اصل مذاکرات حکومت اور طالبان نمائندوں کے درمیان ہونگے،ہم صرف رابطہ کار ہیں،ارکان حکومتی کمیٹی، کچھ لوگ جنگ بندی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرینگے لیکن ہمیں مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے جنگ بندی کرنی چاہیے،رستم شاہ مہمند،وزیراعظم کی درخواست پر امن کمیٹی میں شمولیت اختیار کی،رحیم اللہ یوسفزئی،حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل کھلے دل سے کرنا چاہتی ہے، عرفان صدیقی ،تحریک طالبان پنجاب کا وزیراعظم محمد نواز شریف کے مذاکرات کے فیصلے کا خیر مقدم،حکومت کی طرف سے مذاکراتی ٹیم کے اعلان کا شوری اجلاس میں سنجیدگی سے جائزہ لینگے،کالعدم تحریک طالبان، ہم سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں، ماضی میںآ نے والے قاصدوں کا احترام کیا اور ان کو مثبت جواب دیے ہیں،شاہد اللہ شاہد

جمعرات 30 جنوری 2014 08:07

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30جنوری۔2014ء) وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے قائم کی جانیوالی چار رکنی کمیٹی کے ارکان نے کہا ہے کہ اصل مذاکرات حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان ہونگے،ہم صرف رابطہ کار ہیں ۔بدھ کو یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امن کمیٹی کے رکن و معروف تجزیہ کار رستم شاہ مہمند نے کہا کہ قبائلی علاقے کے لوگ امن کو ترس رہے ہیں کچھ لوگ جنگ بندی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرینگے لیکن ہمیں مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے جنگ بندی کرنی چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ طالبان اگر مذاکرات میں سنجیدہ ہیں انہیں مثبت جواب دینا چاہیے اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نمائندوں پر ا عتماد کریں ۔ رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ حکومتی موقف واضح ہونا چاہیے اور مذاکرات کیلئے کچھ چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے مذاکرات سے قبل کسی علاقے پرحق تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ حکومت کا مذاکرات کیلئے طالبان کو ایک اور موقع دینا حکومتی کمزوری نہ سمجھا جائے دوسری جانب امن کمیٹی کے دوسرے رکن رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی درخواست پر امن کمیٹی میں شمولیت اختیار کی ہم حکومت کی نمائندگی کرینگے سرکاری لوگ ہماری معاونت کریں کمیٹی کے ارکان صرف رابطہ کار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کمیٹی میں شمولیت کی درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ کمیٹی میں سرکاری لوگ شامل کریں۔ وزیراعظم کے بار بار کہنے سے میں انکار نہ کرسکا حکومت سمجھتی ہے کہ کمیٹی کے ارکان دونوں فریقین کی رائے ایک دوسرے تک پہنچا سکتے ہیں اور ہمارے رابطہ کار بن سکتے ہیں ۔وزیراعظم کے مشیر اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے قائم کردہ کمیٹی کے رکن عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل کھلے دل سے کرنا چاہتی ہے‘ موجودہ حکومت دہشت گردی کی رات سے صبح کی متلاشی ہے طالبان کو حکومت کی سنجیدگی کا مثبت دینا چاہیے۔

اور دوسری جانب سے اس حوالے سے پیش رفت ہونی چاہیے۔ کمیٹی کا موجودہ مینڈیٹ طالبان کے ساتھ بات چیت کا عمل شروع کرنا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مینڈیٹ میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ کمیٹی مکمل طورپر فیصلہ کرنے کی مجاذ ہے۔ تمام اداروں کی اسے بھرپور حمایت حاصل ہے۔ بدھ کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف طالبان کے ساتھ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے خواہاں ہیں اور وہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے قبل بھی ان کے حامی تھے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے قائم کمیٹی کے موجودہ ارکان سے اس حوالے سے تبادلہ خیال کیا کرتے تھے انہوں نے کہا کہ طالبان کو حکومت کی اس سنجیدہ کوشش کا مثبت جواب دینا چاہیے۔

تاکہ ملک کو دہشت گردی کے عذاب سے نجات دلائی جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نیک نیتی کے ساتھ دہشت گردی کی شام سے صبح کو تلاش کرنا چاہتی ہے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت مذاکراتی عمل میں خدشات کو نظر انداز کرکے اور ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنا چاہتی ہے ان کا کہنا تھا کہ مذاکراتی کمیٹی کے تینوں کا تعلق صوبہ خیبرپختونخواہ سے ہے اور وہ تجربہ کار اور رابطوں کی حامل شخصیات ہیں۔

