وزیراعظم کا ایک بار پھر طالبان سے مذاکرات کا اعلان،چار رکنی کمیٹی تشکیل دیدی، قوم پردہشت گردی کا عذاب ایک غیر آئینی حکومت اورایک آمر کے فیصلوں کا نتیجہ ہے،سیاسی قیادت اپنی آراء اور تجاویز دے ہم مل کر مسائل حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں،حکومت کا بنیادی فریضہ ہے کہ عوام کو خوف سے نجات دلائے، اُن کو جان کا تحفظ حاصل ہو،پاکستان سے سعودی عرب تک تمام علما متفق ہیں کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں،مذاکرات کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں کو فوری طور پر بندہوجانا چاہیے کیونکہ مذاکرات اور دہشت گردی سا تھ ساتھ نہیں چل سکتے ،وزیراعظم نوازشریف کا قومی اسمبلی میں پالیسی بیان، 4رکنی کمیٹی میں عرفان صدیقی  میجر عامر  رحیم اللہ یوسفزئی اور رستم شاہ مہمند شامل

جمعرات 30 جنوری 2014 08:07

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30جنوری۔2014ء)وزیراعظم محمد نوازشریف نے ایک بار پھر طالبان سے مذاکرات شروع کرنے اور اس مقصد کیلئے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم دہشت گردی کا یہ عذاب گزشتہ چودہ سال سے برداشت کر رہی ہے۔بنیادی طور پر یہ ایک غیر آئینی حکومت اورایک آمر کے فیصلوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے پاکستان کو فساد کا گھر بنا دیا۔

سیاسی قیادت اپنی آراء اور تجاویز دے ہم مل کر مسائل حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں،دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکومت ایک واضح موقف اور حکمت عملی تک پہنچ چکی ہے۔حکومت کا بنیادی فریضہ ہے کہ عوام کو خوف سے نجات دلائے۔ اُن کو جان کا تحفظ حاصل ہو۔کوئی ہاتھ ان کی عزت و آبرو یا ان کے مال کی طرف نہ اُٹھے۔

(جاری ہے)

اسلام میں ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔

ایک عام پاکستانی با خبر ہے کہ یہ رویہ اسلام کے احکامات کے خلاف ہے اور دنیا کا کوئی مفتی اور عالم اس کے جواز کا فتویٰ نہیں دے سکتا۔ پاکستان سے لے کر سعودی عرب تک، تمام علما متفق ہیں کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔مذاکرات کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ مکمل نیت نیتی کے ساتھ اس عمل کا آغاز کیا جائے جس کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں کو فوری طور پر بند کر دیا جانا چاہیے ۔

مذاکرات اور دہشت گردی سا تھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔ وہ بدھ کو قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے میں ایک 4رکنی کمیٹی کا اعلان کررہا ہوں جس میں عرفان صدیقی  میجر عامر  رحیم اللہ یوسفزئی اور رستم شاہ مہمند شامل ہونگے۔ چوہدری نثار وزیر داخلہ جوکہ مذاکراتی عمل کے فوکل پرسن ہیں  کمیٹی کی معاونت کریں گے ۔

میں خود براہ راست مذاکراتی عمل کی نگرانی کرونگا ۔ میں یہ سب نیک نیتی سے کررہا ہوں ۔ آگ اور بارود کا یہ کھیل اب ختم ہونا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ میں آپ کا اور آپ کی معرفت سے تمام ایوان کا شکر گزار ہوں کہ مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا موقع فراہم کیا گیا ۔ ملک کو درپیش مسائل  چیلنجز اور مشکلات کے حوالے سے حکومت کی کوششوں اور نتائج کے بارے میں پھر کسی وقت ایوان کو اعتماد میں لونگا ۔

آج میری معروضات صرف دہشت گردی کے بڑے مسئلے تک محدود رہیں گی ۔دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکومت ایک واضح موقف اور حکمت عملی تک پہنچ چکی ہے۔ مجھے اس پر آپ کی وساطت سے آج اپنی قوم کو اعتماد میں لینا ہے۔ جمہوریت درحقیقت مشاورت اور عوام کے مفاد کی ترجمانی کا نام ہے۔ دہشت گردی کے مسئلے پر ہم نے تمام متعلقہ حلقوں سے مشاور ت کی۔ اے پی سی میں تمام سیاسی جماعتوں کی رائے لی گئی ۔

