طالبان شوری کی مذاکراتی کمیٹی کے رہنماؤں سے ملاقات،طالبان نے مذاکرات کو ناکام بنانے کی کسی بھی کوشش کا حصہ بننے سے انکار کردیا،شوری اجلاس میں حکومتی شرائط کوطالبان نے قبول کر لیا،ہمارے تمام قیدی رہا،فوجیوں کی واپسی ،متاثرہ خاندانوں معاوضہ دیا جائے، طالبان کی ابتدائی شرائط،حکومت طالبان کمیٹیوں کی اگلے چند روز میں اہم ملاقات متوقع، ثالثی کمیٹی نے حکومت کے مطالبات طالبان تک پہنچادیئے،حکومت کا افغان طالبان اور حقانی گروپ سے بھی رابطے کا فیصلہ،طالبان قیادت کا اپنی نامزد کمیٹی کو مکمل مذاکراتی اختیارات تفویض کرنے پر اتفاق،اعلان آئندہ 24سے 48گھنٹوں میں متوقع ،حکومتی کمیٹی سے دوسری ملاقات سے قبل طالبان سیز فائر کا اعلان کرسکتے ہیں، ذرائع

پیر 10 فروری 2014 07:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔10فروری۔2014ء)طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رہنماؤں کی وزیرستا ن میں طالبان رہنماؤں کے ساتھ ملاقات اتوار کو دوسرے روز بھی جاری رہی اور ان کے ساتھ اسلام آباد میں ہونے والی بات چیت اور حکومتی مصروفیات سامنے رکھ دی گئیں۔ طالبان نے شریعت کے نام پر مذاکرات کو ناکام بنانے کی کسی بھی کوشش کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔

طالبان کا قیدیوں کی رہائی ،فوجی آپریشن سے ہونے والے نقصان کا معاوضہ اور فوج کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔میڈیا اطلاعات کے مطابق طالبان کمیٹی کے رہنماؤں مولانا محمد یوسف ،پروفیسر محمد ابراہیم سمیت دیگر ارکان کو اسلام آباد سے بذریعہ ہیلی کاپٹر شمالی وزیرستان بتایا گیا جہاں انہوں نے طالبان کی شوری سے ملاقات کی اور حکومتی مصروفیات سامنے رکھیں۔

(جاری ہے)

طالبان کی سیاسی شوری سے ملاقات کے بعد بہت سے خدشات دور ہوگئے ہیں ۔حکومت کی جانب سے رکھی جانے والی اکثر شرائط کو طالبان نے تسلیم کر لیا ہے جبکہ طالبان کی جانب سے رکھی گئی شرائط پر گفتگو کی جارہی ہے۔ طالبان کمیٹی کے رکن بورڈ محمد یوسف کی یہی کوشش ہے کہ طالبان کی طرف سے ایسی شرائط اور مطالبات واپس اسلام آباد لیکر آئے جنہیں قبول کرنا حکومت کے لئے مشکل نہ ہو۔

اطلاع کے مطابق طالبان کے سینئر رہنماؤں نے لال مسجد کے مولانا عبد العزیز سے بات کی ہے۔طالبان نے مولانا محمد یوسف شاہ اور پروفیسر ابراہیم پر واضح کردیا ہے کہ نفاذ شریعت ان ا حقیقی مقصد ہے لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے سازگار ماحول کی ضرورت ہے اور ساز گار ماحول اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک پاکستان میں امن قائم نہیں ہوگا اور وہ کسی بھی صورت میں شریعت کی بنیاد پر مذاکرات کے عمل کو ناکام نہیں ہونے دیں گے جبکہ مولانا عبد العزیز کو بھی یہ سمجھایا ہے کہ جو مقصد اس کا وہی مقصد ہمارا بھی ہے لیکن اسکے لئے ماحول ساز گار بنانا ہوگا ۔

طالبان اس بات پر بھی آمادہ نہیں کہ آئین میں رہ کر مذاکرات ہوں گے تاہم انہوں نے آئین کی بعض دفعات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن وہ اس پر بعد میں بات کریں گے۔ حکومت اور طالبان جنگ بندی پر راضی ہوگئے ہیں ۔طالبان کی جانب سے دی گئی شرائط پر شریعت کے نفاذ کا مطالبہ نہیں کیا البتہ یہ کہا ہے کہ ہمارے قیدی رہا کئے جائیں جس پر مولانا محمد یوسف اور پروفیسر ابراہیم نے فوری طور پر کہا کہ اس شراط سے کافی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔

طالبان کا کہنا تھا کہ صرف ہمارے قیدی حکومت کے پاس ہیں ۔ایف سی اور سکیورٹی فورسز کے لوگ ہمارے پاس بھی موجود ہیں اگر حکومت ہمارے قیدیوں کو رہا کرے گی تو ہم حکومت کے قیدی بھی رہا کریں گے۔ طالبان کے جواب پر کمیٹی کا کہنا تھا کہ اس مطالبے پر جولوگ مذاکرات کے مخالف ہیں وہ یہ سوال ٹاھائیں گے کہ جن لوگوں پر سنگین الزامات ہیں حکومت ایسے قیدیوں کو رہا کیوں کرے جس کی آئین و قانون اجازت نہیں دیتا۔

طالبان کا کہنا تھا کہ ہمارے اکثر قیدیوں کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا اگر پیش کیا گیا ہے تو ان پر کوئی مقدمہ ثابت نہیں ہوا ۔حکومت آئین کے اندر رہ کر ہم سے بات کر سکتی ہے ۔قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی پر کمیٹی کا کہنا تھا کہ یہ بہت مشکل ہے۔طالبان کا یہ بھی مطالبہ سامنے آیا کہ شمالی وزیرستان میں ہونے والے آپریشن سے متاثرہ لوگوں کو معاوضہ دیا جائے جس پر کمیٹی کا کہنا تھا کہ نقصان کا تخمینہ لگانا اور مالی معاونت کرنا طویل طریقہ کار ہے لیکن طالبان اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔

ڈرون کا معاملہ تاحال طالبان نے نہیں اٹھایا ۔طالبان نے حکومت کو ڈرون حملے بند،عدالتوں اور تعلیمی اداروں میں شرعی نظام کے نفاذ،ملکی و غیرملکی قیدیوں کی رہائی،قبائلی علاقوں کا کنٹرول مقامی فورسز کے حوالے کرنے،فوج واپس بلانے،چیک پوسٹیں ختم ،طالبان کمانڈروں کو عام معافی دینے اور امریکہ سے تعاون ختم کرنے کے پندرہ مطالبات حکومت کو پیش کر دیئے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان سے مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لئے حکومت کو دیئے جانے والے مطالبات میں پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ڈرون حملے فوری طور پر بند کئے جائیں،دوسرا مطالبہ عدالتوں اور تعلیمی اداروں میں شرعی نظام کو نافذ کیا جائے، تیسرا مطالبہ ملکی اور غیر ملکی طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے،چوتھا مطالبہ ، ڈرون حملے میں تباہ شدہ مکان کی تعمیر اور نقصان کا ازالہ کیا جائے، پانچواں مطالبہ قبائلی علاقوں کا کنٹرول مقامی فورسز کے حوالے کیا جائے،چھٹا مطالبہ قبائلی علاقوں کا کنٹرول مقامی فورسز کے حوالے کیا جائے،ساتواں مطالبہ ،قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلا کر چیک پوسٹیں ختم کی جائیں،آٹھواں مطالبہ دونوں جانب سے قیدی رہا کیے جائیں،نواں مطالبہ تحریک طالبان کے خلاف تمام مقدمات ختم کئے جائیں، 10واں مطالبہ امیر اور غریب کو یکساں حقوق فراہم کئے جائیں ۔

11واں مطالبہ ڈرون حملوں میں جاں بحق لواحقین کو نوکریاں دی جائیں۔12واں مطالبہ،حکومت طالبان کمانڈروں کی عام معافی کا اعلان کرے،13واں مطالبہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ تعاون ختم کرنے کا اعلان کیا جائے، 14واں مطالبہ جمہوری نظام کو ختم کر کے شرعی نظام کا نفاذ کیا جائے جبکہ آخری اور پندرواں مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ پورے ملک سے سودی نظام کو ختم کیا جائے ۔

حکومت طالبان مذاکرات، دونوں کمیٹیوں کی اگلے چند روز میں اہم ملاقات متوقع، ثالثی کمیٹی نے حکومت کے مطالبات طالبان تک پہنچادیئے، پروفیسر ابراہیم کا مولانا سمیع الحق سے رابطہ، اب تک ہونیوالی پیش رفت سے آگاہ کیا، مولانا سمیع الحق کا وزیرستان جانے کا امکان، سربراہ جمعیت علمائے اسلام (س)نے کہاہے کہ مذاکرات کی کامیابی کیلئے پرامید ہیں، قوم دعا کرے، مولانایوسف شاہ نے کہاہے کہ طالبان کو آئین کے دائرہ کار کے تحت مذاکرات پر آماد ہ کرنے کی بھرپور کوشش کرینگے، امید ہے کمیٹی طالبان کو قائل کرنے میں کامیاب ہوجائیگی۔

