سی این جی لائسنس کیس، اٹارنی جنرل آف پاکستان سے جواب طلب ،بتایا جائے کہ اوگرا پر حکومتی پالیسی لاگو ہوتی ہے یا نہیں ،عوام کا پیسہ ہے کسی کو آسانی سے ہضم نہیں کرنے دیں گے،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس

ہفتہ 8 فروری 2014 08:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8فروری۔2014ء) سپریم کورٹ نے 650 سی این جی لائسنس کیس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان سے جواب طلب کیا ہے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ اوگرا پر حکومتی پالیسی لاگو ہوتی ہے یا نہیں جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عوام کا پیسہ ہے کسی کو آسانی سے ہضم نہیں کرنے دیں گے بدعنوانی کی جڑیں گہری ہوگئی ہیں ان کو ختم کئے بغیر ملک میں ترقی ممکن نہیں‘ بدعنوان عناصر کیخلاف کارروائی ریاست کے اہم فرائض میں سے ایک ہے‘ سی این جی لائسنس کو جس طرح سے بانٹا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔

انہوں نے یہ ریمارکس گذشتہ روز دئیے۔ کیس کی مزید سماعت 27 فروری کو ہوگی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے غیرقانونی طور پر دئیے گئے 650 سی این جی لائسنسوں کے مقدمے کی جمعہ کو سماعت کی۔

(جاری ہے)

اس دوران اوگرا نے سی این جی سٹیشن سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جس میں تمام سی این جی سٹیشنوں کو مختلف کیٹگریز میں تقسیم نہیں کیا گیا تھا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کیٹگریز میں تقسیم کرکے بتائیں۔ اوگرا کے وکیل افتخار گیلانی نے عدالت کو بتایا کہ کچھ سی این جی سٹیشن قانون کے مطابق اور بعض غیرقانونی ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عموماً ریگولیٹری اتھارٹی کو دی گئی گائیڈ لائن معاونت کیلئے ہوتی ہے۔ ہدایت کیلئے نہیں۔ بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل سے معاونت طلب کرتے ہوئے سماعت 27 فروری تک ملتوی کردی۔