سپریم کورٹ کا مالاکنڈ سے فوج کے ذریعے اٹھائے گئے 35 لاپتہ افراد کی 48 گھنٹے میں بازیابی اور عدالت میں پیش کرنے کا حکم،عدالت نے کمیشن کی رپورٹ تک مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کی وفاق کی استدعاء بھی مسترد کردی، عدالت تحمل کی آخری حد تک پہنچ چکی ہے‘ ایک حکومت جو ایک شخص کے حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتی وہ پورے ملک کے معاملات کی کیا خاک نگرانی کرے گی‘ جواد ایس خواجہ ، ہم حکومتوں کو لاپتہ افراد کے معاملے کے حل کا پورا موقع دینا چاہتے ہیں‘ ہم نہیں چاہتے کہ عدالت کو اپنا اختیار استعمال کرنا پڑے، زمین پھٹے یا آسمان گرے کسی کو آئین و قانون سے انحراف کی اجازت نہیں دیں گے‘ آئین سے متصادم کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا‘،سماعت کے دوران ریمارکس،مزید سماعت 29 جنوری کو ہوگی

منگل 28 جنوری 2014 08:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28جنوری۔2014ء) سپریم کورٹ نے مالاکنڈ سے فوج کے ذریعے اٹھائے گئے 35 لاپتہ افراد کی 48 گھنٹے میں بازیابی اور عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا‘ عدالت نے کمیشن کی رپورٹ تک مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کی وفاق کی استدعاء بھی مسترد کردی‘ یہ حکم پیر کے روز جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے وفاقی اور صوبائی حکومت خیبر پختونخواہ کو جاری کیا ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ عدالت تحمل کی آخری حد تک پہنچ چکی ہے‘ ایک حکومت جو ایک شخص کے حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتی وہ پورے ملک کے معاملات کی کیا خاک نگرانی کرے گی‘ بنیادی انسانی حقوق کے نفاذ میں وفاقی اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کی کاررکردگی سوالیہ نشان ہے‘ حکومت نظریہ ضرورت کو اہمیت دے کر آئین و قانون سے انحراف کررہی ہے‘ وفاقی اور صوبائی حکومتیں لاپتہ افراد کے معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں‘ ہم حکومتوں کو لاپتہ افراد کے معاملے کے حل کا پورا موقع دینا چاہتے ہیں‘ ہم نہیں چاہتے کہ عدالت کو اپنا اختیار استعمال کرنا پڑے‘ این آر او کے نفاذ کیلئے کیا کچھ نہیں کیا گیا اور اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کو کوئی تیار نہیں‘ جسٹس جواد کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں ڈرایا جارہا ہے کہ اس کیس کی سماعت نہ کی جائے ورنہ بہت بڑی تباہی آجائے گی‘ بتانا چاہتا ہوں کہ زمین پھٹے یا آسمان گرے کسی کو آئین و قانون سے انحراف کی اجازت نہیں دیں گے‘ آئین سے متصادم کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا‘ لاپتہ افراد کے معاملے کی ان کیمرہ یا کھلی عدالت میں مزید سماعت کی ضرورت نہیں سب کو معلوم ہے کہ بندے کون لے گیا ہے‘ کوئی خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے‘ عدالت صبرو تحمل کی آخری حد تک پہنچ چکی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دئیے۔ اس دوران اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے 35 لاپتہ افراد کے معاملے پر جسٹس (ر) سردار محمد رضا خان پر مشتمل ایک رکنی کمیشن مقرر کردیا ہے جو ایک ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ دے گا اس وقت تک سماعت ملتوی کی جائے تاہم عدالت نے سماعت ملتوی کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ کمیشن اپنا کام کرے ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔

ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخواہ نے عدالت سے ان کیمرہ سماعت کرنے کی استدعاء کی جس پر عدالت نے کہا کہ ہم نے درخواست نوٹ کرلی ہے اس کا مناسب فیصلہ کردیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے کہا کہ فوج کو ان بدنوں کو اٹھانے کا اختیار نہیں تھا۔ عدالت خود بھی کہہ چکی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے سابقہ احکامات پڑھ کر سنائے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قانون سازی حکومت کا کام ہے اور یہ فیڈریشن نے ہی کرنا ہے۔

ہمارے مدنظر یہ بات ہے کہ وفاق اور آپ کے شہری ہیں ان کے بنیادی حقوق ہیں یا نہیں۔ آپ کہیں گے کہ ہیں اور اگر ہیں تو وہ کیسے نافذ ہوں گے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت انتظامیہ نے نافذ کرنے ہیں اگر وہ کچھ نہیں کرتے تو پھر عدالت کو کچھ کرنا ہے اس حوالے سے اٹارنی جنرل اور آپ ہماری معاونت کریں گے۔ اس حوالے سے دیگر صوبوں کے لاء آفیسرز کو طلب کرکے ان کا موقف بھی جانیں گے کیونکہ یہ ایشو صرف آپ کا نہیں باقی صوبوں کا بھی ہے۔

اگر کچھ اقدامات کئے گئے ہیں تو ان کا بھی جائزہ لینا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ عدالتی حکم کے مطابق پیشرفت ہونا ضروری ہے۔ سات افراد آکر مل سکتے ہیں ان چیمبر ہمارے جج نے بیانات ریکارڈ کئے ہیں‘ دو اللہ کو پیارے ہوگئے باقی 20سے 21 لوگ ہیں ان کے بارے میں بتایا جارہا ہے‘ کچھ کا کہتے ہیں کہ افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ہیں وہ بازیاب ہوتے رہیں گے۔

تحفظ پاکستان آرڈیننس آپ بھی دیکھ لیں۔ اس آرڈیننس میں ایک دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ یہ لوگ وہاں موجود تھے ان کو حراست میں رکھا گیا تھا۔ نیا قانون کیا کہتا ہے ابھی اسے دیکھنا ہے کہ آیا یہ قانون سے متصادم تو نہیں ہے۔ آپ کے صوبے کی بھی کوئی ذمہ داری ہے۔ پولیس بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شامل ہے۔ قانون بتادیا جائے کہ کچھ ادارے آئین و قانون سے بالاتر ہیں اور ان کو ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا۔

اس طرح کے معاملات میں مقدمہ درج اور تفتیش ہوتی ہے۔ یاسین شاہ کو دو سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے کہ وہ کہاں ہیں ان کے حوالے سے کوئی تفتیش نہیں ہوئی ہے۔ وفاق کہتا ہے کہ ان اداروں کے پاس یہ نہیں ہے۔ ایشو یہ ہے کہ صوبے کا بھی کچھ کردار بنتا ہے۔ وفاقی حکومت کے جہاں تک کردار کی بات ہے تو اسے بھی دیکھیں گے۔ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

آپ کی رپورٹ ہمارے حکم پر عملدرآمد نہیں ہے۔ اے جی کے پی کے نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ حکومت کیا کررہی ہے ان سے مکمل طور پر بات ہوئی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کوئی قانون سے بالاتر ہے اس پر اے جی نے کہا کہ کوئی نہیں ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اب تک وفاق ان لاپتہ افراد کو تلاش کرلیتا‘ یہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ یہ بندے غیرقانونی طور پر اٹھائے گئے ہیں۔

سرکار نے کمیشن بنادیا ہے۔ سردار محمد رضا خان سربراہ بنائے گئے ہیں۔ یہ سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں ان کیساتھ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ ہیں۔ اے جے کے پی کے کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے پی کے ان کیمرہ عدالت کو حقائق بتانا چاہتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ ہمیں کوئی تفصیل دیں۔ اوپن کورٹ یا ان کیمرہ بریفنگ کی کوئی خواہش نہیں۔

