قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا وزیراعظم کے ایوان میں نہ آنے پر شدید برہمی کا اظہار،وزیر داخلہ نے پر جوش تقریر سے اپوزیشن کو رام کرلیا،طالبان سے مذاکرات پر حکومت غیر سنجیدہ ہے‘ پوری قوم وزیراعظم کی جانب دیکھ رہی ہے مگر وہ غائب ہیں‘ وزیراعظم کو قوم کی نمائندگی کرنی چاہیے‘خورشید شاہ، حکومت جلد فیصلہ کرے کہ وہ مذاکرات چاہتی ہے یا جنگ لڑے گی؟ اپوزیشن سیسہ پلائی دیوار بن کر حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگی‘ ایوان میں اعلان، پرو طالبان نہیں پرو پاکستان ہوں‘وزیراعظم مذاکرات کی سربراہی کریں اور قوم کو لیڈر شپ دیں، حکمت عملی کو کس طرح تبدیل کردیا گیا‘ قومی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے،عمران خان، مذاکرات اور جنگ دونوں مشکل ہیں کیونکہ ہم کسی ملک ‘ فوج یا ایک گروہ کا سامنا نہیں بلکہ مختلف گروپوں کا سامنا کررہے ہیں‘سیاسی جماعتیں پوائنٹ سکورنگ سے گریز کریں‘وزیر داخلہ، فیصلے وزیراعظم کی مشاورت اور لیڈر شپ میں ہورہے ہیں‘ وزیرعظم عنقریب اسمبلی میں آکر پارلیمان کو اعتماد میں لیں گے ،کامیاب رہے پہلے اپوزیشن کو کریڈٹ دیں گے،چوہدری نثار علی خان کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال

منگل 28 جنوری 2014 08:56

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28جنوری۔2014ء)قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے پیر کو وزیراعظم میاں نواز شریف کے ایوان میں نہ آنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا تاہم وزیر داخلہ نے پر جوش تقریر سے اپوزیشن کو رام کرلیا‘ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات پر حکومت غیر سنجیدہ ہے‘ پوری قوم وزیراعظم کی جانب دیکھ رہی ہے مگر وہ ایوان سے غائب ہیں‘ مشکل وقت میں وزیراعظم کو قوم کی نمائندگی کرنی چاہیے‘ وزیراعظم ہاؤس کی بجائے میاں نواز شریف قومی اسمبلی میں آئیں ان کو دیکھنے کیلئے آنکھیں ترس گئی ہیں‘ حکمرانوں کو اعتزاز حسن جیسے طالب علم کی شہادت سے سبق سیکھنااور جرات مندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے‘ حکومت جلد فیصلہ کرے کہ وہ مذاکرات چاہتی ہے یا دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑے گی؟ اپوزیشن سیسہ پلائی دیوار بن کر حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگی‘ عمران خان نے کہا کہ وہ پرو طالبان نہیں پرو پاکستان ہیں‘ ملکی مفاد کی خاطر امن مذاکرات کی بات کرتے ہیں،وزیراعظم مذاکرات کی سربراہی کریں اور قوم کو لیڈر شپ دیں، کراچی سے خیبر تک پورا ملک جل رہا ہے شیعہ عوام کا قتل عام ہورہا ہے، 4 آل پارٹیز کانفرنسز میں مذاکرات کا فیصلہ ہوا تھا تو پھر اس حکمت عملی کو کس طرح تبدیل کردیا گیا‘ قومی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے جبکہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ مذاکرات شروع کئے گئے جو امریکہ نے سبوتاژ کئے ‘ دو بار خفیہ مذاکرات کا دور ہوا مگر ساتھ ہی دہشت گردی کی کارروائیاں شروع ہوگئیں،مذاکرات اور جنگ دونوں مشکل ہیں کیونکہ ہم کسی ملک ‘ فوج یا ایک گروہ کا سامنا نہیں بلکہ مختلف گروپوں کا سامنا کررہے ہیں‘سیاسی جماعتیں پوائنٹ سکورنگ سے گریز کریں‘ یہ مسئلہ صرف مسلم لیگ یا حکومت کا نہیں پورے ملک کا ہے جب تک آل پارٹیز میں اتفاق رائے نہیں ہوگا کامیابی نہیں ملے گی، مذاکرات یا جنگ کیلئے عوام اور سیاسی قیادت کے اتفاق کی ضرورت ہے جلد قومی قیادت کو اعتماد میں لیں گے،تمام فیصلے وزیراعظم کی مشاورت اور لیڈر شپ میں ہورہے ہیں‘ وزیرعظم عنقریب اسمبلی میں آکر پارلیمان کو اعتماد میں لیں گے اگر حکومت اس صورتحال میں کامیاب ہوگئی تو دیگر اداروں کے ساتھ پہلے اپوزیشن کو کریڈٹ دیں گے۔