ذرائع کے مطابق طالبان ثالثی کمیٹی جوکہ میرانشاہ میں طالبان شوریٰ کے ارکان سے ابتدائی بات چیت کررہی ہے اس نے حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والے مطالبات طالبان تک پہنچادیئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران رکن کمیٹی پروفیسر ابراہیم نے طالبان کو بتایاہے کہ حکومتی کمیٹی کے ارکان براہ راست طالبان قیادت سے ملاقات کے متمنی ہیں جبکہ چاہتے ہیں مذاکرات کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے ۔

ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں مثبت پیش رفت ہورہی ہے جس سے پروفیسر ابراہیم نے مولانا سمیع الحق کو ٹیلیفونک رابطہ کرکے آگاہ کیاہے ذرائع کے مطابق پروفیسر ابراہیم نے مطالبہ کیاہے کہ مولانا سمیع الحق خود بھی آکر طالبان قیادت کے تحفظات سنیں جس پر مولانا سمیع الحق کا آج وزیرستان جانے کا قوی امکان ہے۔ ادھر مولانا سمیع الحق نے اپنے ایک پیغام میں کہاہے کہ مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہورہی ہے اور مذاکرات کی کامیابی کیلئے پرامید ہیں قوم بھی کامیابی کیلئے دعا کرے تاکہ ملک کو خاک وخون سے نکالا جاسکے۔

ادھر جیسے کی ثالثی کمیٹی طالبان شوریٰ سے مذاکرات کے بعد واپس آئے گی تو فوراً حکومتی کمیٹی سے ملاقات کرے گی ذرائع کے مطابق پہلے ملاقات آج (پیر) کو متوقع تھی مگر اب یہ ملاقات اگلے دو روز میں متوقع ہوسکتی ہے ۔ذرائع کے مطابق حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو طا لبان کی شرائط و مطالبا ت سے آگاہ کیا جائے گا ۔ ذرائع نے بتایا کہ طالبان نے قیدیوں کی رہائی، شورش زدہ علاقوں سے فوجوں کی واپسی اور آئین کی بجائے شریعت کے دائرہ کار کے تحت مذاکرات کے مطالبات کئے ہیں اور کہاہے کہ اگر حکومت ان شرائط کو تسلیم کرتی ہے تو پھر مذاکراتی عمل آگے بڑھ سکتاہے ۔

اس سلسلے میں موقف جاننے کیلئے جب ”خبر رساں ادارے“ نے طالبان ثالثی کمیٹی کے ترجمان مولانا یوسف شاہ سے مسلسل رابطے کی کوشش کرتے رہے مگر رابطہ نہ ہوسکا۔واضح رہے کہ مولانا یوسف شاہ کا بیان آچکاہے کہ طالبان کو مذاکرات کیلئے آئین کے دائرہ کے کار کے تحت ماننے کی کوشش کرینگے امید ہے کہ ثالثی کمیٹی انہیں قائل کرلے گی۔ادھرحکومت اس بات پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کیساتھ مذاکرات نتیجہ خیز اور کامیاب بنانے کے لیے افغان طالبان کا تعاون حاصل کیا جائے، اس کے ساتھ ہی مذاکراتی عمل کے سلسلے میں حقانی نیٹ ورک سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

باخبر ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان اس وقت منتظر ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے ابتدائی ردعمل کیا سامنے آتا ہے، طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تشکیل کردہ حکومتی کمیٹی کے ذریعے چند اہم نکات تحریک طالبان کی قیادت کے سامنے رکھے جا رہے ہیں جیسا کہ ان مذاکرات کاآئین پاکستان کے دائرے میں ہونا اوربات چیت اور مذاکراتی عمل کا اطلاق شورش زدہ علاقوں پرہونا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے حکومت دیکھے گی کہ طالبان کی قیادت ان اہم نکات پرکس طرح کا ردعمل ظاہر کرتی ہے، اگر یہ ردعمل مثبت ہوتا ہے تو اس بات کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ ملا عمر کی قیادت میں افغان طالبان سے رجوع کیا جائے تاکہ وہ پاکستانی طالبان پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کر سکیں اور ان کو اپنے موقف میں نرمی اور امن کے قیام کے حوالے سے سنجیدہ طرز عمل اختیار کرنے کے لیے کہا جائے۔

