آئین کو توڑنے والے آئین کو نہ مان کر بھی اسی کے تحت ریلیف مانگنا چاہتے ہیں‘ اگر آئین نہیں مانتے تو پھر نظرثانی کی درخواست آئین کے تحت کیوں دائر کی؟جسٹس آصف کھوسہ، فضول قسم کے دلائل کیلئے وقت نہیں دیں گے ‘ 3 نومبر 2007ء کے اقدامات کو پارلیمنٹ نے جائز قرار نہیں دیا،چیف جسٹس، 31جولائی 2009ء کا فیصلہ تعصب پر مبنی ہے کیونکہ افتخار چوہدری میرے موکل کیخلاف تھے،ابراہیم ستی کے دلائل، آپ نے توایک ہی برسٹ سے 14 ججز کو گھائل کردیا اور متعصب بنا دیا، جسٹس آصف سعید

بدھ 29 جنوری 2014 08:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔29جنوری۔2014ء)سپریم کورٹ میں 3نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے خلاف 31 جولائی 2009ء کے فیصلے پر سابق صدر پرویز مشرف کی نظرثانی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ آئین کو توڑنے والے آئین کو نہ مان کر بھی اسی کے تحت ریلیف مانگنا چاہتے ہیں‘ اگر آئین نہیں مانتے تو پھر نظرثانی کی درخواست آئین کے تحت کیوں دائر کی؟ اس کا مطلب واضح ہے کہ آپ کو دوبارہ موقع ملا تو آئین کی پامالی پھر بھی کریں گے‘ جس آئین کے تحت ہم نے حلف لیا وہ آئین آپ نہیں مانتے تو ریلیف کیسے دیں‘ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دئیے کہ ٹی وی پر تو سنا تھا کہ آج یہاں پہلی بار سن رہے ہیں کہ ججوں کی وجہ سے پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی ‘ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دئیے کہ فضول قسم کے دلائل کیلئے وقت نہیں دیں گے‘ نظرثانی کی درخواست میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں ہوتی‘ 3 نومبر 2007ء کے اقدامات کو پارلیمنٹ نے جائز قرار نہیں دیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دئیے جبکہ مشرف کے وکیل ابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف کو اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کا علم تھا مگر وہ جانتے تھے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ہوتے ہوئے انہیں کبھی انصاف نہیں مل سکتاتھا‘ انہیں طالبان کی جانب سے دھمکیوں کا بھی سامنا تھا‘ ججز نے تعصب کی بناء پر فیصلہ دیا۔

اس فیصلے سے ان کے موکل کو سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ 3 نومبر 2007ء کے اقدامات عدلیہ کیخلاف تھے۔ ابراہیم ستی ایڈووکیٹ (آج) بدھ کو بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں 14رکنی لارجر بنچ نے مقدمہ کی سماعت شروع کی اور ابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ مشرف دو مرتبہ صدر مملکت اور آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہے۔

پرویز مشرف کا 12 اکتوبر 1999ء کا اقدام فاضل عدالت نے ظفر علی شاہ کیس میں درست قرار دیا۔ جنوری 2000ء میں ججوں کو پی سی او کا حلف لینے کا کہا۔ افتخار چوہدری نے بھی حلف اٹھایا۔ جسٹس افتخار چوہدری کا جسٹس ناظم صدیقی کی ریٹائرمنٹ سے کئی ماہ پہلے بطور چیف جسٹس تقرر کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اس وقت سے مارچ 2007ء تک افتخار چوہدری اور پرویز مشرف کے تعلقات خوشگوار رہے۔

پرویز مشرف نے افتخار چوہدری کیخلاف ریفرنس دائرکیا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرکے چیف جسٹس کو ریلیف دیا گیا۔ میرے موکل نے وزیراعظم کی مشاورت پر ریفرنس بھیجا۔ 9 مارچ کو ریفرنس دائر کیا گیا۔ 3 نومبر سے 15 نومبر تک ایمرجنسی قائم رہی۔ 20 جولائی کو سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی روکی۔ سینٹ اور قومی اسمبلی سمیت تمام ادارے کام کرتے رہے۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ یہ ایمرجنسی صرف عدلیہ تک تھی۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ یہ تو حکم نامہ میں لکھا ہوا تھا۔ جو عدالت کے روبرو پی سی او پیش کیا گیا اس میں بہت کچھ تبدیل کیا گیا اور وہ اصل نہیں تھا۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے افتخار چوہدری سمیت دیگر ججز کے حوالے سے مشرف کو خط لکھا۔ قومی اسمبلی نے 3 نومبر کی ایمرجنسی کی توثیق کی۔ مشرف نے بطور آرمی چیف ایمرجنسی نافذ کی اور اس میں گورنر اور کور کمانڈرز سب سے مشاورت کی گئی تھی۔

