امن مذاکرات کیلئے رابط کمیٹیوں کی ملاقات مثبت پیش رفت ہے،سیاسی ومذہبی رہنماء،د ونوں جانب سے جنگ بندی ہونی چاہئے تاکہ معاملات آگے بڑھ سکیں،نجی ٹی وی پروگرام میں شاہ محمود ،مفتی کفایت اللہ،پروفیسر ابراہیم،منظور وسان اور دیگر کا اظہار خیال

جمعہ 7 فروری 2014 08:13

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7فروری۔2014ء) سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے امن مذاکرات کیلئے رابط کمیٹیوں کی ملاقات کو مثبت پیش رفت قرار د یتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں جانب سے جنگ بندی ہونی چاہئے تاکہ معاملات آگے بڑھ سکیں۔ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طالبان اور حکومتی کمیٹیوں کی ملاقات پہلا مثبت قدم ہے، آج کی میٹنگ میں جو باتیں ہوئیں ان میں آئین کے تحت مذاکرات، ماحول کو سازگار بنانے کیلئے فائر بندی ہمارا بھی موٴقف ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ شورش زدہ علاقوں کی بات کرکے مذاکرات کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی، شورش زدہ علاقوں کی وضاحت ہونی چاہئے، بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے بھی کچھ علاقوں میں مسائل موجود ہے، ہم پورے ملک میں امن چاہتے ہیں، پورا ملک شورش زدہ نہیں تاہم کہیں کہیں مسائل ہیں، خیبرپختونخوا اور فاٹا شدت پسندی سے سب سے زیادہ متاثر ہے، وہاں کے حالات مختلف ہیں۔

(جاری ہے)

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ فاٹا کے ساتھ افغانستان کی سرحد موجود ہے اور دونوں اطراف سے سرحدی آمد و رفت رہتی ہے، ہم نے ہمیشہ افغانستان سے کہا کہ دونوں اطراف آنے جانے والوں کو چیک کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں حالات اچھے تھے اور نہ ہیں، ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ کراچی پولیس میں سیاسی بھرتیاں ہوتی رہی ہیں، کراچی میں اسلحہ کی بھرمار تشویشناک ہے، جن علاقوں میں شدت پسند اور جرائم پیشہ عناصر موجود ہیں ان کے خلاف کارروائی کرنا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ طالبان کے موٴقف کیلئے ان سے ملاقات کرنا ضروری ہے، ایسا لگتا ہے کہ طالبان کی رابطہ کار کمیٹی کو حکومتی ٹیم کے اختیارات سے متعلق اب بھی تحفظات ہیں، بات چیت آگے بڑھنے کیلئے جنگ بندی اور سیز فائر بنیادی چیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ امن مذاکرات کیلئے ہمارا رویہ مثبت ہوگا، امن کیلئے بہتر راستہ مذاکرات اور بات چیت ہی ہے، جو لوگ آپریشن کا راستہ اختیار کرنے کی تجویز دیتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ جنگ میں عام لوگوں کا بھی نقصان ہوتا ہے جس سے شدت پسندی اور فوج کیخلاف رائے عامہ ہموار ہوتی ہے، پشاور میں بھی امن مذاکرات کیلئے ہر ممکن تعاون فراہم کریں گے۔

اس موقع پر جے یو آئی (ف) کے رہنما مفتی کفایت اللہ کا کہنا ہے کہ ہر شخص کی خواہش ہے کہ امن قائم ہوں، جو لوگ امن کیلئے کام کریں گے وہ امر ہوجائیں گے، اپنی جماعت کے امیر کی اطاعت کرتے ہوئے مذاکراتی عمل میں شریک نہیں ہوا، ہماری دعا ہے کہ امن عمل کامیاب ہو۔انہوں نے کہا کہ دونوں فریق چاہیں گے کہ وہ جنگ کی دلدل سے نکلیں، مذاکرات کا جو ماحول بن گیا ہے اس سے دونوں فریقوں کو اس کا موقع مل جائے گا، ہمارا مستقل جنگ بندی میں ہے گولیاں چلانے میں نہیں۔

انہوں نے کہا کہ امن مذاکرات میں بہت سی باتیں ہوئی ہوں گی ان پر شک نہیں کرنا چاہئے، بات چیت کو موقع دینا چاہئے اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔جبکہ وزیر جیل خانہ جات سندھ منظور وسان نے کہا کہ ہم اس بات کی حمایت کریں گے کہ امن قائم ہوجائے گا، طالبان کے کچھ گروپ اب بھی پشاور میں حملے کررہے ہیں، کراچی میں طالبان موجود ہیں اور ان کا غلبہ بڑھتا جارہا ہے، امن کیلئے پیپلزپارٹی، ن لیگ، پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کو متفق ہونا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس، رینجرز اور سندھ حکومت کراچی میں امن کیلئے کوشاں ہے، دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر کو قابو کرنا آسان نہیں، شہر میں طالبانائزیشن اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کنٹرول کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔پی پی رہنماء نے کہا کہ کراچی کے 32 تھانوں میں جرائم کی شرح نسبتاً کم ہے، رینجرز کو تحفظات نہیں ہونے چاہئیں انہیں بہت سے اختیارات دیئے گئے ہیں، فورسز طالبان کو موجودگی کا علم ہے وہ اس پر قابو پانے کیلئے کوششیں کررہی ہیں۔

لندن میں ایکشن اور کراچی میں ری ایکشن کے سوال پر ان کا کہنا کہ وہ تجزیہ کرتے ہیں جو کبھی ٹھیک ہوتا ہے اور کبھی غلط، شہر میں جو کچھ بھی ہوگا اس پر سیکیورٹی ایجنسیز قابو پالیں گی۔جماعت اسلامی کے رہنما اور طالبان کی رابطہ کار کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ شورش زدہ علاقوں سے متعلق بات حکومتی کمیٹی نے کی، ہم اس پر طالبان سے بات کریں گے، ان کے مطالبات اور نقطہ نظر بھی جاننے کی کوشش کریں گے، طالبان کا براہ راست موٴقف سننا چاہتے ہیں تاکہ حکومتی کمیٹی سے اس پر بات کی جاسکے۔

رابطہ کار کمیٹی کیلئے نامزدگی ہوئی تو طالبان رہنماء قاری شکیل سے ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی تھی، طالبان کے موٴقف سے متعلق ٹیلی فون پر گفتگو نہیں ہوسکتی، اس کیلئے سامنے بیٹھ کر تفصیلی بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مجلس میں طے ہونے والے امور ہی سامنے لائے جائیں گے، جو باتیں طے نہیں ہوئیں وہ امانت ہیں ان پر بات نہیں کرنا چاہتا، طالبان نے حکومت کی مذاکرات کی پیش کش کو قبول کیا، وہ سنجیدہ مذاکرات چاہتے ہیں، امید ہے کہ طالبان جنگ بندی اور سیز فائر پر تیار ہوجائیں گے۔

حکومتی کمیٹی کے رکن رحیم اللہ یوسف زئی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں کمیٹیوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حملے رک جانے چاہئیں، طالبان تک بھی جنگ بندی کی بات جائے گی، وہ بھی چاہتے ہیں کہ فائر بندی ہوجائے، اگر سوات معاہدے کی طرز پر بات ہوئی تو اسے آگے بڑھائیں گے، ہم نے کچھ وضاحتیں چاہی ہیں جس پر طالبان کا موٴقف ان کی کمیٹی لے کر آئے گی

متعلقہ عنوان :