میں تمام ریاستی اداروں کے ذمہ داران سے مسلسل رابطہ میں رہا ۔ اہل فکر و دانش سے بھی میں مشورہ لیتا رہا۔میں نے منتخب نمائندوں سے بھی بات کی۔ اس اجتماعی دانش کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت جس نتیجے تک پہنچی ہے میں آج اس میں پوری قوم کو شریک کر رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ اقتدار الله تعالیٰ کاکرم اور عوام کی امانت ہے۔ہم اپنے کاموں کے لیے اپنے رب اور پھر پاکستان کے عوام کو جواب دہ ہیں۔

عوام کے جان و مال کا تحفظ اور امن کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری اور آئین کا تقاضا ہے۔ یہی ہمارے مذہب کی تعلیم بھی ہے۔ اس لیے یہ حکومت کا بنیادی فریضہ ہے کہ عوام کو خوف سے نجات دلائے۔ اُن کو جان کا تحفظ حاصل ہو۔کوئی ہاتھ ان کی عزت و آبرو یا ان کے مال کی طرف نہ اُٹھے۔انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کے عوام اور ادارے دہشت گردی کی زد میں ہیں۔

عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہمارے معصوم بچے مر رہے ہیں۔معاشرہ خوف کے حصار میں ہے۔ میں اسے اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ عوام کے جان و مال کو ہر قیمت پر تحفظ دیا جائے اور یہ حکومت کی پہلی ترجیح ہو۔آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو لوگ عوام کے جان و مال سے کھیل رہے ہیں وہ کس حد تک اسلامی اقدار اور تعلیمات کی پیروی کررہے ہیں۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام میں ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔

ایک عام پاکستانی با خبر ہے کہ یہ رویہ اسلام کے احکامات کے خلاف ہے اور دنیا کا کوئی مفتی اور عالم اس کے جواز کا فتویٰ نہیں دے سکتا۔ پاکستان سے لے کر سعودی عرب تک، تمام علما متفق ہیں کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسلام تو جان و مال کے احترام میں مذہبی امتیاز کو بھی قبول نہیں کرتا۔ وہ ہر انسان کی جان کو محترم قرار دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ الله کی آخری کتاب قرآن مجید میں قصاص کا حکم ہے۔ یہ ریاست کا فرض ہے کہ اگر کسی کی جان ناحق لی گئی ہو تو ریاست مظلوم کی دادرسی کرے۔ الله کے آخری رسول حضرت محمدﷺ نے اپنے آخری خطبے میں اسی کی تاکید فرمائی: آپ نے ایک لاکھ سے زائد صحابہ ِ کرام کے اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا: یہ کون سا مہینہ ہے؟۔ کیا یہ حج کا مہینہ نہیں ہے؟ سب نے جواب دیا: یا رسول الله یہ حج کا مہینہ ہے۔

پھر آپ نے پوچھا۔ آج کون سا دن ہے؟ کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟ سب نے کہا! جی ہاں یا رسول لله۔ پھر آپ نے پوچھا:یہ کون سا شہر ہے؟ کیا یہ شہرِ امن نہیں ہے۔ سب نے کہا جی ہاں یا رسوللله۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: تمہارا خون، تمہارا مال، تمہاری عزتیں اسی طرح محترم ہیں جس طرح یہ مہینہ، یہ دن، اور شہرِ مکہ محترم ہیں۔ اسی بات کو آپ نے ایک اور موقع پر یوں بیان کیا کہ انسانی جان کی حرمت بیت الله کی حرمت سے زیادہ ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ انسانی جان کے احترام میں ،اس سے بڑی بات نہیں کہی جا سکتی جو ہمارے پیارے رسول نے فرمائی ہے۔یہی بات ہماراآئین بھی کہتا ہے۔ اس لیے ہر پاکستانی کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت حکومت کی دینی اور آئینی ذمہ داری ہے اوروہ اس سے صرفِ نظر نہیں کرسکتی۔آپ جانتے ہیں کہ قوم دہشت گردی کا یہ عذاب گزشتہ چودہ سال سے برداشت کر رہی ہے۔