(جاری ہے)

نائن الیون کے بعد 2000 بم دھماکے‘ خود کش حملے ہوئے‘ سابق دور میں ہم نے حکومت پر دباؤ بڑھانے کی بجائے اصلاح کی‘ آل پارٹیز کانفرنس کا ایجنڈا دیا مگر افسوس آج ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،بیت الله محسود کی ہلاکت کے بعد مذاکرات جاری رکھنا مشکل ہوگیا دوبارہ طالبان سے مذاکرات کی پیشکش کردی اس معاملے پرغور کررہے ہیں کہ طالبان کس حد تک سنجیدہ ہیں۔

قبل ازیں سید خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر کہا کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے آئے روز دہشت گردی بڑھ رہی ہے مگر افسوس حکومت کو احساس نہیں۔انہوں نے کہا کہ شیخ رشید نے بھی ملک میں امن و امان کی صورتحال پر جو باتیں کہی ہیں وہ بھی قابل غور ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ایوان کا قائد ہوتا ہے اور پارلیمنٹکی قیادت کرتا ہے آج ملک کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے مگر وزیراعظم ایوان میں سنجیدگی ظاہر نہیں کررہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام وزراء کا دل سے احترام کرتا ہوں کیونکہ ان کی اپنی حیثیت ہے البتہ وزیراعظم کا متبادل کوئی وزیر نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ قوم وزیراعظم کی جانب دیکھ رہی ہے کیونکہ وہ پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ قوم کی بھی نمائندگی کررہے ہیں مگر وہ یہاں موجود نہیں ہیں انہوں نے بھارت کے سابق وزیراعظم پنڈت لال نہرو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا زیادہ وقت پارلیمنٹ میں دیتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں ہم عوام کی نمائندگی پارلیمنٹ میں ہی کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پارلیمانی کمیٹی کی صدارت کر سکتے ہیں تو پھر وہ کیوں پارلیمنٹ میں آنا کیوں گوارہ نہیں کر سکتے؟ انہوں نے کہا کہ شاہراہوں پر جاکر اپنی سیاست اس نازک دور میں چمکانا نہیں چاہتے جمہوریت کی خاطر قربانیاں دی ہیں پارلیمنٹ پہلے بھی بنتی اور ٹوٹتی رہی ہیں مگر ہم نے ایک مرتبہ پھر جدوجہد کی ،تکلیفیں برداشت کیں اور آمریت کو گھر بھیجا اور پارلیمنٹ وجمہوریت کو بحال کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تقریروں کو تماشا کہا گیا مگر پھر بھی احتجاج کے باوجود ایوان میں آئے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایوان ہمارا ہے اور ہم نے ہی ایوان میں قوم کی نمائندگی کرنی ہے ہم تو آجاتے ہیں مگر افسوس وزیراعظم کو قومی اسمبلی و سینٹ میں آنے پر آنکھیں ترس رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے گزارش کرتے ہیں کہ قوم کی امیدوں کی خاطر ایوان میں آئیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی میں زخمی ہونیوالے افراد اور جوان کہتے ہیں کہ ہمیں لیڈر چاہیے لیڈر دفاتر اور سیکرٹریٹ میں بیٹھ کر نہیں بنتے بلکہ ایوان میں آکر قوم کی ڈھارس بندھائیں اور کہیں کہ وہ ملک سے مسائل کا خاتمہ کریں گے حکومت اب فیصلہ کرے کہ اس نے کیا کرنا ہے؟