دفاع کیلئے دن رات کوشاں اداروں کو حکومت بجٹ فراہم کرنے کیلئے آسان طریقہ کار اختیار کرے،سینٹ کی دفاعی پیداوار کمیٹی کی سفارش، دہشت گردی کی جنگ کے مقابلہ کیلئے 79 ملین کا اسلحہ منگوایا گیا جو اپنے دفاعی اداروں سے حاصل کیا جاسکتا تھا، کولیشن فنڈز کے بند ہونے سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا، دفاعی پیداواری اداروں کا کنٹرول حکومت پاس رکھے، خودمختاری سے دفاعی پیداواربڑھ سکتی ہے،سعودی عرب جے ایف 17تھنڈر طیاروں میں دلچسپی ظاہر کر رہا ہے،چین سے ایک سو دس خالد ٹینک بنانے کا معاہدہ ہوا ہے لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے،کمیٹی کو مختلف اداروں کے سربراہوں کی بریفنگ

بدھ 29 جنوری 2014 08:12

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔29جنوری۔2014ء ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیدا وار نے سفارش کی ہے کہ پاکستان کے دفاع کیلئے دن رات کوشاں اداروں کو حکومت بجٹ فراہم کرنے کیلئے آسان طریقہ کار اختیار کرے جبکہ دفاعی پیداوار کے حکام نے بتایا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ کے مقابلہ کیلئے 79 ملین کا اسلحہ منگوایا گیا جو اپنے دفاعی اداروں سے حاصل کیا جاسکتا تھا، کولیشن فنڈز کے بند ہونے سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا۔

دفاعی پیداواری اداروں کا کنٹرول حکومت اپنے پاس رکھے لیکن اداروں کو خودمختاری کے ذریعے دفاعی پیداوار میں اضافہ زیادہ ممکن ہے۔سعودی عرب جے ایف 17تھنڈر طیاروں میں دلچسپی ظاہر کر رہا ہے،ایف سیون، ایف ایٹ، وائی 12، ایف ٹی 6 اور کوبرا ہیلی کاپٹر بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی گئی ہے۔

(جاری ہے)

الخالد ٹینک کی نئی پیشکش دی جارہی ہے اور چین سے ایک سو دس خالد ٹینک بنانے کا معاہدہ ہوا ہے لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے، حکومت کی طرف سے ایڈوانس بجٹ دینے سے پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔

کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس منگل کو یہاں چیئر پرسن ڈاکٹر سعیدہ اقبال کی صدارت میں ہوا۔ جس میں سینیٹرز رضا ربانی، حاصل بزنجو، داؤد خان اچکزئی، مشاہد اللہ خان کے علاوہ وزارت دفاعی پیداوار کے سیکرٹری کے علاوہ تمام دفاعی اداروں کے سربراہان موجود تھے۔پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ، ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا، ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ اور کراچی شپ یارڈ کے سربراہان نے دفاعی پیداوار کے ان اداروں کی پیداوار، صلاحیت ، کارکردگی اور نئے جدید سائنسی طریقوں کے استعمال اور تحقیق کے بارے میں تفصیلی بریفننگ دی۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ افواج پاکستان اور امن و امان کے اداروں کے اہلکاران کو دفاعی پیدا وار کے اداروں کی تیار کردہ دس ہزار بلٹ پروف جیکٹس فراہم کی گئی ہیں اور اے پی سیز کے پرزہ جات بھی پاکستان میں بننا شروع ہوگئے ہیں۔ حکام نے بتایا کہ ملک میں پچاس ٹینک سالانہ بنانے کی صلاحیت موجود ہے ،تین سو خالد ٹینک اور پندرہ سو اٹھانوے ٹینک گن سیریز بھی بنائی جارہی ہیں اور سو اے پی سیز بنائی جاچکی ہیں۔

کمیٹی کو بتا یا گیا کہ جے ایف تھنڈر 17طیاروں کی دوبارہ تیاری کیلئے 80 ملین سالانہ درکار ہیں۔ دفاعی اداروں میں اعلی تربیت یافتہ اہلکاران و افسران کی ریٹائرمنٹ کے بعد خالی ہونے والی آسامیوں پر بھرتی کیلئے حکومت سے پابندیاں اٹھانے کی درخواست کی تھی۔ سندھ اور پنجاب پولیس کو دہشت گردوں سے مقابلہ کیلئے طلحہ ٹینک فراہم کیے گئے ہیں۔332 لائٹ محافظ گاڑیاں تیار کی گئی ہیں جو مکمل محفوظ ہیں۔

سٹیل بلٹ والی گاڑیوں کی چالیس ملی میٹر چادر کو ساتھ لیول کردیا گیا ہے۔ افواج پاکستان اور امن و امان کے اداروں کے اہلکاران کو دفاعی پیدا وار کے اداروں کی تیار کردہ دس ہزار بلٹ پروف جیکٹس فراہم کی گئی ہیں اور اے پی سیز کے پرزہ جات بھی پاکستان میں بننا شروع ہوگئے ہیں۔کمیٹی کو آگاہ کیاگیا کہ امریکہ نے اے پی سی کا ماڈل ختم کردیا تھا لیکن پاکستان نے اسے ری بلڈ کرکے اسے بہتر ماڈل تیار کرلیا ہے اور گزشتہ سالوں میں آئی پی ایس اور محافظ گاڑیاں اور بینکرز عراق کو فروخت کرکے بھاری زرمبادلہ حاصل کیا گیا۔

ملک میں یکیورٹی فورسز کیلئے پستول سے لیکر جہاز تک دفاعی اداروں میں تیار کیے جاتے ہیں جبکہ 48 دوست ممالک کے ساتھ معاہدات کے ذریعے دفاعی سامان فروخت کیا جاتا ہے۔ جی ۳ سنائپر گن اور اے کے ۴ سیون پاکستان کی تیار کردہ ریفل اور کلاشن کوف چین سے بہتر ہے۔ دہشت گردی کی جنگ کے مقابلہ کیلئے 79 ملین کا اسلحہ منگوایا گیا جو اپنے دفاعی اداروں سے حاصل کیا جاسکتا تھا۔

سربراہان نے بتایاکہ اسلحہ کی تیاری میں چھ سے آٹھ ماہ درکار ہوتے ہیں تاہم اگر حکومت کی طرف سے ایڈوانس بجٹ دیا جائے تو پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔ دفاعی ادارے اور وزارت بجٹ میں اضافے کیلئے کوشاں ہیں۔ کولیشن سپورٹ فنڈ سالہا سال سے تاخیر کا شکار ہے جو صرف فورسز کی لاجسٹک ٹروپس کی مدد کیلئے دیا جاتا ہے۔ کولیشن فنڈز کے بند ہونے سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا۔

دفاعی پیداواری اداروں کا کنٹرول حکومت اپنے پاس رکھے لیکن اداروں کو خودمختاری کے ذریعے دفاعی پیداوار میں اضافہ زیادہ ممکن ہے۔ امریکہ یورپ اور دنیا میں دفاعی پیداوار کا تیار کردہ اسلحہ اوپن مارکیٹ میں فروخت کی اجازت ہے۔ ایف 6 کی اورہالنگ کرلی گئی ہے۔ ایف سیون، ایف ایٹ، وائی 12، ایف ٹی 6 اور کوبرا ہیلی کاپٹر بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی گئی ہے۔

پاکستان کے بنائے گئے سپر مشاق طیارے دنیا کے بیشتر ممالک استعمال کررہے ہیں۔ میراج 3 کے چار اقسام کے انجنوں کی اوورہالنگ کی جارہی ہے۔ ریڈار وارنگ سسٹم میں ڈیجیٹل آڈیو ویڈو کریش اور بلیک بکس کی اعلی صلاحیت کے ذریعے دنیا کے چھ ممالک میں شامل ہو چکے ہیں۔ جے ایف 17تھنڈر ائیر کرافٹ کی سہولت سعودی عرب حاصل کررہا ہے۔ وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ کی سمری کا وزیراعظم سے منظور کے بعد دوبارہ نظر ثانی منظوری کے طریقہ کار کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔

کراچی شپ یارڈ میں نیوی کے دو جہاز اور ایک فریگٹ تیار کرلیے ۔ پاکستان آرمی کے ایلومنیم بوٹ تیار کی جارہی ہیں۔ فاسٹ اٹیک کرافٹ میزائل کی پاکستان نیوی کو فراہمی ہو چکی اور سمندر میں آلودگی کے خاتمے کیلئے سائنسی بنیادوں پر کام ہورہا ہے۔ ممبران کمیٹی نے متفقہ طور پر دفاعی اداروں کی کارکردگی ، پیداوار اور صلاحیت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ چیئرپرسن ڈاکٹر سعیدہ اقبال نے دفاعی پیداوار کے اداروں کی صلاحیتوں میں مزید اضافے کیلئے خصوصی فنڈز کے اجراء کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دفاع کیلئے دن رات کوشاں اداروں کو حکومت بجٹ فراہم کرنے کیلئے آسان طریقہ کار اختیار کرے ۔