عمران فاروق قتل کیس‘ برطانوی پولیس نے پاکستان سے دو مشتبہ افراد کی تلاشی کا مطالبہ کردیا،کراچی کے محسن علی سید اور محمد کاشف کامران نے عمران فاروق کی ریکی کی تھی،عمران فاروق قتل کیس میں مبینہ طور پر ملوث پاکستان میں موجود دو افراد کو تلاش کیا جائے‘ برٹش کراؤن پراسیکیوشن سروس کا پاکستان پر زور، الطاف حسین اور ایم کیوایم کو نقصان پہچانے کیلئے بین الاقوامی سطح پر میڈیا ٹرائل کیاجارہا ہے، بی بی سی کی دستاویزی فلم بددیانتی پر مبنی ہے ، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ،ایم کیوایم کو ملکی سلامتی کے حوالے سے کرادر ادا کرنے سے روکاجارہا ہے ، کروڑوں عوام جناب الطاف حسین سے اظہار یکجہتی کا ثبوت جلد دیں گے ، شہید انقلاب ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور تحقیقات کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ڈاکٹر عمران فاورق شہید کے قتل کے پیچھے جو کوئی بھی ہو اس کو پکڑا جائے اور سزا دی جائے یہ حکومت برطانیہ کی ذمہ داری ہے،ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینرناصرجمال ودیگراراکین رابطہ کمیٹی کے ہمراہ خورشیدبیگم سیکریٹریٹ عزیزآبادمیں پرہجوم پریس کانفرنس سے ڈاکٹرخالدمقبول صدیقی،ڈاکٹرمحمدفاروق ستاراوربیرسٹرفروغ نسیم کاخطاب

جمعہ 31 جنوری 2014 08:18

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔31جنوری۔2014ء) برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ برٹش کراؤن پراسیکیوشن سروس نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں مبینہ طور پر ملوث اور پاکستان میں موجود دو افراد کو تلاش کریں۔ دونوں مشتبہ افراد کا تعلق کراچی سے ہے اور ان کا نام محسن علی سید اور محمد کاشف خان کامران بتائے گئے ہیں۔

برطانوی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ محسن اور کاشف نے سٹوڈنٹ ویزا کیلئے اپلائی کیا تھا اور انہوں نے ایسٹ لندن میں وقع لندن اکیڈمی آف مینجمنٹ آف سائنسز میں داخلہ لیا تھا لیکن ظاہر یہ کیا گیا کہ کراچی ہی کے ایک بزنس مین معظم علی خان نے دونوں مشتبہ افراد کو برطانیہ جانے کیلئے سپانسر کیا تھا۔ برطانوی میڈیا کے مطابق معظم علی خان ایم کیو ایم کے قائد کے بھتیجے افتخارحسین سے 2010ء تک رابطے میں رہے ہیں۔

(جاری ہے)

محسن علی سید نے ٹوئنگ ساؤتھ لندن میں رہائش اختیار کی تھی۔ برطانوی میڈی کے مطابق محسن علی سید اس دوران ایم کیو ایم کے لیڈر ڈاکٹر ڈاکٹر عمران فاروق کے دن رات کے معاملات کی نگرانی کرتا رہا جبکہ محمد کاشف خان کامران کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ ستمبر 2010ء میں برطانیہ آیا تھا۔ دونوں امریکہ ایک ساتھ رہے اور دونوں ایک ساتھ آتے جاتے تھے۔

ڈاکٹر عمران فاروق کو ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹ کے وار سے قتل کیا گیا تھا۔ واقعہ کے عینی شاہد بھی موجود ہیں جبکہ برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ قتل کے مقام سے قاتلوں کے ڈی این اے کے نمونے بھی حاصل کرلئے گئے ہیں اور ان دونوں افراد کے سامنے لائے جانے سے واضح ہوسکے گا کہ وہ قاتل ہیں یا نہیں۔ مشتبہ افراد واقعہ کے چند گھنٹوں بعد ہی برطانیہ سے سری لنکا چلے گئے تھے۔

برطانوی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ 19 دسمبر کو کراچی پہنچتے ہی دونوں کو ایئرپورٹ پر گرفتار کرلیا گیا تھا تاہم پاکستانی حکام اس کی تردید کرچکے ہیں۔ یہ بھی خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ دونوں مشتبہ افراد کو مبینہ طور پر وطن واپسی میں کراچی سے تعلق رکھنے والے خالد شمیم کی مدد حاصل تھی جوکہ ستمبر 2010ء سے لاپتہ ہے۔ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار کئے گئے افتخار حسین ضمانت پر رہا ہیں جبکہ فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ افتخار حسین کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے۔

دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ قائد تحریک جناب الطاف حسین اور ایم کیوایم کو نقصان پہچانے کیلئے بین الاقوامی سطح پر میڈیا ٹرائل کیاجارہا ہے ، بی بی سی نے قائد تحریک الطاف حسین اور ایم کیوایم کے خلاف جو دستاویزی فلم پیش کی ہے وہ بد دیانتی پر مبنی ہے ، اس میں ایم کیوایم پر سوالات اٹھائے گئے ہیں لیکن جواب نہیں نشر کئے گئے اور ایم کیوایم کے سینیٹربیرسٹر فروغ نسیم کی وضاحتوں کو جسے خود بی بی سی کے اینکر پرسن نے سراہا تھا انہیں حذف کردیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تاریخ کے انتہائی نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ ایم کیوایم ملک کی سلامتی ، بقاء،سیاسی اورجمہوری جدوجہد اور خوشحالی کیلئے اپنا کردار کریں لیکن ایم کیوایم کو ملک میں سیاسی ، جمہوری اور ملک کی سلامتی کے حوالے سے کردار ادا کرنے سے روکاجارہا ہے اور ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں ایم کیوایم ملک کی سلامتی کیلئے پوری صلاحیتوں کے ساتھ اپنا کردار ادا نہ کرسکے ۔

انہوں نے کہاکہ برطانوی میڈیا بی بی سی کی یہ دوسری دستاویزی فلم ہے جس میں حقائق کے برخلاف بات کی گئی اور حقائق کے برخلاف بات کرنے سے پاکستان میں الطاف حسین کے کروڑوں چاہنے والوں کے نہ صرف جذبات مجروح ہوتے ہیں بلکہ ان کی دل آزاری بھی ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کروڑوں عوام ، الطاف حسین سے پنی اظہار یکجہتی کا ثبوت جلد دیں گے اور دنیا دیکھ لے گی کہ عوام ، آج بھی الطاف حسین کے ساتھ ہیں ۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے جمعرات کی شام خورشید بیگم سیکریٹریٹ عزیز آباد میں ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر انجینئر ناصر جمال ، اراکین رابطہ کمیٹی ڈاکٹر فارو ق ستار ، نسرین جلیل ، امین الحق ، خالد سلطان ، ڈاکٹر صغیر احمد ، اشفاق منگی ، اسلم آفریدی ، سیف یارخان ، عادل خان ، شاکر علی ، وسیم اختر اور ایم کیوایم کے سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم کے ہمراہ پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ ایم کیوایم کے قیام کے پہلے روز سے سازشیں شروع ہیں اور اس کے راستے میں رکاوٹیں اور مشکلات کھڑی کی جاتی رہی ہیں اور اب یہی حالات ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر پیدا کئے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ بی بی سی کی دستاویزی فلم میں جہاں کئی بے بنیاد الزام لگائے گئے وہیں ایک بات یہ بھی کہی گئی کہ قائد تحریک الطاف حسین پر قتل کے 30مقدمات ہیں جو کھلی بددیانتی ہے اور اس لئے کھلی بددیانتی ہے کہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ قائد تحریک الطاف حسین پر قتل کے جن مقدمات کی بات کی گئی ہے وہ عدالت سے ان سب میں باعزت طورپر بری ہوچکے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیوایم کے سابق کنوینر شہید انقلاب ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور تحقیقات کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، اس حوالے سے کہا گیا کہ کراچی میں دو افراد گرفتار ہیں جبکہ پولیس انہیں کنفرم نہیں کررہی ہے اب سوال یہ ہے کہ یہ دعویٰ کیوں کیاجارہا ہے ؟ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر عمران فاورق شہید کے قتل کے پیچھے جو کوئی بھی ہو اس کو پکڑا جائے اور سزا دی جائے یہ حکومت برطانیہ کی ذمہ داری ہے کہ جن پر الزام ہے ان پر کیس چلایاجائے جن دو افرادکا نام لیاجارہا ہے ان کا ایم کیوایم سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ان دو افراد نے جس عاطف صدیقی نامی شخص کے ذریعے ویزے لگوائے تھے اسے بھی ایم کیوایم نہیں جانتی ۔

انہوں نے سوال کیا کہ جب جو دو افراد قتل کی واردات میں مبینہ طور پر ملوث تھے تو برطانوی حکام ، پولیس نے انہیں برطانیہ سے جانے کیسے دیدیا کیا یہ ان کی ذمہ داری نہیں بنتی تھی ؟ ۔ انہوں نے کہاکہ برطانوی پولیس الطاف حسین کے کوائن اور بے بی افضا کا لیپ ٹاپ تک اٹھا کر لے گئی ہے جس کا کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ الطاف حسین ہر اس طاقت کے خلاف سر نہیں جھکائیں گے جو انہیں اصولی موقف سے ہٹانا چاہتی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ہم سمجھتے تھے کہ برطانیہ میں انسانی جان و مال محفوظ ہے لیکن جب ایم کیوایم کے کنوینر ڈاکٹر عمران فاورق کو قتل کیا جاسکتا ہے تو قائد تحریک الطاف حسین کے بارے میں ہماری تشویش سو فیصد درست ہے ۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن اورقومی اسمبلی میں ایم کیوایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ ایم کیوایم پاکستان کو لاحق چیلنجز کا مقابلہ کرنے ، اسے بحران سے نکالنے میں اپنا جو روایتی کردار ادا کرتی ہے اسے روکاجائے ۔

