریس کانفرنس اس لئے بلائی گئی ہے کہ آپ صحافیوں کے توسط سے ارباب اختیار و اقتدار ، ملک بھر کے عوام کو ، پولیس رینجرز و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ایم کیوایم کے کارکنوں کے باالخصوص اور مہاجر نوجوانوں اور عوام کے خلاف بالعموم جو بلاجواز گرفتاریوں ، حراست کے بعد ان پر تھرڈ ڈگری ، زمانہ جہالیت کے دور سے بھی بد تر تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں معذور اور زخمی بھی نہیں بلکہ شہید کیاجارہا ہے ۔

انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنانے والے ، ماورائے عدالت قتل کے مسلسل واقعات اور صوبہ سندھ میں مہاجروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے درد ناک ، المناک اور انتہائی متعصبانہ سلوک سے آگاہ کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج میری پریس کانفرنس کی جو مرکزی شخصیات سے میں خصوصی طور پر مخاطب ہوں وہ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف ، انٹر سروسز انٹیلی جنس آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام کو خصوصی طور پر مخاطب کررہا ہوں اور ان سے میں انصاف کی ، مداخلت کی ، ظلم وبربریت بند کرانے کی درخواست کرنا چاہتاہوں ۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ اس پر یہ کہیں گے کہ جمہوری حکومت ہوتے ہوئے وفاقی سطح پر اور صوبائی سطح پر آرمی کو مداخلت یا مدد کی درخواست کرنا ایک غیر جمہوری طرز عمل ہے مجھے اس الزام کی قطعی پرواہ اس لئے نہیں ہے کہ ایم کیوایم اور مہاجر عوام کے ساتھ جو قتل و غارتگری کا سلسلہ ریاستی ادارے خواں وہ پولیس ہوں، لا انفورسمنٹ ایجنسیز کے لوگ ہیں جس طرح گرفتاری کے بعد تشدد کرکے زخمی کررہے ہیں، تھرڈ ڈگری ٹارچر کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ کونسا جمہوری آئینی ، انسانی اخلاق طرز عمل کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ عمل ایک آمرانہ طرز عمل سے بد تر ہے ، جمہوری حکومت کے دور میں یہ کیاجارہا ہے ۔ ہر انسان کے برداشت کی ایک حد ہوتی ہے ۔ اسی طرح ہر طبقہ آبادی اگر اجتماعی طور پر ٹارگٹ اسٹیٹ کے ہاتھوں بنائی جائے ارباب اختیار و اقتدار کے ہاتھوں بنائی جائیں تو وہ طبقہ آبادی برداشت کرتا ہے ، صبر کرتا ہے بالآخر پھر سوچنے پر مجبور ہوتا ہے ، آواز احتجاج بلند کرتا ہے ، مطالبات کرتا ہے اور ملک کے کرتا دھرتا بااثر افراد سے مدد کی اپیل کرتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ آج میں ایک مرتبہ پھر جنرل راحیل شریف اور ظہیر الاسلام سے کہنا چاہتاہوں کہ ایم کیوایم اور مہاجر عوام جو ہجرت کرکے پاکستان آئے وہ غدار نہیں ہیں ، سچے ، کھرے محب وطن پاکستانی ہیں ، سازشوں کے ذریعے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے مہاجروں کے خلاف ہر دور میں منفی پروپیگنڈا کیا گیا اور ریاستی طاقت کا استعمال کرکے طاقت کے ذریعے ان کی آواز کو کچلاگیا ۔

میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے بزرگوں نے ، آباد اجداد نے تیس لاکھ جانوں کا نذرانہ پاکستان کیلئے پیش کیا ہم ان ہی کی اولادیں ہیں، ہم پاکستان کی کمزوری ، پاکستان کی تباہی ، بربادی کو دیکھنا تو کجا سوچ تک نہیں سکتے ۔انہوں نے کہا کہ میں جنرل راحیل شریف سے کہتا ہوں کہ فوج کا کمیشن بٹھایا جائے ، بریگیڈیئر امتیاز صاحب کو اس میں بلایاجائے اور جناح پور کے حقائق معلوم کئے جائیں کہ کس نے یہ سازش بنائی ، یہ فوج نے سازش بنائی تھی پنجاب سے صحافی بلا کر وہ نقشے پیش کئے گئے، کراچی کے صحافی نہیں بلائے گے ، جعلی ٹارچر سیل دکھا کر پوری دنیا میں ایم کیوایم کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ، میرے بھائی بھتیجے، پندرہ ہزار بزرگوں، نوجوانوں کو قتل کیا گیا لیکن میں نے ایم کیوایم نے پھر بھی کہاکہ صبر کرو یہ پوری فوج کا عمل نہیں ہے یہ چند افراد کی عصبیت ہے ، یہ پنجابیوں ، بلوچوں ، سندھیوں، فوج کا نہیں ایجنڈا ہے یہ چند افرادکا ہے جنہوں نے معصوم سپاہیوں تک کو ورغلا دیا ہے بہکا دیا ہے ۔

الطاف حسین نے کہا کہ اب دوبارہ یہ کس کے اشارے پر سندھ میں آپریشن شروع کیا گیا ہے ۔ میں چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ جب 19جون 1992کو فوجی آپریشن شروع کیا گیا تھا اس وقت نواز شریف کی حکومت وفاق میں بھی اور صوبے میں بھی تھی ۔ اور میں بار بار موجودہ وزیراعظم سے کہتا تھا کہ یہ 72بڑی مچھلیوں کی جو فہرست جن کے خلاف آپریشن ہوگا لیکن سکھر تک فوج اور ایجنسیز کے لوگ دفاتر میں جاکر ایم کیوایم کے عہدیداروں اورکارکنوں کے پتے اور نام درج کررہے ہیں۔

اس کا کیا مطلب ہے کہ یہ تو ایم کیوایم کے خلاف آپریشن کیاجائے ، چوہدری نثار موجودہ وزیر داخلہ نے یقین دلایا ، چوہدری نثار میں ایمان ہے تو ٹیلی ویژن پر آکر آج ہی بتائیں کہ قرآن شریف پہ ہاتھ رکھ کر کہ 72بڑی مچھلیوں کی فہرست چوہدری نثار نے قومی اسمبلی کے ایوان میں 2مرتبہ پیش کی کیا نہیں کی ۔ الطاف حسین نے کہا کہ لیکن نہ نواز شریف اس وقت بھی وزیراعظم تھے اس وقت فوجی آپریشن کو نہ رکواسکے اور نہ ہی وزیر داخلہ رکوا سکے بلکہ نواز شریف نے کہاکہ ہم نے ملک کی خاطر اپنے 14دوست کھو دیئے اپنا تو مک مکا کرلیا ہم نے اور کھڈے لائن لگا دیا دوستوں کو۔

انہوں نے کہا کہ جنرل راحیل شریف خدا رسول کے واسطے جب بھی موقع ملے سندھ سیکریٹریٹ کا دورہ کرلیں اگر آپ کو وہاں ایک مہاجر بھی نظر آجائے اور یہ جو پولیس کے ہاتھوں جو شہادتیں ہوئی ہیں اور پولیس جس طرح سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے ؟ اگر اس کی ایماء نہیں ہے تو یہ پولیس تو صوبائی حکومت کے انڈر میں ہے یہ اپنی مرضی سے کیسے تاک تاک کر ایم کیوایم کے کارکنوں اور مہاجر عوام کے گھروں پر جاکر معصوم لوگوں کو پکڑ رہی ہے ، رشوت نہیں ملتی تو انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیاجائے یا جھوٹے مقدمات بنا کر جیل بھئیج دیاجاتا ہے ۔

کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے نام پر کہ یہ دہشت گردوں کے خلاف ہے ۔ یہ ملک میں کیا ہورہاہے ؟ مہاجروں کا کیا قصور ہے ؟ ماضی میں جنرل آصف نواز نے جو بھیانک غلطی کی تھی اس کے بعد میں نے صبر سے کام لیا ، ساتھیوں کو صبر کی تلقین کی ، خدا خدا کرکے فوج اور مہاجروں میں جو غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا کردی گئیں تھیں اسے قریب لیکر آنے کی کوشش کرتا رہا اور پھر جتنی قربتیں ہوگئیں کہ ہم ڈائریکٹ جو شکایت ہوتی تکلیف ہوتی انہیں بتا دیتے ، لیکن اب دوبارہ فوج کو ایم کیوایم کے خلاف استعمال کرنے کی سازش آیا وفاقی حکومت کررہی ہے یا کونسا ادار ہ کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے پانچ سال تک آصف علی زرداری کا دفاع کیا۔ پیپلزپارٹی کے لوگ زرداری کا دفاع کرنے کیلئے ٹاک شو ز میں نہیں آتے تھے میں واحد آدمی تھا جس نے آصف زرداری کا ساتھ دیا ۔ آج بھی زرداری کی موجودگی میں ذو الفقار رمرزا کو لایا گیا اس نے مہاجروں کو بھنبھوڑا ، فقیر کہا، گالیاں بکوائیں گئیں ۔ وہ مغلظات بکتا رہا اس کے بعد انہوں نے اس کوہٹایا ۔

الطاف حسین نے کہا کہ میں یہ بھی عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں متعدد بار آصف زرداری کو فون کرچکا ہوں۔ بلاول ہاؤس ، رحمان ملک صاحب سے توسط سے بیان دے چکا ہوں لیکن کبھی زرداری صاحب نے مجھے کال بیک نہیں کی ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی والوں کو بتا دینا چاہتا ہوں یہ ظلم بند کردیاجائے ، آج چیخ چیخ کر بول رہے ہو کل جب بولنے کا وقت تھا زرداری صاحب کا کوئی ساتھ نہیں دے رہا تھا۔

اس وقت چوہوں کی طرح بلوں میں چھپے تھے اس وقت مرد کا بچا صرف الطاف حسین تھا جو کھل کر ساتھ دے رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کی خدمت کرنا چاہتا ہیں ، ہم پاکستان فلاح چاہتے ہیں، ہم کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں چاہتے لیکن خدارا اس طرح سے کسی ایک طبقہ آبادی کو کہ جس کو فرزند زمین آج تک سجھھا نہیں جاتا سن آف دی سوائل نہیں سمجھا جاتا ، قوم پرست کہتے ہیں کہ مہاجر کیا ہوتا ہے ، ہم نے کہاکہ ہم اردو بولنے والے سندھی ہیں لیکن چیف منسٹر بنانے کا وقت آتا ہے تو بولتے ہیں کہ نہیں آپ نہیں بن سکتے ہیں۔

اعلیٰ عہدوں کا وقت ہو تو اردو بولنے والا نہیں بن سکتا ۔ اس نفرت کو ہیومن رائٹس ، سول سوسائٹی اٹھائے ، پاکستان کو بچائے ، مجھے اللہ نے حیاتی دے رکھی ہے۔ میں تو پاکستان کی بقا سلامتی کی جدوجہد کرتا رہوں گا۔ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ کل میں چلا گیا اور ظلم و ستم کے خلاف مہاجروں میں بھی باغی پیدا ہوگئے توکیا یہ عمل ملک کیلئے بہتر ہوگا؟ الطاف حسین نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف ! ہم نے ، ڈاکٹر فاروق ستار ، رابطہ کمیٹی اراکین نے چوہدری نثار ، وفاقی وزیر داخلہ سے ملاقات کرکے کہا کہ ظلم ہورہا ہے آپریشن کی آڑ میں ایم کیوایم کے خلاف ۔

آپ مانیٹرنگ ٹیم بنا دیں ، چیف منسٹر قائم علی شاہ نے کہاکہ کوئی ضرورت نہیں مانیٹرنگ ٹیم نہیں بنے گی ۔ پیپلزپارٹی نے یہ کہا ۔ چوہدری نثار نے نہیں بنائی ، چوہدری نثار ، نواز شریف پہلے بھی آپ کے دور میں یہ قتل عام شروع ہوتا تھا آپ کے آج پھر دور میں یہ قتل عام دوبارہ شروع ہوا ہے آپ پانچوں وقت کی نماز پڑھتے ہیں آپ کو خوف نہیں کہ اللہ کے ہاں جانا ہے ۔

