حکومت اور طالبان کمیٹیوں کااجلاس آج متوقع ،حکومتی مذاکراتی کمیٹی آج ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات اوراجلاس کرے گی، مذہبی جماعتوں میں مذاکرات موثر بنانے کیلئے تحریک طالبان سے پابندی اٹھانے کی تجویز زیر غور ،’ایک بڑی وضاحت ہو گئی، مذاکرات کے لیے تیار ہیں‘ رحیم اللہ یوسف زئی، طالبان آئین کی بالادستی کیلئے کام کررہے ہیں، مولانا سمیع الحق

جمعرات 6 فروری 2014 02:05

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6فروری۔2014ء)حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کا پہلا اجلاس اب آج جمعرات کو ہو گا۔ذرائع کے مطابق تعطل کے بعد دونوں کمیٹیوں میں رابطہ ہوا اور اب مذاکراتی کمیٹیوں کا پہلا اجلاس آج ہوگا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومتی کمیٹی کے ارکان آج ہی ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالسلام سے ملاقات کریں گے جس میں مذاکرات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

حکومتی کمیٹی آرمی چیف کی سعودی عرب سے واپسی کے بعد ان سے بھی ملاقات کرے گی۔واضح رہے کہ دونوں کمیٹیوں کے درمیان ملاقات چار فروری کو ہونا تھی جو کہ حکومتی کمیٹی کی جانب سے وضاحتیں طلب کیے جانے کے بعد ملتوی کر دی گئی تھی،طالبان کمیٹی نے حکومتی کمیٹی کے اس اقدام کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے اہم معاملے میں دلچسپی لینے کی اپیل کی تھی۔

(جاری ہے)

مذہبی جماعتوں میں مذاکرات موثر بنانے کیلئے تحریک طالبان سے پابندی اٹھانے کی تجویز زیر غور ،حکومتی کمیٹی سے مذاکرات میں معاملے کو اٹھایا جائیگا، حکومت اور طالبان کمیٹیوں کااجلاس آج متوقع جبکہ مولانا یوسف شاہ نے کہاہے کہ قبل از وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیاتجاویز دی جائیں گی اور کون سے مطالبات تسلیم کئے جائیں گے،باقاعدہ پہلی ملاقات کے بعد ہی صورتحال واضح ہوگی ۔

باوثوق ذرائع نے ”خبر رساں ادارے“ کو بتایا کہ حکومت طالبان مذاکرات موثر بنانے کیلئے مذہبی جماعتوں میں یہ تجویز زیر غور آئی ہے کہ اگر کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے پابندی اٹھا لی جائے اور انہیں کچھ ریلیف فراہم کیا جائے تو مذاکرات موثر ثابت ہوسکتے ہیں اور اس سلسلے میں حکومتی کمیٹی کا رویہ دیکھنے کے بعد پہلے اجلاس میں یہ معاملہ اٹھائے جانے کا امکان ہے ذرائع کے مطابق دونوں مفاہمتی کمیٹیوں کا آج اسلام آباد میں اجلاس بھی متوقع ہے۔

اس سلسلے میں جب ”خبر رساں ادارے“ طالبان ثالثی کمیٹی کے ترجمان و کوآرڈینیٹر مولانا یوسف شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایاکہ قبل از وقت کچھ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ کون کی تجاویز زیر غور ہیں اور کون سے مطالبات پیش کئے جاسکتے ہیں پہلے اجلاس کے بعد ہی صورتحال واضح ہوگی ۔ انہوں نے کہاکہ حکومتی کمیٹی کے اراکین کے رابطے ضرور ہوئے ہیں لیکن یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ آج(جمعرات)کو دونوں کمیٹیوں کا اجلاس ہوگا یا نہیں ہوگا کیونکہ یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ہمارے قائدین کی اپنی بھی مصروفیات ہیں۔