صوبہ یاسین شاہ کو ہمارے روبرو پیش کرے۔ تعزیرات پاکستان کا اطلاق کیا جائے۔ عجب شاہ بھی نہیں آسکے ہیں۔ ہم آپ کی استدعاء کو دیکھ لیتے ہیں اس کا فیصلہ بعد میں کرلیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن کی تحقیقات تک معاملے کی سماعت روک دی جائے اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ کمیشن اپنا کام کرتا رہے گا۔ اس کی رپورٹ بھی آجائے گی۔ یاسین شاہ سمیت باقیوں کا بھی حساب دے دیں۔

ٹرم اینڈ کنڈیشن آپ کو رپورٹ دینے سے نہیں روکتے۔ ایک بندہ ہمیں لازمی طور پر چاہئے۔ عدالت نے طارق کھوکھر سے کہا کہ آپ پیش ہوتے رہے ہیں۔ آپ نے کافی معاونت کی ہے بار بار یاسین شاہ کا پوچھ رہے ہیں کہ وہ کہاں ہیں اور ہمیں کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔ مرگیا ہے‘ زندہ ہے کیا ہوا کچھ توبتایا جائے۔ اسے کافی ماہ گزرگئے ہیں اگر بندہ پیش نہیں کیا جاتا تو کارروائی کریں گے۔

اس حوالے سے ہدایات حاصل کرلیں اس میں رعایت نہیں کرسکتے۔ وزارت دفاع کے دو افسران آئے ہوئے ہیں ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل مجسم فیڈریشن ہیں ہم معاملہ کمیشن پر نہیں چھوڑ سکتے۔ عدالتی تحرک کی نہیں بنیادی حقوق کے تحفظ کی بات ہے۔ قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔ اس معاملے کو بدھ کیلئے رکھ رہے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے اپنی آئینی قومی ذمہ داری پوری کریں اور اٹارنی جنرل اپنا معاملہ مکمل کریں۔

منگل کو لارجر بنچ نے مقدمے کی سماعت کرنی ہے اسلئے اسے اگلے دن کیلئے نہیں رکھ سکتے۔ ہمارے پاس اور کوئی حل نہیں ہے۔ اگر حکومت نے جلدی معاملہ کرنا ہے تو کرے مزید انتظار نہیں کرسکتے۔ پہلے بھی ہمیں سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اگر ہم نے آئین و قانون کی پاسداری کردی تو تباہی ہوجائے گی۔ ایسی باتوں سے ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔ آسمان گرے یا زمین پھٹے آئین و قانون کو ہی نافذ کریں گے۔

این آر او کی معاملے پر کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ یہ تو بنیادی حقوق ہیں باقی جو مرضی ہوتا رہے اس کا کسی کو کوئی احساس تک نہیں ہے۔ سندھ ہائیکورٹ میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ وہ آئین و قانون سے انحراف نہیں کرسکتی۔ کوئی بھی قانون و آئین سے متصادم نہیں بنایا جاسکتا۔ ہمیں کہا گیا کہ جمہوری رویہ یہ ہے کہ سیاسی ارکان صرف اپنے ہی ہاں کسی کو جوابدہ ہیں۔

عوام اور عدالتیں ان سے کچھ نہیں پوچھ سکتیں۔ ہمیں کہا گیا کہ اگر اس طرح کے معاملات کی سماعت کی گئی تو بہت بڑی تباہی ہوگی۔ کمال اظفر نے درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔ اگر آپ کے تمامتر ذرائع اور فورسز یاسین شاہ کا پتہ نہیں لگاسکتیں تو ہمیں بدھ کو بتایا جائے۔ آپ حکومت سے ہدایات لے لیں اس کے بعد عدالت اپنی کارروائی کرنے پر مجبور ہوگی۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں لکھوایا کہ عدالتی حکم پر اے جی کے پی کے نے رپورٹ پیش کی۔ کے پی کے حکومت نے معاملے کی سماعت ان کیمرہ کرنے کی استدعاء کی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لاپتہ افرا دکے معاملے میں پیشرفت ہوئی ہے اور یک رکنی کمیشن مقرر کرایا گیا ہے۔ سردار احمد رضا خان کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ کمیشن کی حدود و قیود بھی مقرر کردی گئی ہیں۔