انہوں نے کہا کہ اعتزاز حسن نے بہادری سے سپاہی کی طرح شہادت پائی اور سکول کے بچوں کی حفاظت کی مگر افسوس اس معصوم بچے کی شہادت پر بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلیں۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے کوئی کسی کے دشمن نہیں، آمریت کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی ہے مگر اس لئے سب کچھ نہیں کیا کہ اقتدار میں آکر آپ سب کچھ بھول جائیں اب وقت ضائع مت کریں پہلے ہی وقت بہت گزر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اقدام اٹھائے اپوزیشن ساتھ کھڑی ہے۔وزیراعظم کو یقین دلاتے ہیں کہ ڈرنے اور بھاگنے والے نہیں آپ کا ساتھ دیں گے پیپلزپارٹی اور اپوزیشن آپ کو دھوکہ نہیں دیں گے البتہ آپ آگے بڑھیں اور فیصلہ تو کریں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کسی کو جمہوریت پر شبخون مارنے کی اجازت نہیں دے گی،اگر حکومت نے دیر کردی تو پھر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی سربراہ و چیئرمین عمران خان نے اس موقع پر کہا کہ پوری قوم کو لیڈر کی ضرورت ہے اور قوم جاننا چاہتی ہے کہ اس دلدل سے کس طرح نکلا جائے انہوں نے کہا کہ اسمبلی کا اجلاس پہلے بلایا جانا چاہیے تھا اور وزیراعظم کو ایوان میں آنا چاہیے مگر افسوس وزیراعظم نہیں آئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے اور وزیراعظم کو مضبوط کرنا ہے مگر افسوس ایوان میں نہیں آئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو اپوزیشن کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا انہوں نے کہا کہ مذاکرات واحد راستہ ہے کیونکہ اگر مذاکرات کئے جاتے تو پچاس گروپوں میں ضرور کچھ آگے آجاتے اور تقسیم ہو جاتے کیونکہ بیرونی امداد لینے والے مذاکرات نہیں کریں گے، دہشت گردی کے خلاف دس سال جنگ کو ہونے والے ہیں اگر یہی صورتحال رہی تو کون یہاں کاروبار کی خاطر آئے گا؟ ہمیں اس کو ترجیح دینی چاہیے تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر وزیراعظم بیان بازی کی بجائے سیاسی لیڈروں کو اعتماد میں لیں۔ فی الوقت قوم کو کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہونے جارہا ہے۔اگر آپریشن کے لئے قوم فوج کے ساتھ ہو اور سیاسی مشاورت بھی ہو تو پھر موثر ہوگا بلکہ ابھی تک کچھ معلوم نہیں کہ امریکی ڈرون حملے کے بعد مذاکرات شروع ہونے ہیں یا نہیں؟ اوراگر شروع ہوئے تو سبوتاژ کس طرح ہوئے۔

قوم کو اعتماد میں لیا جائے اس وقت کراچی دہشتگردی ہورہی ہے فرقہ وارانہ دہشتگردی بھی جاری ہے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بھی بدامنی کی کارروائیاں ہورہی ہیں،اب وزیراعظم بتائیں کہ کس طرح کے مذاکرات ہوئے اور کیوں ناکام ہوئے؟ ۔ شیعہ عوام کا قتل عام ہورہا ہے اس معاملے پر بھی قوم کو اعتماد میں لیا جائے اگر آپریشن ہوتا ہے تو اس پر بھی قوم کو اعتماد میں لیا جائے،جس کو کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہورہا ہے،وزیراعظم ایوان میں وضاحت پیش کریں ۔

انہوں نے کہا کہ چار آل پارٹیز کانفرنس ہوئیں اور مذاکرات پر اتفاق کیا گیا اگر افسوس اب اگر سٹرٹیجی تبدیل ہورہی ہے تو بتایا جائے کہ کس طرح تبدیل ہورہی ہے؟ہم پروطالبان نہیں بلکہ پرو پاکستان ہیں، آئین کے تحت مذاکرات کے خواہاں ہیں ۔حکومت کی جانب سے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور عمران خان کی جانب سے کی گئی تنقید کا جواب دیتے ہوئے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں اتفاق ہوا ہے ایک اپوزیشن اور ایک حکومت کی طرف سے سماعت کرے گا مگر افسوس اس طرح نہیں ہوا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف پہلی بار نہیں اس سے پہلے دو بار وزیراعظم رہ چکے ہیں پاکستان میں نائن الیون کے بعد مشکل صورتحال درپیش ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ دو ہزار سے زائد دھماکے ہوچکے ہیں مگر آج تک کسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کی اپوزیشن دور میں ایبٹ آباد آپریشن ہوا مگر اس پر بھی اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیا اور آل پارٹیز کانفرنس کی بات کی اور سابق حکومتی اے پی سی کا ڈرافٹ بھی نواز لیگ ، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے تشکیل دیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ 2008ء سے 2013ء تک جو دھماکے ہوئے وہ بھی آن دی ریکارڈ ہیں۔مذاکرات یا آپریشن پر متفقہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے پھر ہی کامیابی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے کیوں مذاکرات یا آپریشن کا خیال سابق حکومتوں کو نہیں آیا ۔اے پی سی پر تمام جماعتوں نے سیاست سے بالاتر ہوکر بات کی لیکن بعد میں سیاسی بیان بازی بھی شروع ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان سے براہ راست رابطہ بھی ہوا تھااور سابق ٹی ٹی پی کی قیادت کے دستخطوں سے جواب بھی آیا جس میں ایک بزرگ عالم دین اورسینئر صحافی نے کردار ادا کیا ۔

انہوں نے کہا کہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد بہت سوں نے کہنا شروع کردیا کہ مذاکرات نہیں ہورہے ہیں۔ہم اس معاملے میں سیاست نہیں کررہے ہیں ایک مشکل کام ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے کچھ گروپوں نے کہا ہے کہ حکیم اللہ محسود سے بات ہی نہ کی جائے اور بتایا گیا کہ یہ دونوں ملکوں کے زیر اثر ہے مگر ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تقسیم کا تاثر نہیں دینا چاہتے تھے اور ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت کی درخواست کی تھی ۔

انہوں نے کہا کہ امریکی سفیر کے سامنے کہا کہ مذاکرات کو سبوتاژ کیا گیا اور پھر دو ہفتوں کے بعد ٹی ٹی پی کی قیادت تبدیل ہوئی جب کسی تنظیم کی قیادت نہیں تھی تو ان دو ہفتوں میں کس سے مذاکرات کرتے۔انہوں نے کہا کہ طالبان کوئی ایک پارٹی یا فوج نہیں ہے جس سے مذاکرات ہوں ہمیں قوم کے سامنے حقائق رکھنے کی ضرورت ہے اور سب سے پہلے فضل اللہ نے حکومت پاکستان اور امریکہ کو قصور وار ٹھہرا دیا اور مذاکرات سے یکسر انکار کردیا تو پھر کس سے مذاکرات کرتے پھر بھی اپنی کوششیں جاری ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں کسی کو نہیں کہا کہ حکومت ناکام ہوچکی ہے۔اس معاملے سے پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے اگر اس قسم کا اتفاق رائے ہوگا جس طرح اے پی سی پر متفق ہوئے تھے سب ہی مذاکرات یا آپریشن کامیاب ہوگا لیکن افسوس فی الوقت ایسا اتفاق رائے نظر نہیں آرہا عنقریب وزیراعظم ایوان کو اعتماد میں لیں گے البتہ اپوزیشن بھی اس معاملے پر کوئی یقین دہانی کرائے ۔

انہوں نے کہا کہ جب ٹی ٹی پی کی طرف سے جواب نہ ملا تو پھر دوسرا آپشن استعمال کیا اور جو گروپ ہم سے مذاکرات چاہتے تھے ان سے رابطہ کیا اور بہت کامیابی حاصل ہوئی مگر عین موقع پر بنوں حادثہ رونما ہوگیا، ٹی ٹی پی کی جانب سے ذمہ داری قبول کرلی گئی،ہمیں معلوم ہوگیا کہ کچھ لوگ مذاکرات سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کچھ گروپوں نے طالبان کا لبادہ اوڑھ لیا ہے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مذاکرات اور آپریشن دونوں مشکل کام اہم ہیں۔

وزیراعظم ، عمران خان ، منور حسن اور فضل الرحمن کا نام اس لئے لیا تھا کہ وہ حکومت کی طرح مذاکرات کی پالیسی کی حمایت کررہے تھے کہ ان کے روابط سے فائدہ اٹھا سکیں ۔طالبان سے مذاکرات جگہ کا تعین بھی ہوچکا تھاکہ بنوں ائرپورٹ کے قریب ہوں گے مگر ڈرون حملے کے بعد ٹی ٹی پی کے رویئے میں تبدیلی آگئی اور کہا کہ اب بات کرنا چاہتے ہیں جس کی سمجھ نہیں آرہی اور جب ہمارے لیے قبل برداشت نہیں رہا تو پھر انہوں نے مذاکرات کی حامی بھر لی جس کے باعث اب پھر مشاورت ہورہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ فی الوقت نہیں کہہ سکتے کہ طالبان کس حد تک مذاکرات کے لیے مخلص ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تحریک دفاعی پوزیشن اختیار کرچکی ہے اپوزیشن اور سیاسی قیادت کو ضرور اعتماد میں لیا جائے گا پہلے مرحلے میں پارلیمانی قیادت اور اگلے مرحلے میں قومی قیادت کو اعتماد میں لینگے۔فوجی آپریشن کا اعلان کرنا مشکل کام نہیں ہے کیونکہ اصل کام فوج نے ہی کرنا ہوتا ہے مگر ہم اس جانب بھی دیکھنا ہے کہ اس آپریشن میں کتنا نقصان اور کتنا فائدہ ہوگا؟ہمیں اس جانب بھی سوچنا ہوگا انہوں نے کہا کہ اپوزیشن تنقید برائے اصلاح کرے، وقت آگیا ہے کہ پوری قوم اورپوری سیاست کو یکجان ایک زبان کرلیں جو بھی تمام مسائل ختم کردینگے اور پاکستان سرخرو ہوگا اور اگر اس سٹرٹیجی میں کامیاب ہوگئے تو دیگر اداروں کی طرح اپوزیشن کو اس کا کریڈٹ دینگے اوراس کے بعد اس کی نااہلی پر حکومت کو ذمہ دار قرار دینگے ۔

بعدازاں عمران خان نے کہا کہ وزیر داخلہ کی باتوں کی مکمل تائید کرتا ہوں کہ مشکل حالات ہیں البتہ ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر صرف اتنا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم کو اس معاملے کو لیڈ کرنا چاہیے اور وزیراعظم کو اس ملک کو لیڈر شپ دیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر داخلہ سنجیدگی کامظاہرہ کررہے ہیں اور کام کررہے ہیں البتہ خیبر پختونخواہ میں سات سو افراد شہید ہوچکے ہیں ہم نے بھی جواب دینا ہے ہم سے بھی جواب عوام مانگتی ہے،حکومت کو معاملہ پر اعتماد میں لینا چاہیے اس معاملے پر کوئی سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کررہے ہیں اور راز کی باتوں کو بھی سامنے نہیں لائینگے اس معاملے پر حکومت اور وزیر داخلہ اعتماد میں لیں جس پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ تمام معاملات پر وزیراعظم ہی لیڈ کررہے ہیں اور وزیراعظم کی لیڈر شپ میں تمام فیصلے ہورہے ہیں ۔