6 ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا۔ 2007ء کی ایمرجنسی کو بھی سپریم کورٹ نے 7 رکنی بنچ نے جائز قرار دیا۔ اقبال ٹکا خان کیس کی نظرثانی کی درخواست بھی خارج کردی گئی۔ 2008ء کے وجیہہ الدین کیس کے فیصلے میں مشرف کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔ اسی صدر نے ملک میں عام انتخابات کرائے ان کے قانون کے مطابق نئے انتخابات بھی کرائے گئے جس میں تمام سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔

اگست 2008ء میں انہوں نے صدر کا عہدہ چھوڑا۔ آپ خود بھی اس ساری صورتحال کو دیکھتے رہے ہیں۔ کئی ججوں نے حلف نہیں اٹھایا۔ ٹکا اقبال خان کیس کا فیصلہ 2007ء سے جولائی 2009ء تک قائم رہا سوائے اس کیس کے عبدالحمید ڈوگر کے دیگر تمام فیصلوں کو صحیح قرار دیا گیا۔ ڈوگر نے اپنا عہدہ مدت ملازمت مکمل ہونے پر چھوڑا۔ 13 مارچ کو لانگ مارچ شروع ہوا اور 16 مارچ کو وزیراعظم کے ایگزیکٹو آرڈر سے بحال ہوگئے۔

وہ عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتے رہے اور پھر چیف جسٹس کے طور پر بحال ہوئے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جس دن بحالی کے بعد واپس آئے تو ندیم احمد نامی شخص نے اکرم شیخ کے ذریعے پی سی او ججز کیخلاف درخواست دائر کی۔ وہ درخواست آج تک زیر سماعت ہے۔ اس دوران سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس میں یہ استدعاء کی گئی تھی کہ دو ججز سندھ ہائیکورٹ میں مستقبل کئے جائیں۔

پی سی او ججز کو کام سے روکنے کی بھی استدعاء کی گئی تھی۔ سندھ ہائیکورٹ میں درخواست سماعت کیلئے منظور کی گئی۔ سندھ ہائیکورٹ بار نے درخواست دائر کی جسے افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کیلئے منظور کیا بعدازاں عدالت نے ہائیکورٹ سے تمام ریکارڈ طلب کیا۔ ان درخواستوں کی سماعت 20 سے 22 جولائی تک کی گئی اور پھر 22 سے 29 جولائی تک درمیان میں وقفہ رہا۔

پرویز مشرف کو سندھ ہائیکورٹ بار میں فریق نہیں بنایا گیا بلکہ وفاقی حکومت ہی فریق تھی۔ اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی طرف سے بیان دیا کہ وہ اس کیس میں دفاع کرتے ہیں اور نہ ہی اس کیخلاف کوئی بات کرتے ہیں۔ اس دوران کی پارلیمنٹ نے اس فژصلے کو ویلڈیٹ نہیں کیا نئی پارلیمنٹ نے کیا۔ عدالت نے پرویز مشرف کو بطور پارٹی شامل ہونے کا حکم نہیں دیا بلکہ ان کو محض نوٹس جاری کیا۔

وہ لندن میں تھے۔ ان کے گھر نوٹس گیا ایک شخص محمد حسین جوکہ پرویز مشرف کا ملازم تھا‘ نے بتایا کہ وہ یہاں نہیں ہیں۔ 29‘ 30 جولائی کو دلائل سنے اور 31 جولائی 2009ء کو فیصلہ دیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پرویز مشرف کیا اس کیس سے لاعلم رہے؟ ابراہیم ستی نے کہا کہ صرف نوٹس دیا گیا تھا اس سے وہ مکمل طور پر آگاہ نہیں تھے۔ میں نے تو قانون کی بات کرنی ہے ابھی صرف ابتدائی دلائل دے رہا ہوں تفصیلات بعد میں دیں گے۔