کمیشن سفارشات کے بعد اپنی رپورٹ دے گا اور اس میں ایک ماہ کا عرصہ لگے گا۔ کمیشن 26 جنوری کو مقرر کیا گیا ہے۔ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ وفاق کا معاملہ تھا۔ انہوں نے کمیشن مقرر کردیا ہے اور اس حوالے سے شرائط بھی طے کردی ہیں‘ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے وہ اپنا کام کرتا رہے لیکن ہم اس کیس کا خود بھی جائزہ لیں گے۔ جیسے کہ ہم یہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ کمیشن کی حدود وقیود وفاق نے طے کرنی ہیں۔

ہمارا مسئلہ لاپتہ افراد کی بازیابی ہے جو ابھی تک نہیں کرائے جارہے اور ان کی گمشدگی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور بنیادی حقوق نافذ کرنا بھی ہے۔ ریاست کے یہ امور ہیں کہ انہوں نیقانون کے مطابق کام کرنا ہے۔ وہ کسی کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ بنیادی حقوق کو نافذ کئے بغیر شہریوں کے معاملے کو حل کرنی کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔

10 دسمبر 2013ء کے عدالتی حکما ور دیگر احکامات میں ہم نے کہا ہے کہ ہم حکومت کو مکمل موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ اس کیس کو حل کرے اور عدالت کو اپنا اختیار استعمال نہ کرنا پڑے۔ ہمارا اختیار کے استعمال کا مقصد یہ ہے کہ یہ لاپتہ افراد بازیاب ہوں۔ فیڈریشن خود ہی اقدامات کرے اور یقینی بنائے کہ لاپتہ افراد اور خاص طور پر یاسین شاہ بازیاب ہوں گے اور اس میں کوئی تاخیر نہیں ہوگی۔

ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے رپورٹ میں کہا ہے کہ انہوں نے حکام بالا سے بات اور لاپتہ افراد کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا ہے اور جہاں تک عدالتی حکم پر عملدرآمد کی بات ہے تو اس کیلئے مزید وقت دیا جائے تاکہ اس مقدمے کے مکمل ریکارڈ کا جائزہ لیا جاسکے اور اس میں پیشرفت کی جاسکے۔ ہم اس معاملے کی سماعت 28 جنوری کو کرنا چاہتے تھے مگر ایک اور مقدمے میں لارجر بنچ نے سماعت کرنی ہے اسلئے اس کیس کی سماعت 29 جنوری تک ملتوی کی جاتی ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ہم ایک بار پھر لاء افسران کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سنجیدگی سے غور کریں اور حکومت سے بات کریں۔ ڈاکٹر مبشر حق کیس کے فیصلے کی روشنی میں جواب دیں جس میں کہا گیا ہے کہ بنیادی حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کیس میں نظریہ ضرورت کے حوالے سے بھی بات کی گئی ہے۔ آج ہم نظریہ ضرورت کو تو اہمیت دے رہے ہیں مگر آئین و قانون سے انحراف کررہے ہیں‘ مزید وقت نہیں دیں گے۔

اب اس مقدمے میں پراگرس دکھانا ہوگی۔ اگر آپ وسائل کے باوجود ایک شخص کے بارے میں نہیں بتاسکتے تو لاہور اور کراچی میں جو کچھ ہورہا ہے اسے کیسے کنٹرول کریں گے۔ پنجگور سے 25 افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا ایک شہری بازیاب نہیں ہورہا۔ محبت شاہ ہر بار آتا اور بے ہوش ہوتا رہا۔ یہ دو گھنٹے سے زیادہ کا معاملہ نہیں ہے اس کے حوالے سے رپورٹ دیں۔ مزید سماعت 29 جنوری کو ہوگی۔