چوہدری نثار صاحب وزیر داخلہ آپ نے ابھی تک مانیٹرنگ کمیٹی کیوں نہیں بنا ئی ، ؟ اگر بنا دیتے تو ایم کیوایم کے اتنے ساتھی شہید حراست کے دوران نہیں ہوتے ۔ الطاف حسین نے کہا کہ میں آصف زرداری سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ ہم نسلوں تک کا اتحاد کریں گے کیا اس طرح نسلوں تک کا اتحاد ہوتا ہے۔ خدارا اپنی پالیسی کو نئی طریقے سے بنائیں ۔

پیپلزپارٹی والوں سندھ میں بھائی چار ہ پیدا کرو ، نفرتیں نہیں ، اس وقت پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔ امن اتحاد بھائی چارے کی ضرورت ہے ۔ میری بات کسی کو بری لگی ہو خلوص دل سے معافی مانگتا ہوں۔ کسی کی تذلیل کرنا میرا مقصد نہیں تھا ۔ مجھے امید ہے کہ چیف آرمی اسٹاف ، کوئی مجھے کہے غیر جمہوری بات کررہے ہیں میں امریکہ برطانیہ بھارت کے چیف آرمی اسٹاف سے درخواست نہیں کررہا ہے بلکہ پاکستان کے چیف آرمی سے بحیثیت شہری درخواست کررہا ہوں ۔

آیئے ہم سب عہد کریں کہ بگاڑ اور خرابیوں کو ختم کریں۔ ان سے سوال کیا گیا کہ سندھ کی دوسری جماعت ایم کیوایم کے آپ قائد ہیں ، آپ نے امن کی بات کی ردعمل میں کارکنوں کی لاشیں ملیں ہیں کب تک لاشیں ملیں گی ۔ الطاف حسین نے کہاکہ ابھی زندہ ہوں کل کچھ ہوگیا مجھے خدا نانخواسطہ ، اتنی بڑی یونائیٹڈ فورسز کئی قوم میں تقسیم ہوجائے گی ، گروپس بنیں گے ، جنگ ہوگی ، میں چاہتاہوں کہ وہ وقت ہی نہ آئے ۔

میری امن کی اپیلوں کے جواب میں وہ ماورائے عدالت قتل کررہے ہیں ،ظلم کررہیے ہٰن انہیں سوچنا چاہئے ، آئی جی ، ڈی آئی جی ہوں وہ تحقیقات کے نتیجے میں ضرور مل جائے کہ کس نے اس سے نیچے والوں کو حکم دیا ، فہد عزیز کو گرفتار کیا اور سلمان کو گرفتار کرکے شہید کیا ۔ یہ جو بڑے بڑے اسٹار لگائے ہوئے پولیس والے ہیں ان کا بھی احتساب ہو ، اور اگر جیسا کہ ابھی آپ نے کہا کہ میری بات سننا لوگوں نے چھوڑ دی تو میں اپنے منہ سے نہیں کہنا چاہتا پھر جو لوگ چاہیں گے وہ کریں گے اس کی ذمہ داری مجھ پر عائد نہیں ہوگی ۔

ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے آرمی چیف سے درخواست کی انہوں نے بھی مدد نہیں کی تو کس کو پکاریں گے تو انہوں نے کہا کہ ہمیشہ کی طرح ، صبر کریں گے ، ایک نہ ایک تو پاکستان میں کوئی ایمان والا پیدا ہوگا لیکن مجھے موجودہ آرمی چیف پر ایک دل کہتا ہے میرا کہ یہ ضرور ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کریں گے اور مہاجروں اورفوج میں جو بدگمانیاں پیدا کی جارہی ہے اس کا خاتمہ کریں گے ۔

ان سے سوال کیا گیا کہ پولیس کی اعلیٰ قیادت کوتبدیل کردیاجائے یہ مطالبہ تھا ، اگر ان کی تبدیلی نہیں ہوتی تو کیا آپریشن جاری رہے گا ؟ انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر سندھ ، یہ پیپلزپارٹی کا اندرونی معاملہ ہے ، میں ان کے لیڈر سے بار بار اپیل کرتا رہا ہوں کہ آپ بحیثیت لیڈر بی بی شہید کی امانت پیپلزپارٹی کو صحیح خطوط پر چلائیں اور اچھے لوگوں کو لیکر آئیں ۔