اخبار میں اشتہار تک نہیں دیا گیا۔ جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ مشرف عدالتی سماعت سے ناواقف تھے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ وہ کیس کے حوالے سے جانتے تھے مگر ملک میں واپس نہیں آسکتے تھے۔ میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ سب جانتے تھے۔ جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ عوامی آگاہی کا بھی معاملہ آتا ہے جب سب جانتے تھے تو ان کو کیسے صحیح طور پر عمل نہیں تھا۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ براہ راست ان کو کیس کی کارروائی بارے تفصیل سے علم نہیں تھا۔

اخبارات اور ٹی وی پر مشرف کو نوٹس بھجوانے کی خبر نشر کی گئی۔ تیسرا حصہ فیصلے کا آتا ہے۔ 31 جولائی 2009ء کا مختصر فیصلہ دیا گیا اور اس کیس کو پی ایل ڈی میں الگ سے شامل کیا گیا۔ مین مینجمنٹ میں اس آرڈر کو شامل کیا گیا۔ تفصیلی فیصلے کی پیراگراف 18 میں ہدایات دی گئیں۔ 12 ہدایات اور 8 نتائج پر بات کی گئی۔ پرویز مشرف کی جانب سے آئین کی معطلی‘ غداری کے حوالے سے اس فیصلے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔

فیصلے کے آپریٹو پارٹ میں کچھ نہیں کہا گیا۔ مشرف کو غاصب اور غدار نہیں کہا گیا۔ سپریم کورٹ غداری کے مقدمے کے حوالے سے کہہ چکی ہے کہ یہ کام وفاقی حکومت کا ہے عدالت کا نہیں۔ اس فیصلے کو تسلیم کیا گیا اور کوئی نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کی گئی۔ کمیونسٹ پارٹی نے 627 افراد کو پارٹی بنایا گیا اور 598 لوگوں کیخلاف کارروائی کی استدعاء کی گئی۔

2009ء سے 2013ء تک اس درخواست پر نمبر تک نہیں لگایا گیا۔ مولوی اقبال حیدر نے سندھ ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی اور آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی استدعاء کی۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی بھی اس بنچ کا حصہ تھے جنہوں نے بطور سندھ ہائیکورٹ کے جج فیصلہ دیا۔ حیران کن فیصلہ دیا گیا۔ جب 14 رکنی بنچ خاموش تھا اور آرٹیکل 6 کی کارروائی کی بات تک نہیں کررہا تھا اس وقت انہوں نے درخواست گزار کو اجازت دی کہ وہ اس استدعاء کو بھی درخواست کا حصہ بناسکتے ہیں۔

ہم نے کچھ اضافی دستاویز اتدئیے ہیں ان میں تفصیلی معلومات درج ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کا پیرا گراف پڑھا اور کہا کہ یہ سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے ڈیکلریشن تھا ہدایت نہیں دی تھی۔ جستس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیما ور سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک ہی روز ہوا۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اکتوبر 1999ء کی ایمرجنسی ججز آفس آرڈر کو جائز قرار دیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر سندھ ہائیکورٹ نے فیصلہ صحیح نہیں دیا تھا تو کیا اس فیصلے کو کسی متعلقہ عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ ابراہیم ستی نے کہاکہ پرویز مشرف پارٹی نہیں تھے اسلئے چیلنج نہیں کیا۔ سندھ ہائیکورٹ نے 26 پیرا گراف 172 پیراگرام میں پرویز مشرف کے حوالے سے ریزرویشن دی گئی جس کی بنیاد پر ان کیخلاف غداری کا مقدمہ شروع کیا گیا۔

جہاں تک اقدامات کو غیر آئینی قرار دینے کی بات ہے تو اس حد تک تو تسلیم کرسکتا ہوں مگر اس کے آگے جو کچھ کہا گیا وہ غلط ہے۔ مختصر فیصلے سے ہم متاثر نہیں ہیں۔ پورے فیصلے کے پیرا گراف 26 میں میرے خلاف ریزرویشن دے دی گئی‘ کوئی نتیجہ نہیں نکالا گیا۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اپ صرف دو پیرا گراف حذف کرانا چاہتے ہیں تاکہ یہ آپ کے ٹرائل پر اثرانداز نہ ہوسکیں۔