چار رکنی حکومتی کمیٹی کے رکن اور سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ توقع ہے ہے کہ آئندہ ایک سے دو روز میں حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کی ملاقات ہو جائے گی۔’ایک بڑی وضاحت ہو گئی ہے اور ممکن ہے کہ طالبان سے جو دیگر وضاحتیں طلب کر رہے ہیں وہ بھی دے دی جائیں گی۔‘برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں طالبان قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے رحیم اللہ یو سف زئی نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کی خواہش ہے کہ ان کے قیدیوں کو رہا کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ اگر کوئی فیصلہ کرنا ہے تو ہمیں جلدی کرنی چاہیے تاکہ پاکستان کے عوام کی مصیبتیں دور ہوں۔ ۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا حکومتی مذاکراتی کمیٹی طالبان سے مطالبہ کرے گی کہ وہ مذاکرات کا عمل شروع ہونے کے ساتھ اپنی کارروائیاں روک دیں؟اس پر رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ یہ ہماری ترجیح ہو گی کہ طالبان اپنی کارروائیاں بند کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم نے طالبان کی مذاکراتی کمیٹی سے وضاحت طلب کی ہے کہ کیا وہ ہمیں اس طرح کی یقین دہانی دے سکتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ان کے اتحادی اور ذیلی تنظیمیں حملے روک دیں گی؟’جب مذاکرات ہوں گے اور اگر طالبان نے اپنی کارروائیاں روک دیں اور حکومت کی جانب سے جوابی کارروائی نہیں کی جائے گی تو پھر اقلیتوں پر ہونے والے حملوں کے بارے میں طالبان کا موقف بھی سامنے آ جائے گا کہ کیا تحریک طالبان ان حملوں کی مذمت کرتی ہے کیا ان کو روکنے کی کوشش کرتی ہے یا کیا ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے؟‘حکومت کی کمیٹی منگل کے اجلاس کو یہ کہہ کے ملتوی کر دیا کہ اسے طالبان سے کچھ وضاحتیں درکا ہیں جن کے بعد ہی مذاکرات فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔

اس کے بعد طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے سرکردہ رکن سمیع الحق نے اسلام میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے طے شدہ ملاقات ملتوی ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ذمہ دار حکومت ہے۔ سمیع الحق کا کہنا تھا: ’افسوس ہے کہ حکومت اب سنجیدگی سے کام نہیں لے رہی۔جمعیت علمائے اسلام (س)، دفاع پاکستان کونسل اور طالبان ثالثی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہاہے کہ ہم بااختیار ہیں افسوس حکومت بے اختیار ہے، ملک میں طالبان حکومت کا جھگڑا ہے ہم پل کا کردا ر ادا کررہے ہیں، طالبان آئین کی بالادستی کیلئے کام کررہے ہیں، حکمرانوں نے 65سال تک آئین نافذ نہیں ہونے دیا، عمران طاغوتی قوتوں کے دباؤ کے سامنے ڈھیر ہوگئے، وزیراعظم کی جانب سے طالبان کے نمائندے کی شمولیت بے جا ہے اور ایسے ہے کہ صدر یا وزیراعظم کو بھی حکومتی کمیٹی میں شمولیت کی شرط عائد کردی جائے، حکومتی کمیٹی مذاکرات اب مشاور ت کے بعد ہی ہونگے، بھارت، امریکہ اور اسرائیل پاکستان کیخلاف صف آراء ہوچکے ہیں یہی ممالک پاکستان میں دہشتگردی کروا رہے ہیں جبکہ دفاع پاکستان کونسل کے رہنماؤں اعجاز الحق، حمید گل ، شیخ یعقوب و دیگر نے کہاہے کہ صرف یکجہتی جلسے جلوسوں سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، حکمران عملی اقدامات اٹھائیں، جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوجاتا اس وقت تک بھارت کے ساتھ تجارتی روابط سمیت دیگر دوستی کی پینگیں نہ بڑھائی جائیں،کشمیری فیصلہ کریں وہ الحاق پاکستان چاہتے ہیں ،بھارت کے ساتھ جانا چاہتے ہیں یاآزادی و خودمختاری چاہتے ہیں ۔

بدھ کے روز یوم یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں جماعة الدعوةکے زیراہتمام یکجہتی ریلی کا اہتمام کیا ۔ ریلی جماعة الدعوةکے مرکز آئی ایٹ سے ہوتی ہوئی نیشنل پریس کلب کے سامنے اختتام پذیر ہوئی ، ریلی میں دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ مولانا سمیع الحق، مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجاز الحق، جنرل (ر)حمید گل، جماعة الدعوة کے مرکزی رہنماشیخ یعقوب و دیگر نے شرکت کی ۔