بنیادی طور پر یہ ایک غیر آئینی حکومت اورایک آمر کے فیصلوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے پاکستان کو فساد کا گھر بنا دیا۔ ہم نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے ان فیصلوں سے کھلا اختلاف کیا۔ ہمارا نقطہٴ نظر دوٹوک تھا: پاکستان کا مفاد سب پر مقدم ہونا چاہیے اور ہر فیصلے میں ملک و قوم کو اولیت دی جانی چاہیے۔ آمریت کی پہلی ترجیح اقتدار کو بچانا ہوتی ہے۔ اس مفاد کی آبیاری کرتے ہوئے ملک کو فتنہ و فساد کے حوالے کر دیا گیا۔

آج ہم وہی فصل کاٹ رہے ہیں جو ایک آمر کے دور میں بوئی گئی تھی۔وزیراعظم نے کہا کہ اس دہشت گردی نے ہزاروں پاکستانیوں کی جان لے لی ۔اس میں عام شہری شامل ہیں اور پاک فوج  پولیس اور سیکورٹی فورسز کے افسراور جوان بھی ۔ علما بھی شامل ہیں اور اقلتیں بھی ۔خواتین بھی شامل ہیں اور بچے بھی ۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کے باوجود ہم نے ایسے عناصر کو موقع دیا کہ وہ امن کا راستہ اختیار کریں۔

پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے اے پی سی نے حکومت کو یہ اختیار دیا کہ وہ ان لوگوں سے مذاکرات کرے جو ہتھیار اُٹھائے ہوئے ہیں۔ہم نے انہیں مذاکرات کی دعوت دی۔یہ مذاکرات کس لیے تھے؟ اسی لیے کہ وہ عام شہریوں کے جان ومال سے نہ کھیلیں، زمین میں فساد برپا نہ کریں اور پاکستان کے آئین کی پاسداری کریں۔ بدقسمتی سے حکومت کی اس خیر خواہی کا مثبت جواب نہیں ملا۔

انہوں نے اعلانیہ مذاکرات سے انکار کیا بلکہ مسلسل پاکستانی فوج اور عوام کو اپنا ہدف بنائے رکھا۔اے پی سی کے اس فیصلے کے بعدکیا ہوا ؟۔میجر جنرل ثنا ء اللہ نیاز ی اور پاک فوج کے جوانوں کو شہید کر دیا گیا اور فخر کے ساتھ اس کی ذمہ داری قبول کی گئی۔پشاو ر کے ایک چرچ پر حملہ کیا گیا اور ہمارے بے گناہ مسیحی بہنوں اور بھائیوں کو قتل کر دیاگیا۔

بنوں اور آراے بازار راولپنڈی میں معصوم شہریوں اور پاک فوج کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا۔قصہ خوانی بازار پشاور میں قتل عام کیا گیا۔ہنگو میں اعتزاز حسن اور چھ بچوں کو شہید کیا گیا۔جو لوگ بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلا کر انہیں عمر بھر کی معذوری سے بچا رہے ہیں، انہیں مارا جارہا ہے۔میڈیا کے کارکنوں کو قتل کیا جارہا ہے۔اے پی سی کے بعد دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے۔

سینکڑوں افراد شہید ہوئے۔ہزاروں زخمی ہوئے۔ ان میں بچے تھے، عورتیں تھیں،بزرگ تھے، جوان تھے۔ یہ وحشت ہے جسے اسلام گوارا کرتا ہے نہ دنیا کاکوئی قانون اور مذہب۔ حکومت نے اس کے باوجود صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ دہشت گردی کاہر واقعہ میرے لیے تکلیف دہ تھا۔ میں اُس ماں کے دکھ کو جانتا ہوں جسے اپنے جوان بیٹے کی لاش کو بوسہ دینا پڑے۔

میں اُس باپ کے غم کو سمجھتا ہوں جسے اپنا بیٹا اپنے ہاتھ سے قبر میں اتارنا پڑا۔ میں نے سکول یونیفارم میں ملبوس پھولوں جیسے ان معصوم بچوں کو دیکھا ہے جن کے وجود خون میں نہلا دیے گئے!میرے نزدیک ہر ماں ایک جیسی ہے۔ وہ فاٹا میں ڈرون حملے میں نشانہ بننے والے کسی بے گناہ بچے کی ماں ہو یا پشاور اور راولپنڈی میں خودکش حملے کی نذر ہونے والے کسی مبشر کی ماں ہو۔

سب کا دکھ میرا دکھ ہے اور میں اسے محسوس کرتا ہوں۔ڈرون حملوں کو رکوانے کے لیے حکومت جو کچھ کر سکتی ہے، وہ کر رہی ہے لیکن ہم ان لوگوں کی کاروائیوں سے بھی صرف نظر نہیں کرسکتے جو ڈرون حملوں کو جواز بنا کر بے گناہ پاکستانیوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔کیا ڈرون حملے پاکستان کے عوام کررہے ہیں؟کیا سکول جانے والے وہ معصوم بچے اس کے ذمہ دار تھے جن کو خود کش حملوں میں مار دیا گیا؟اس موقف کو اخلاق مسترد کرتا ہے،قانون مسترد کرتا ہے اوردین مسترد کرتا ہے۔

اس صورت حال کو اب مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ معصوم شہریوں کا قتل عام کسی طرح قابل قبول نہیں۔ پاکستان کی ساکھ پر دنیا سوال اٹھا رہی ہے ۔ ہمارے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔ ہم ملک اور قوم کو دہشت گردوں کا یرغمال نہیں بنا سکتے۔ امن ہمارا انتخاب نہیں، ہماری منزل ہے۔ اسے ہر قیمت پر حاصل کیا جائے گااوراس کے لئے تمام قوم یک سو ہوچکی ہے۔مجھے علم ہے کہ آج اگر ریاست طاقت کے ساتھ دہشت گردوں کاخاتمہ کرنا چاہے تو پوری قوم اس کی پشت پر کھڑی ہوگی  تاہم اب جبکہ دوسری طرف سے مذاکرات کی پیش کش سامنے آچکی ہے ہم ماضی کے تلخ تجربات کو پس پشت رکھتے ہوئے پر امن حل کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں ۔

مذاکرات کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ مکمل نیت نیتی کے ساتھ اس عمل کا آغاز کیا جائے جس کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں کو فوری طور پر بند کر دیا جانا چاہیے ۔ مذاکرات اور دہشت گردی سا تھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔ اس نکتہ پر ریاست کے تمام ادارے بھی یکسو ہیں اور پاکستان کے عوام بھی ۔ ہمارا یہ مشترکہ قومی مشن ہے اور ہم سب کو پورے خلوص کے ساتھ اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔

شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی بنیاد ی ذمہ داری ہے۔ میں نے قوم کے نام اپنی تقریر میں یہ کہا تھا کہ ہم مزید اپنے بچوں کی لاشیں نہیں اٹھا سکتے ۔ لیکن ہم امن کی خواہش اور مذاکرات کی جستجو میں 7ماہ تک یہ لاشیں اٹھاتے رہے ہیں ۔امن کی اس خواہش کے تحت حکومت مذاکرات کی راہ ہموار کررہی ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ میں تمام دوستوں  اپوزیشن لیڈران اور اُن تمام افراد کا  جنہوں نے ہماری رہنمائی کی ہے کا نہایت مشکور ہوں ۔

اے پی سی میں یہ بات طے ہوئی تھی کہ ہم چند امو رپر سیاست نہیں کرینگے جس میں دہشت گردی بھی شامل تھی ۔ میں تمام سیاسی قوتوں سے اُمید کرتا ہوں کہ وہ اس بات کونبھائیں گے ۔ میرے جذبات بھی ایک عام پاکستانی کی طرح ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نیک نیتی اور خلوص سے آگے بڑھونگا ۔ آپ ہماری رہنمائی کریں ۔ غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن اُن کی نشاندہی اور اصلاح آپ کا حق ہے ۔جن اپوزیشن رہنماؤں نے ہماری پالیسی کے حوالے سے مثبت بات کی ہے میں اُن کا مشکور ہوں اور جنہوں نے تنقید کی ہے  مجھے یقین ہے کہ وہ بھی انہوں نے نیک نیتی اور خلوص سے کی ہے ۔ میں اُن کا بھی مشکور ہوں ۔