تحفظ پاکستان آرڈی ننس سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس بل کا نام آمریت ، جبر ، کے نفاذ کا بل ہونا چاہئے ۔ میاں نواز شریف صاحب نے خصوصی عدالتیں جو بنائی تھی انہوں نے ہی انہیں 27سال کی سزا دی تھی اب انہوں نے لاء بنا دیا تو مکانات عمل کے تحت یہ کود اسی میں پھنسیں گے ۔ آپریشن سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ کوئی تیسری قوت ہے تب بھی پیپلزپارٹی کے اندر اتنی جرات ہونی چاہئے کہ وہ مردوں کی طرح قوم اور مظلوم عوام کی نمائندگی کرتے ہیں بے جگری کے ساتھ سچ بولیں کہ یہ پولیس چیف ، نائب چیف فلاں چیف ہماری نہیں سن رہے ہیں، رینجرز والے ہماری نہیں سن رہے ہیں۔

یہ پیپلزپارٹی والے کہتے کیوں نہیں ہیں ؟ کہنا چاہئے نہیں کہیں گے تو کل یہ دوسروں کیلئے چوہے دان لگا لگا کر چوہوں کو پکڑا جاتا ہے کبھی کبھی اس میں انگلی بھی آجاتی ہے پھنس جاتی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو جو جماعتیں ظلم وبربریت کا نشانہ بن رہی ہیں ان کو یکجا ہونا چاہئے اور میدان عمل میں اتحاد کے ساتھ آجانا چاہئے ۔آپریشن سے متعلق شکایتوں کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں سے شکایت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ شاہد حیات نے کہا ہے کہ فہدعزیز کئی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھا ، پولیس کو مطلوب تھا ،شاہد حیات جھوٹ بول رہا ہے ۔ اب چیف منسٹر سے کہتا ہوں کہ شاہد حیات کا معائنہ کرایاجائے جس صوبے کا چیف یہ ہوگا تو اس کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔ رینجرز کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ رینجرز بظاہر وزارت داخلہ کے تحت ہوتی ہے لیکن رینجرز کے جو آفسسز ہوتے ہیں وہ پاکستان فوج کے ریگولر افسران ہوتے ہیں جیسے ڈی جی رینجرز جنرل رضوان اختر ہیں تو اب ان سے وزیراعلیٰ تو یقینا پوچھ نہیں سکتے۔

ہاں چیف آف آرمی اسٹاف ، کور کمانڈر ضرور پوچھ سکتے ہیں کہ جنرل رضوان اختر ذرا بتاؤ تو یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے اور جے آئی ٹی کے اندر شاہد حیات کو گرفتار کرکے پوچھا جائے کہ تو جو یہ بکواس کررہا ہے یہ سلمان کی شہادت کا حساب کون دے گا ، کل جو ٹارچر ہوگا اس کا حساب کون دیگا ۔ یہ ہمارے زخموں پر نمک چھڑک رہاہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور ان کے طرز حکومت خود تقسیم کے خواہ کسی بھی بنیاد پر ہو لیکن ہم نے کبھی تقسیم کی بات نہیں کی لیکن اگر تقسیم پورے ملک میں صوبوں کی ہو تو وہ انتظامی یونٹس کے طور پر ہونے چاہئے لسانیت ، قوم پرستی کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہئے ۔

ان سے ایک سوال کیا گیا کہ کیا اس آپریشن کی آڑ میں کوئی نئی جماعت یا ایم کیو ایم کے خلاف کوئی سازش تو نہیں ہورہی۔ ہوسکتا ہے ۔ میں نے جہاں جہاں آواز پہنچانی تھی پہنچا دی ہے اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے ایسا نہ ہونے دیں ، ہماری انٹیلی ایجنسیز اور فوج کو پراکسیز اور پراکسیز کاکھیل بند کردینا چاہے اسی میں ملک کی بھلائی ہے ۔