انہوں نے کہا کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم کا مقصد پاکستان اور دنیا بھر میں قائد تحریک الطاف حسین اور ایم کیوایم کی ساکھ کو مجروح کرنا ہے اس میں جو بتایا گیا ہے وہ نہ صرف حقائق کے قطعی منافی ہے ، جھوٹ اور پروپیگنڈے پر مبنی اور سراسر بہتان تراشی ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عمل الطاف حسین اور ایم کیوایم کا میدیا ٹرائل ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتی ہے ، میڈیا فریڈم اور میڈیا ٹرائل میں بہت فرق ہوتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ قتل کیس میں صرف الزام ہے ، ایم کیوایم کو کسی مقدمے میں باقاعدہ نامزد نہیں کیا گیا اور اس طرح کی فلم بی بی سی نے برٹش کورٹ پرا ثر انداز ہونے کیلئے بنائی ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ برطانیہ میں اعلیٰ روایت ، انسانی حقوق کے مسلمہ قوانین ہیں لیکن اسکے باوجود ایک برطانوی شہری کے حقوق کو پامال کیاجارہا ہے ، ہم برطانوی نشریاتی ادارے کی ہی مذمت نہیں کررہے ہیں بلکہ جو رپورٹ اس نے دکھائی ہے اس دستاویزی فلم کو بھی مسترد کررہے ہیں بلکہ اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ میٹرو پولیٹن پولیس اب تک اندھیرے میں کوشش کررہی ہے کہ کسی طرح اس کا تیر نشانے پر لگ جائے ، ایم کیوایم بھی آئینی وقانونی جنگ لڑ رہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بے بی افضاء کے لیپ ٹاپ اور الطاف حسین کے جمع کردہ کوائن کو منی لانڈرنگ اور تحقیقات کا حصہ بنایاجارہا ہے ، منی لانڈرنگ کا سلسلہ اب کیوں اٹھایا گیا ہے ، پاکستان کے بڑے بڑے لوگوں کے برطانوی بنک میں اثاثے ہیں اور وہ پیسہ بغیر بزنس کے موجود ہے مگر اس پر کوئی سوال نہیں کیا جارہا ہے اور ایم کیوایم کو دیوار سے لگایاجارہا ہے ۔

انہوں نے میڈیا بھی منصف بن کر ٹرائل کررہا ہے اور ایم کیوایم کو سزا بھی سنا رہا ہے ایم کیوایم کے سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی بی سی کے پروگرام میں جب منی لانڈرنگ کی بات کی گئی تو میں نے اس کا جواب دیا لیکن اسے ایڈٹ کردیا گیا ، افتخار حسین پر 90ء کے دور میں بد ترین ٹارچر ہوا تھا اور کوئی بھی ان سے ملے تو وہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان کی کنڈیشن صحیح نہیں ہے ۔

انہوں نے کہاکہ بی بی سی نے ہر چیز قیاس آرائی پر کہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم ، قائد تحریک الطاف حسین کے بغیر مائنس ہے اور جناب الطاف حسین کو مائنس نہیں کیا جاسکتا یہ خیال تو ہوسکتا ہے حقیقت نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ فیکٹ اور فکشن فلم میں فرق ہوتا ہے ، بی بی سی کے خلاف دنیا میں کہیں بھی قانونی چارہ جوئی کریں گے ۔ انہوں نے کہاکہ لیمپس کے کالج میں قتل کیس میں مطلوب جو دو افرا د آئے تھے تو ان کا ایم کیوایم سے کیا تعلق بنتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ایم کیوایم کے مخالفین بی بی سی کو استعمال کررہے ہیں اور غلط معلومات برٹش حکام اور میٹر پولیٹن پولیس کو پہچا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم کے مخالفین کی جھوٹی اطلاعات پر عمل کرنے کے بجائے برٹش پولیس اور اتھارٹیز خود اپنی معلومات اکھٹی کریں ، بی بی سی کی ایم کیوا یم کے خلاف چلنے والی ڈاکو منٹری فلم میں میرے دلائل کو جان بچھ کر حذف کیا گیا ۔، بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ بی بی سی دستاویزی فلم کے اینکر اوون بینٹ جانز( OWEN BENNETT JONES)نے وعدے کرنے کے باوجود جان بوجھ کر میرے جملوں کو حذف کیا گیا سرا سر صحافی بددیانتی ہے ۔