بعد ازاں نیشنل پریس کلب کے سامنے ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے دفاع پاکستان اور طالبان ثالثی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہاہے کہ نوازشریف سے کہاکہ خود کشی مت کرو اور مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ انہوں نے کہاکہ لیکن حکومت کی جانب سے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آتا، ہم حکومتی کمیٹی سے ملنا چاہتے تھے تاکہ پیش رفت کرسکیں مگر انہوں نے تحفظات کا اظہار کردیا انہوں نے کہاکہ ہم کمیٹی کا حصہ بنے تاکہ دیکھیں کہ کون زیادتی کررہاہے، ہم بااختیار ہیں لیکن حکومتی کمیٹی تو کیا خود حکومت بھی بے اختیار ہے۔

مولانا سمیع الحق نے مزید کہاکہ طالبان آئین کی بالادستی کیلئے کام کررہے ہیں، حکمرانوں نے 65سال آئین کو پامال کیا اب معلوم ہوگیا کہ کون امن کا خواہاں ہے اور کون بدامنی کو فروغ دینا چاہتاہے، عمران خان کے ساتھ وہی لوگ ہیں جو مشرف کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ عمران سے ہمدردی ہے طاغوتی طاقتوں نے عمران خان کو جھکادیا ہے اور وہ دباؤ برداشت نہیں کرسکے۔

امریکہ، اسرائیل اور بھارت اکٹھے ہوکر پاکستان کے خلاف صف آراء ہوگئے ہیں۔بعد ازاں انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ صرف حکومتی کمیٹی نہیں خود حکومت بھی بے اختیار ہے۔ طالبان کا نمائندہ شامل کرنے کا مطالبہ بے جاہے اور ایسا ہی ہے جیسے میں صدر یا وزیراعظم کو حکومتی کمیٹی میں شمولیت کا کہہ دوں۔طالبان نے اپنی 9ر کنی کمیٹی تشکیل دی ہے اور ہم حکومت و طالبان میں پل کا کردار ادا کرہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرلیا جائے،پائیدار امن غیر ملکی تسلط سے آزادی اور نفاذ شریعت سے ہی نافذ ہوگا کیونکہ ہمارے تمام مسائل کا حل صرف اسلامی نظام میں ہی ہے ۔

ایک سوال پر مولانا سمیع الحق نے کہاکہ ملک میں حکومت اور طالبان کا جھگڑا ہے حتمی فیصلہ بھی انہی نے کرنا ہے ۔ ایک اور سوال پر مولانا سمیع الحق نے کہاکہ حکومتی کمیٹی کے اراکین رستم مہمند اور میجر عامر نے مجھ سے رابطہ کیاہے مگر 5 فروری کے پروگراموں میں مصروفیت کے باعث ملاقات نہیں ہوسکتی ، ہم ملاقات کیلئے انتظار میں رہے مگر حکومتی اراکین طالبان کی وضاحت کے باوجو د نہیں آئے اب دیگر اراکین سے مشاورت کے بعد ہی فیصلہ کرینگے شاید اگلے دو روز میں کوئی پیش رفت ہوجائے۔

قبل ازیں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جماعة الدعوة کے مرکزی رہنما شیخ یعقوب نے کہاکہ پاکستان دنیا کے خطے پر قائم رہنے کیلئے وجود میں آیا لیکن ہندوستان کا وجود باقی نہیں رہے گا۔ پاکستان میں دہشت گردی، بم دھماکے امریکہ اور بھارت کروا رہے ہیں۔ بھارت نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیامگر حکمران بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے چکروں میں ہیں۔

مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجاز الحق نے کہاکہ مسئلہ کشمیر پانچ فروری کو یکجہتی کے جلسے جلوسوں یا ریلیوں سے حل نہیں ہوگا بلکہ حکومت کو چاہیے اس وقت تک بھارت کے ساتھ کوئی دیگر روابط برقرار نہ رکھے جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوجاتا۔ جنرل (ر)حمید گل نے کہاکہ اقوام متحدہ سے التجائیں کرنے سے کچھ نہیں ہوگا مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عوا م کو حکمرانوں پر دباؤ بڑھانا چاہیے امریکہ افغانستان سے نکل رہاہے جس پر بھارت کو پریشانی لاحق ہے کشمیریوں کو اپنی آزادی کا فیصلہ خود کرنا چاہیے کہ وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں، بھارت کے ساتھ جاناچاہتے ہیں یا الحاق پاکستان چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ملکی مفادات کے حوالے سے پارٹی پالیسیاں آڑے آجاتی ہیں جس طرح مولانافضل الرحمن پارٹی پالیسی کے باعث مذاکرات سے علیحدگی اختیار کرگئے۔