حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے حوالہ سے جے یو آئی (ف) کو اعتماد میں نہ لیا،مولانا فضل الرحمان کاقومی اسمبلی میں انکشاف،تعاون کی یقین دہانی، ماضی میں پارلیمنٹ اور سیاسی حکومتیں فیصلے کرتی رہی ہیں لیکن ان پر کوئی عملدرآمد نہ ہوا،حکومت اگر مذاکرات کا فیصلہ کرچکی ہے تو لب و لہجہ بھی ویسا ہی اختیار کرے،اعتدال کے ساتھ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانا ضروری ہے،اگر کسی کو اعتراض تھا تو وزیراعظم کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیتے، قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر خطاب، صحافیوں سے گفتگو

جمعرات 30 جنوری 2014 08:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30جنوری۔2014ء) حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے حوالہ سے جمعیت علماء اسلام (ف) کو اعتماد میں نہیں لیا ،یہ انکشاف جے یو آئی کے امیر اوررکن قومی اسمبلی مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم نوازشریف کے خطاب پرتبصرہ کے دوران کیا تاہم انہوں نے اپنے مکمل تعاون کایقین دلایا اور کہا کہ ماضی میں پارلیمنٹ اور سیاسی حکومتیں فیصلے کرتی رہی ہیں لیکن ان پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوااور پالیسیاں کہیں اور بنتی تھیں،اگر حکومت مشورہ کرلیتی تو ہم اہم تجاویز دے سکتے تھے،حکومت اگر مذاکرات کا فیصلہ کرچکی ہے تو لب و لہجہ بھی ویسا ہی اختیار کرے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان ماضی میں کئے گئے غلط فیصلوں کی وجہ سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

12 سالوں کے تسلسل میں یہ صورت حال ہمارے سامنے ہے۔جہاں پر کھڑے ہیں ۔اس حوالے سے مختلف جماعتوں کا اپنا نکتہ نظر ہے۔وطن کے لئے ان کی وفاداریوں پر شک نہیں کر سکتے۔

سب ملک کے وفادار ہیں اور ملک کے لئے سوچتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اکتوبر2008 ء میں اسی پارلیمنٹ نے متفقہ قرار داد منظور کی ۔مئی2011 ء میں دوبارہ متفقہ قرار داد منظور کی گئی ۔سابقہ دور میں دو کل جماعتی کانفرنس بلائی گئی جس کے اعلامیہ ایک جیسے تھے۔موجودہ حکومت نے بھی کل جماعتی کانفرنس بلائی جس کا مقصد ملک میں امن تھا اور اتفاق رائے پیدا کیا ۔

حکومت کو مینڈنٹ دیا گیا ۔آج بھی صورت حال ہے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی قرار دادیں اور فیصلے سامنے آئے ہیں۔سب اتفاق رائے سے آئے ہیں ۔اس کو آگے بڑھانا ہے ۔اگر اس سے ہٹ کر پالیسی بناتے ہیں تو پھر یہ اتفاق رائے متنازعہ ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے طالبان سے مذاکرات کے لئے ایک طریقہ کار وضع کر دیا ہے اگر اس سے پہلے ایک مشاورت ہو جاتی تو ہم کچھ تجاویز دے دیتے جن کا یہاں ذکر نہیں کیا جا سکتا۔

حکومت نے بیان دے دیا ہے ہم حکومت کا مکمل ساتھ دیں گے۔معاملہ آسان نہیں ہے بہت سنجیدہ ہے ۔ہمیں ابہام اور کرنا چاہیے ہم چاہتے ہیں کہ ملک کے اندر آئین اور قانون کی حکمرانی ہو۔ملک کا ہر شہری آئین اور قانون کے تحت زندگی گزارے۔انہوں نے کہا کہ فورسز ،رینجرز اور دیگر اداروں کی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں۔ملک کو درپیش صورت حال کا معاملہ قومی سیاست ہے اور فیصلہ قومی قیادت نے کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیصلوں کا مرکز پارلیمنٹ نہیں ہے۔اور لگتا ہے کہ فیصلوں کا مرکز منتخب حکومت نہیں ہے۔ فیصلے ہوتے ہیں اور بتا دیئے جاتے ہیں۔حالات نازک ہیں ۔اس وقت ملک کی سلامتی کا سوال ہے ۔مغربی سرحد پر جنگ ہو رہی ہے۔ہمیں سوویت یونین کے خاتمے اور نائن الیون کے بعد امریکہ کی اس گفتگو کو نہیں بھولنا چاہیے اور دنیا کی جغرافیائی حدود حتمی نہیں ہے۔

20 ویں صدی برطانیہ کی تھی۔21ویں صدی ہمارے تابع ہے اور جغرایائی تقسیم ہمارے تابع بنے گی ۔عالمی ایجنڈے کے حوالے سے پاکستان ایشیاء کا سب سے آسان نشانہ ہے ہم نے بہت پسماندہ ہیں۔مذاکرات ،جرگے اور پنچائیت کے کچھ آداب ہوتے ہیں ۔کبھی یہ کہہ کر نہیں بلایا جاتاکہ آؤ بدمعاش تمہاری بدمعاشی ختم کریں۔وزیر اعظم نے مذاکرات کی بات کی ہے ۔طالبان کو نہیں ۔

قوم اور پارلیمنٹ کو متوقع رہا ہے۔ہم نے ہمیشہ قومی یکجہتی کی بات کی ہے اور تنہا پرواز کی ممانعت کی ہے۔ہمیں مل کر آگے بڑھنا ہوگا ۔حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔بعد ازاں جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا وقت زیادہ لمبا یاتھوڑانہیں ہونا چاہیے بلکہ اعتدال کے ساتھ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانا ضروری ہے وزیراعظم نے کمیٹی بنا کر خود نگرانی کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جو ایک اچھا پہلو ہے ،کمیٹی پر کوئی تحفظات نہیں تمام صوبوں کے نمائندے کمیٹی میں شامل ہیں۔

بدھ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دہشت گردی کا سب سے زیادہ مسئلہ فاٹا اور بلوچستان میں ہے اور پارلیمنٹ میں اتفاق رائے سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو ترجیحی بنیادوں پر منظور کیا ہے اور تمام جماعتوں نے وزیراعظم کے اس اقدام کی تائید بھی کی ہے کیونکہ ملکی حالات جیسے بھی ہوں قوم کے سامنے پارلیمنٹ کو جواب دینا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ابھی ابتداء ہورہی ہے آگے بڑھ کر اس پالیسی کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کمیٹی کی خود نگرانی کی یقین دہانی کرائی ہے اس سے اچھا پہلو سامنے آیا ہے کمیٹی پر کوئی تحفظات نہ ہیں اگر کسی کو اعتراض تھا تو وزیراعظم کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیتے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں غیر ضروری وقت دینا جلد بازی ٹھیک نہیں ہے بلکہ اعتدال کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