طالبان کے حلقوں میں حقانی نیٹ ورک جس کی قیادت اس وقت سراج حقانی کے ہاتھ میں ہے،کو بھی خاصا اثرو رسوخ حاصل ہے اور افغان طالبان کیساتھ ساتھ اس نیٹ ورک کو بھی تحریک طالبان پاکستان کیساتھ کامیاب مذاکرات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حقانی نیٹ ورک امریکا کے نزدیک افغانستان کی سب سے خطرناک عسکری تنظیم ہے جبکہ حقانی نیٹ ورک کی قیادت خود کو افغان طالبان کا حصہ سمجھتی ہے تاہم اس کی اپنی ایک جداگانہ حیثیت بھی ہے۔

ذرائع کے مطابق ماضی میں بھی پاکستانی قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کیساتھ ہونیوالے کچھ امن معاہدوں میں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک اپنا کردار ادا کرچکے ہیں، ایک ایسا ہی معاہدہ شمالی وزیرستان کے اہم طالبان رہنما حافظ گل بہادر اورشمالی وزیرستان کی انتظامیہ کے درمیان ہوا۔ ادھر ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کمیٹی اور تحریک طالبان کی سیاسی شوریٰ نے بات چیت کا ابتدائی مرحلہ کامیابی سے طے کرلیاہے۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ طالبان قیادت نے اپنی نامزد کمیٹی کو مکمل مذاکراتی اختیارات تفویض کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کا اعلان آئندہ 24سے 48گھنٹوں میں متوقع ہے ۔ اطلاعات کے مطابق طالبان کمیٹی اور طالبان شوریٰ میں اس بات پر اتفاق ہوگیا ہے کہ حکومتی کمیٹی سے دوسری ملاقات سے قبل ہی طالبان قیادت سیز فائر کا اعلان کرسکتی ہے۔ طالبان قیادت نے طالبان کمیٹی کو آگاہ کردیا ہے کہ طالبان سیز فائر کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ حکومت بھی سیز فائر کا اعلان کرے ،طالبان قیادت نے طالبان کمیٹی کو مختلف مطالبات پیش کیے ہیں ،جن میں مذاکرات قرآن و سنت کے مطابق کیے جائیں ،طالبان اکثریتی علاقوں سے فوجی دستوں کی واپسی اور کئی طالبان رہنماوں کی رہائی شامل ہے۔

اطلاعات کے مطابق طالبان کمیٹی نے حکومتی پیغام سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پاکستان مذاکرات میں مخلص ہے طالبان حملے نہ کریں اور مذاکراتی عمل میں ایسا راستہ اختیار کیا جائے ،جو حکومت کے دائرہ کار سے باہر نہ ہو اور مذاکراتی کمیٹی کو مکمل بااختیار بنایا جائے ،اطلاعات ہیں کہ حکومتی پیغام اور آئین کے دائرہ کار میں مذاکرات کی شرائط سمیت دیگر امور پر طالبان قیادت غور کررہی ہے تاہم اس کی حتمی منظوری آئندہ 24سے 48 گھنٹوں میں طالبان کی جانب سے مطالبات کی صورت میں سامنے آنے کی توقع ہے ۔

اطلاعات ہیں کہ مولانا سمیع الحق بھی جلد شمالی وزیرستان روانہ ہوں گے ،آئندہ 48گھنٹوں میں طالبان کمیٹی طالبان کی جانب سے پیش کردہ مطالبات لے کر واپس آئے گی ،جہاں یہ مطالبات حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھے جائیں گے اور حکومتی کمیٹی اس مذاکرات کی پیش رفت سے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو آگاہ کرے گی ،جس کے بعد آئندہ مذاکرات کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا۔

ادھر طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم اور کوآرڈی نیٹر یوسف شاہ نے شمالی وزیرستان میں طالبان کی سیاسی شوریٰ کے ارکان سے ملاقات کی اور انہیں حکومتی کمیٹی کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے آگاہ کیا۔ پروفیسر ابراہیم اور یوسف شاہ خیبر پختون خوا حکومت کے فراہم کردہ دو ہیلی کاپٹرز پر شمالی وزیرستان پہنچے۔ ان کی رہنمائی کے لیے پولیٹیکل انتظامیہ کا ایک اہل کار بھی ساتھ تھا۔

کمیٹی کے ارکان شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ پہنچ کر نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوئے جہاں طالبان کی سیاسی شوریٰ کے اراکین سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں حکومتی کمیٹی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات پر بات چیت کی گئی۔ طالبان کمیٹی کے رکن طالبان شوریٰ کا جواب لے کر واپس آئیں گے۔

متعلقہ عنوان :