یقیناً وہ اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کے قیام اور تمام اداروں کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور یہ فیصلے کرنے کی مجاذ ہے اس کے علاوہ معاشرے کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کمیٹی کے قیام پر منفی تبصرہ نہیں کیا اور طالبان کے بعض گروپوں کی جانب سے بھی اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ کمیٹی کامینڈیٹ طالبان کے ساتھ روابط استوار کرنا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمیٹی کے مینڈیٹ میں اضافہ ہوتا جائے گا انہوں نے کہا کہ دوسری طرف سے بھی کمیٹی مذاکرات کیلئے نام آنے چاہئیں انہوں نے کہا کہ کمیٹی کے ارکان کے رابطہ نمبر مشتہر کردیئے جائیں گے اور کوئی بھی شخص اس حوالے سے رابطہ کر سکے گا ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے علیحدگی کرنے یا نہ کرنے بارے فیصلہ حکومت نے کرنا ہے کمیٹی اس بارے میں فیصلے کی مجاذ نہیں۔

ادھرتحریک طالبان پنجاب نے وزیراعظم محمد نواز شریف کے طالبان سے مذاکرات کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے‘ میڈیا رپورٹس کے مطابق تحریک طالبان کے رہنماء عصمت الله معاویہ نے کہا ہے کہ ملکی بقا اور تحفظ کا واحد راستہ مذاکرات ہیں‘ ہمیشہ مذاکرات کی حمایت کی ہے‘ تحریک طالبان مرکزی شوریٰ بھی مذاکرات کا فیصلہ کر چکی ہے وزیراعظم کا مذاکرات کا فیصلہ سنجیدگی کا مظہر ہے ‘ کمیٹی میں سنجیدہ اور حالات سے باخبر لوگ شامل ہیں توقع ہے حکومتی ٹیم طالبان کے موقف کو سنے گی۔

جبکہ کالعدم تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے مذاکراتی ٹیم کے اعلان کا شوری اجلاس میں سنجیدگی سے جائزہ لینگے۔ مذاکرات کے حوالے سے تحریک طالبان پاکستان کا موقف پاکستان کے مسلمانوں پرواضح ہو چکا ہے کہ ہم سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں، ماضی میںآ نے والے قاصدوں کا احترام کیا ہے اور ان کو مثبت جواب دیے ہیں۔

جاری پریس ریلیز میں انہوں نے کہا کہ اس پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ تحریک طالبان کے امیر مولانا فضل اللہ مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں ،تحریک طالبان کے تمام حلقے امیر کی امارت و قیادت میں متحد اور یکجا ہیں اور تمام امور میں انکے فیصلوں کی مکمل اطاعت کرتے ہیں۔ اگر مذاکرات کے بامعنی اصطلاح کو الزامات اور دھوکے کی سیاست سے پاک رکھا جائے تو امن کا قیام زیادہ مشکل نہیں ہے،اس بابت وانا، جنوبی وزیرستان اور سوات کے معاہدوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے تاکہ ان تمام اسباب کے خاتمے کی ٹھوس بنیادوں پر مخلصانہ کوشش کی جائے جن کی بنا پر حکومت اور طالبان کے درمیان معاہدوں کو ناکام بنا یا جاتا رہا ہے۔

گیارہ سال سے قبائل کے مظلوم مسلمان امریکہ کی ایما پر شروع کی جانے والی جنگ میں پس رہے ہیں ، لال مسجد ،سوات ووزیرستان سمیت اسلام سے محبت رکھنے والے مسلمانوں پرہر جگہ فوج کشی کی گئی،امریکی خوشنودی توحاصل ہونے سے رہی اپنا سب کچھ ضرورداؤ پر لگ گیا ،کشمیر اور دہلی کی فتح کے ضامن غیور قبائل اپنے ہی ملک کے ظالم حکمرانوں کے خلاف لڑنے پر مجبور ہوئے۔

تحریک طالبان پاکستان نے ہمیشہ اس مسئلے کو مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی ، لیکن مشرف اور زرداری کی حکومت نے مذاکرات کو ہمیشہ جنگی ہتھیار کے طور پر ہی استعمال کیا جسکی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوئے اور جنگ کی راہ ہی ہموار ہوئی،لہذا ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جو اعتماد اور اخلاص کا ماحول فراہم کرے۔ حکومت کے فیصلے کو سنجیدہ لیا ہے،تحریک طالبان کی مرکزی شوریٰ حکومت کے فیصلے کا باریک بینی سے جائزہ لیکر چند دنوں میں اپنے موقف سے پاکستان کے مسلمانوں کو آگاہ کرے گی۔