آپ نے کہہ دیا ہے کہ مختصر فیصلہ‘ اقدامات کو غیر آئینی قرار دینے اور دیگر پیرا گراف سے آپ متاثر نہیں ہوئے آپ نے تو ہمارا کام آسان کردیا ہے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ وہ ابھی بات کررہے ہیں عدالت نے انہیں دونوں پیرا گراف پڑھنے کو کہا جو انہوں نے پڑھ کر سنائے۔ سپریم کورٹ نے 22 اپریل کے بعد کوئی نوٹس آیا۔ کیس شروع ہوا تو پرویز مشرف فریق نہیں تھے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمنٹ نے 3 نومبر 2007ء کے اقدامات کی توثیق نہیں‘ ابراہیم ستی نے کہا کہ طالبان کی دھمکیوں کی وجہ سے مشرف لندن میں تھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ نے ایمرجنسی کو آئین توڑنے کے مترادف قرار دیا تھا اس کیخلاف اپیل تک دائر نہیں کی گئی اس کا مطلب ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کا ڈیکرلیشن اب بھی فیلڈ میں ہے۔

ابراہیم ستی نے کہا کہ وہ فیصلہ نہیں تھا۔ جسٹس آصف نے کہا کہ ہاں وہ فیصلہ نہیں تھا صرف ڈیکلریشن تھا۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم نے سترہویں ترمیم کو ختم کردیا اور صرف انتخابات کو تحفظ دیا۔ اس طرح سے 1999ء اور 2007ء سے اقدامات کی توثیق کردی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شاید ایسا نہیں۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مشرف کو غاصب نہیں کہا اور نہ ہی غداری کا مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔

اس وقت بھی 14رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی تھی جسٹس اعجاز افضل کو بینچ کا حصہ بنایا گیا ۔ لارجر بینچ بنانے کی ہماری استدعا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مسترد کردی ۔ سابق چیف جسٹس اور پرویز مشرف کی دوستی اور دشمنی کا ریکارڈ موجود ہے ۔ چیف جسٹس نے بحالی کے بعد یہ فیصلہ دیا ۔ موجودہ وزیراعظم نواز شریف پر طیارہ ہائی جیک کرنے کا مقدمہ چلا ان کو عمر قید کی سزا دی گئی ہائی کورٹ نے سزائے موت کی سزا دی تاہم آپ نے نو سال بعد سپریم کورٹ میں ان کو اس مقدمے سے بری کردیا ۔

پراسکیوشن کہہ رہی ہے کہ تین رکنی بینچ کے روبرو چودہ رکنی بینچ کچھ نہیں ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پراسکیوشن سب کچھ کہتی ہے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ اگر ہم ٹرائل کورٹ کو کہہ دیں تو وہ میرٹ کے مطابق فیصلہ کرے اور ہمارے فیصلے سے متاثر نہ ہو تو کیا آپ مطمئن ہوں گے ۔ اس وقت 31جولائی 2009ء کا فیصلہ برقرار ہے ۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ اگر 31جولائی 2009ء کے فیصلے پر اثرانداز نہیں ہوگا تو پھر ٹکا اقبال کیس آجائے گا اس کے لیے آپ کو 31جولائی 2009ء کا فیصلہ معطل کرنا پڑے گا ۔

جسٹس آصف نے کہا کہ ٹرائل کورٹ ہمارے فیصلے سے متاثر نہ ہو جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ یہ تو بہت بڑا فیصلہ ہے کہ اگر ٹکا اقبال اور 31جولائی 2009ء کے فیصلے سے ہٹ کر میرٹ پر فیصلہ کرے صرف غداری کے مقدمے کی میرٹ پر سماعت کرے 23 مارچ 1956ء میں آرٹیکل 6 میں شامل کیا گیا تھا آرٹیکل 12 میں بھی اس حوالے سے لکھ دیا گیا تھا مقصد یہ تھا کہ یحییٰ خان کو ٹرائل ہونے سے بچایا جائے ۔

اٹھارہویں ترمیم بنانے والوں کو ہوش آیا تو خیال آیا کہ یہ غلط کام ہوا ہے ۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ 13نومبر2007ء کیس میں سارا فیصلہ ہیپرویز مشرف کیخلاف ہوا تھا ۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ ،31جولائی 2009ء ، ٹکا اقبال کیس کو بھولنے کے لیے تیار ہیں اگر کوئی آئین کو توڑے تو کیا وفاقی حکومت کو کارروائی کی اجازت ہے کہ اس کام کے لئے اسے کوئی عدالت اجازت دے ۔

