سینٹ ، دوہری شہریت کے حامل ججوں کے نام شائع کرنے کی قرارداد حکومت کو بھجوادی گئی ، حکومت دو ماہ میں اس قرارداد پر عمل کر کے ایوان کو آگاہ کرے ،چیئرمین سینٹ کی ہدایت،حکومت کے پاس اس حوالے سے معلومات دستیاب نہیں تاہم قرارداد کی حمایت کرتے ہیں ،قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق

منگل 4 فروری 2014 07:53

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4فروری۔2013ء) چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری نے دوہری شہریت کے حامل ججوں کے نام شائع کرنے کی قرارداد حکومت کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ حکومت دو ماہ میں اس قرارداد پر عمل کر کے ایوان کو آگاہ کرے جبکہ قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے بتایا کہ حکومت کے پاس اس حوالے سے معلومات دستیاب نہیں ہیں، تاہم وہ اس قرارداد کی حمایت کرتے ہیں۔

پیر کو سینٹ کے اجلاس میں میں سینیٹر فرحت اللہ بابر کی ججوں کی دوہری شہریت کے حوالے سے قرارداد ایک بار پھر ایجنڈے پر تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ”یہ ایوان سفارش کرتا ہے کہ حکومت اعلیٰ عدلیہ کے ان جج صاحبان جن کی دوہری شہریت ہے، کے نام شائع کئے جائیں“ جس پر چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری نے کہا کہ ججوں کی دوہری شہریت کے حوالے سے حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ اس بارے میں ایوان کو آگاہ کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ ججوں کی دوہری شہریت کا معاملہ بہت پرانا ہے، مارچ 2013ء کو یہ معاملہ ایوان میں ایک سوال کی صورت میں آیا تھا جب وزیر قانون فاروق ایچ نائیک تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے معلومات دستیاب نہیں ہیں، سپریم کورٹ نے اس حوالے سے جواب بھجوایا تھا کہ ججوں کی دوہری شہریت پر کوئی پابندی نہیں جبکہ شریعت کورٹ کی طرف سے جواب آیا تھا کہ کسی جج کی دوہری شہریت نہیں ہے، یہ معاملہ 16 دسمبر 2013ء کو فرحت اللہ بابر نے چوتھی بار اٹھایا حکومت کے پاس اس حوالے سے کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں، بلوچستان ہائی کورٹ نے جواب بھجوایا ہے کہ اس کے کسی جج کی دوہری شہریت نہیں ہے لیکن باقی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کی طرف سے وہی جواب آیا ہے کہ ججوں کی دوہری شہریت پر کوئی پابند نہیں ہے اس لئے اس بارے میں معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں، حکومت کے پاس اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں۔

چیئرمین نے کہا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت عوام کو معلومات حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، کیوں یہ معلومات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں، اگر عوام کو اطلاعات تک رسائی حاصل نہیں ہے، تو ہم یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ اگر ہاؤس یہ معلومات چاہتا ہے تو یہ معلومات فراہم کی جانی چاہئیں لیکن اگر ہاؤس کو جواب فراہم نہیں کیا جاتا تو پھر کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔

قائد ایوان نے کہا کہ حکومت کو اس قرارداد پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ چیئرمین نے کہا کہ یہ قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی جاتی ہے، حخومت 2 ماہ کے اندر اس قرارداد پر عملدرآمد کرے۔ قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو بلا کر پوچھنا چاہیے کہ وہ کس طرح اس قرارداد پر عمل کرائیں گے، وہ چیف جسٹس کے پاس اس معاملے کو لے جا سکتے ہیں، اٹارنی جنرل کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت وزیر قانون موجود نہیں ہے، وہ چیف جسٹس سے ملاقات کر کے انہیں اس معاملے سے آگاہ کر سکتے ہیں۔

قائد ایوان نے کہا کہ چیئرمین نے دو ماہ کا جو وقت دیا ہے وہ درست فیصلہ ہے، یہ قرارداد اب حکومت کو بھجوا دی گئی ہے، اب حکومت پر ہے کہ وہ اس حوالے سے کیا کرتی ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ دو ماہ میں اگر حکومت اس حوالے سے پیش رفت نہ کر سکی تو پھر یہ ایوان پر ہے کہ وہ اس حوالے سے کیا فیصلہ کرتا ہے۔

متعلقہ عنوان :