جسٹس آصف نے کہا کہ اگر 1999ء میں آرٹیکل 6 نہیں تھا تو کیا آب آپ کیخلاف کارروائی نہیں ہوگی ۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ مشرف فریدی کیس میں آپ نے کہہ رکھا ہے کہ اگر صدر آئین کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کا محاسبہ ہوگا ۔ غداری کا مقدمہ نہیں چلے گا ۔ 31جولائی 2009ء کا فیصلہ کی پابندی مشرف پر عائد نہیں ہوتی کیونکہ وہ مقدمے میں فریق ہی نہیں تھا ۔ اس سے کسی کا بنیادی حق متاثر نہیں ہوا 3نومبر 2007ء اور ایمرجنسی کے حکم کو براہ راست چیلنج نہیں کیا گیا ۔

سپریم کورٹ نے اپنے اختیار کا غلط استعمال کیا کیونکہ اس کو ٹکا اقبال کیس میں پہلے ہی جائز قرار دیا گیا تھا فیصلہ کائناتی قانون کی خلاف ورزی ہے 31جولائی 2009ء کا فیصلہ تعصب پر مبنی ہے کیونکہ افتخارمحمد چوہدری میرے موکل کیخلاف تھے اور براہ راست مقدمہ کے فریق تھے یہ سب دشمنی میں کیا گیا تھا 18نومبر 2007ء کو انہوں نے خود کو بینچ سے الگ کرتے ہوئے اپنی مرضی کا بینچ قائم کیا اور مرضی کا فیصلہ حاصل کیا پورے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے ۔

قانون کی حکمرانی آرٹیکل 4،9 اور 25 کی بھی خلاف ورزی ہے اس کو گراؤنڈ سمجھیں یا پھر لاء پوائنٹ سمجھ لیں مجھے پڑھنے دیں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ نے توایک ہی برسٹ سے 14 ججز کو گھائل کردیا اور متعصب بنا دیا ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اس حوالے سے تو ٹکا اقبال کیس بھی تعصب پر مبنی ہے ۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ اپنے حوالے سے آپ خود فیصلہ نہیں کرسکتے کل کو سیشن جج اپنے حوالے سے بھی خود فیصلہ کرنے لگ جائے گا اس طرح کے کاموں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔

اٹارنی جنرل نے اس معاملے میں عدالتی معاونت کرنا تھی مگر وہ معاملے سے الگ ہوگئے کیس یکطرفہ چلتا رہا اور فیصلہ دے دیا گیا ۔ ایک موقع پر سپریم کورٹ نے فریق نہ ہونے کے باوجود مشرف کو نوٹس جاری کیا حالانکہ وہ درخواست میں فریق ہی نہ تھے پرویز مشرف کا موقف سنے بغیر فیصلہ سنا دیا گیا ۔ 31جولائی 2009ء کا فیصلہ ججز مشرف کیخلاف کارروائی کے حوالے سے خاموش ہے آرٹیکل 15(7) کے تحت بھی سپریم کورٹ حکم جاری نہیں کرسکتی تھی پانچ رکنی سپریم کورٹ بینچ بھی کہہ چکا ہے کہ وہ غداری کے مقدمے کی سماعت کا اختیار نہیں رکھتے یہ کام وفاقی حکومت کا ہے ۔

ٹکا اقبال کیس کا فیصلہ دو سال تک قائم رہا اور کوئی فیصلہ وفاقی حکوت نے نہیں کیا 31جولائی 2009ء کا فیصلہ حقائق کے بالکل منافی ہے ۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ آپ کی اپیل زائد المیعاد ہے اس پر کیا کہیں گے، ابراہیم ستی نے کہا کہ اس حوالے سے پانچ فیصلوں کا حوالہ دیا ہے چار سال پانچ ماہ درخواست زائد المیعاد ہے اس حوالے سے اپنی درخواست پڑھنا چاہوں گا ۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں نواز شریف کیس کا بھی حوالہ دیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ عرصہ آپ کو کیس کا پتہ چلنا شروع ہوگا آپ نے تاریخ نہیں دی ۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ فیصلہ کا پتہ چل گیا تھا پرویز مشرف نامناسب حالات اور طالبان کی دھمکیوں کی وجہ سے ملک سے باہر چلے گئے تھے اوریہی گراؤنڈ نواز شریف نے اپنی درخواست میں بھی دی تھی ۔

جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ مشرف کب ملک سے باہر گئے ابراہیم ستی نے کہا کہ اس وقت تاریخ نہیں ہے بعد میں دے دونگا ۔ افتخار محمد چوہدری کے ہوتے ہوئے مجھے انصاف نہیں ملتا تھا اس لئے وہ نہیں آئے نواز شریف بھی جسٹس ڈوگر کی وجہ سے نہیں آئے تھے جسٹس آصف سعید نے کہا کہ ابھی بھی اس میں موجود ججز آج بھی ہیں ۔ اس پر ابراہیم ستی نے کہا کہ وہ ججوں کو بینچ سے الگ ہونے کا نہیں کہتے وہ خود اپنے بارے فیصلہ کرسکتے ہیں ۔

31جولائی 2009ء کا فیصلہ ختم نہ کیا گیا تو غداری کے مقدمے میں اس کیخلاف استعمال ہوگی اور ان کو سزائے موت دی جاسکتی ہے آپ کہتے تو ہیں مگر دنیا کاکوئی شخص مجھے31 جولائی 2009ء کے فیصلے کو نہیں چھوڑ سکتی ۔ سابق صدر کو بھی انصاف چاہیے اگر ان عدالتوں نے نہ دیا تو اللہ میاں دینگے ۔ ابراہیم ستی نے نواز شریف کیس کا حوالہ دیا جس میں ان کی زائد المیعاد درخواست بھی قبول کی گئی پی ایل ڈی 2009ء نواز شریف بنام سٹیٹ۔

پی ایل ڈی 2009/531ء سپریم کورٹ انتخابی نااہلی کیس تھا۔ 1996ء ایس سی ایم آر 856 کیس کا حوالہ دیا۔ ایک فیصلے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا اگر کوئی فیصلہ درست کرانا ہو تو اس کیلئے درخواست دائر کرنے کیلئے کسی مدت کی ضرورت نہیں ہے۔ مقدمے کو دوبارہ کھولنے اور ری وزٹ کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ پی ایل ڈی 1975ء منظور الٰہی بنام اسٹیٹ کیس میں عدالت نے کہہ رکھا ہے کہ اگر عدالت کے روبرو کوئی معاملہ آجائے تو اس میں ریلیف دینا ہوگا۔

1998ء ایس سی ایم آر کیس کا بھی حوالہ دیا۔ سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط ایک ہیں جبکہ لیمیٹیشن ایکٹ الگ ہے۔ اس میں عدالت کے رولز اپلائی نہیں ہوں گے اور عدالت کے اختیارات سماعت کو متاثر نہیں کرتے۔ سپریم کورٹ رولز مینڈیٹری نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کو درخواست کے زائد المیعاد ہونے کے حوالے سے سن لیا ہے اب آپ درخواست کے میرٹ پر آجائیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ میرٹ پر دلائل دیتے ہوئے عدالتی فیصلوں کے متعلقہ پیراگراف ہی پڑھیں کیونکہ آپ کے دلائل سے پتہ چلا ہے کہ آپ غداری کیس کی وجہ سے آئے ہیں۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ متعصب ہونے کی حد ہے۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے خط لکھا تو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔ دوسری حکومت خط لکھ رہی ہے اس پر عدالت بنادی جاتی ہے۔

12 دسمبر 2013ء کو ریٹائر ہونے سے قبل چیف جسٹس مجھے پھانسی تک پہنچانے کیلئے خصوصی عدالت بناکر گئے جس کا انہیں کوئی اختیار نہیں تھا۔ انور منصور بھی ایک ماہ سے دلائل دے رہے ہیں کہ خصوصی عدالت کی تشکیل صحیح نہیں ہے۔ پندرہ روز قبل ہی عدالت بنانے کا حکم دیا گیا۔ اگر میرے موکل مجرم ہیں تو انہیں ضرور سزا دیں مگر تعصب کا معاملہ دیکھنا پڑے گا۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس کیس کو سننا ضروری ہے تو اٹارنی جنرل کو سننا ضروری ہوگا۔ کئی آئینی آرٹیکلز کی تشریح کا سوال ہے اسلئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرنا پڑے گا۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ 31 جولائی 2009ء کے مقدمے میں اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا گیا اگر وہ وفاق کی طرف سے دلائل نہیں دیتے تو انہیں مجبور نہیں کیا جاسکتا تھا۔

ابراہیم ستی نے کہا کہ وہ اب کے اٹارنی جنرل کی بات کررہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 1973ء کے آئین کو نہیں مانتے تو پھر اس کے تحت نظرثانی کی درخواست کیسے دے سکتے ہیں۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ 1973ء کا آئین عوامی خواہشات کے مطابق نہیں تھا۔ یہ اسمبلی نے نہیں بنایا تھا۔ جسٹس آصف نے کہا کہ آئین آئین نہیں ہے اسلئے اس کے توڑنے سے کچھ نہیں ہوگا اور جب پھر موقع ملے گا پھر وہی کریں گے۔

ابراہیم ستی نے کہا کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ آپ کہتے ہیں تو اپنی درخواست پڑھ لیں۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ یہ ٹائپنگ کی غلطی ہے اس پر جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ ایک عدالتی محافظ ہونے کے ناطے آپ کو اس طرح کے دلائل دینے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ جسٹس آصف نے کہاکہ آپ آرٹیکل 188 نہیں مان رہے تو اس کے تحت نظرثانی کی درخواست کیسے دائر کی جاسکتی ہے۔

ابراہیم ستی نے کہا کہ میرا یہ نقطہ درخواست سے خارج سمجھیں۔ موت کے پھندے سے بچنے کیلئے اپنے موکل کے دفاع میں جو کچھ کہہ سکا کہوں گا۔ ایکٹ آف پارلیمنٹ تھا۔ جسٹس آصف نے کہا کہ یہ آپ کے موکل کے دل کی آوازہے۔ آپ آئین کو پہلے بھی نہیں مانتے تھے اب بھی نہیں مانتے اس پر چیف جسٹس نے تحریری طور پر لکھواتے ہوئے کہا کہ جب آئین کے حوالے سے بات ہوئی تو ابراہیم ستی نے کہا کہ پیرا گراف 10‘ 11‘ 12 میں جو کچھ کہا ہے وہ ان پیراگراف کو واپس لیتے ہیں جس کی باقاعدہ اجازت دی جاتی ہے۔

عدالت نے انہیں محتاط رہنے کا کہا۔ عدالت نے مذکورہ پیرا گرافس کو درخواست سے حذف کرنے کا حکم دے دیا۔ اپنے ضروری دلائل پر ہی اکتفاء کیجئے اس سے الگ نہ ہوں۔ ابراہیم ستی نے 31 جولائی 2009ء کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہاں کھلے دل کیساتھ بیٹھے ہیں۔ یہ عوام کا وقت ہے‘ چاہتے ہیں کہ وقت ضائع کئے بغیر دلائل دیں آپ ہماری معاونت کریں۔

ابراہیم ستی نے کہا کہ اس کیس کے دو حصے ہیں۔ 2007ء کے ایمرجنسی پی سی او 2007ء‘ ججز کا حلف آرڈر اور 270 ٹرپل اے کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا۔ دوسرا حصہ ٹکا اقبال کیس کو کالعدم قرار دیا گیا اور ریویو کو بھی خارج کردیا گیا۔ کیا ایسا ہوسکتا تھا یا نہیں یہ قانونی نکات ہیں۔ اگر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ جاری کردے تو اسے واپس یا خارج کرنے پر وہ ماضی کا حصہ سمجھی جائے گی اور اس کے مستقبل میں اثرات نہیں ہوں گے اور فیصلے بھی واپس نہیں ہوں گے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر کوئی فیصلہ غلط ہوا ہے اور اس میں کوئی قانونی نقص ہے تو اسے دور کرنے کیلئے سپریم کورٹ کو شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہئے تھی۔ 31 جولائی کے فیصلے کے صفحات 80 سے 85 تک میرے خلاف ذاتی حوالے سے بہت کچھ کہا گیا‘ کہا گیا کہ مشرف نے ایمرجنسی اپنے ذاتی مفاد کیلئے لگائی گئی ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ ٹکا اقبال کیس کو ججز نے ذاتی تعصب کی بناء پر خارج کردیا۔

کچھ چیزوں اور اقدامات کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کل گیارہ بجے تک وقت نہیں دے سکتے یہ نطرثانی کی درخواست ہے۔ مزید کتنا لیں گے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ ابھی تو میں نے دلائل کا آغاز ہی نہیں کیا۔ بعدازاں عدالت نے حکم نامہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار (آج) بدھ کو دن گیارہ بجے تک دلائل مکمل کرلیں گے۔ عدالت نے سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کردی۔

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :