نئی مردم شماری کے لئے متعلقہ اداروں نے حکومت سے 8 ارب روپے اور2 سے اڑھائی لاکھ فوجی اہلکاروں کی خدمات مانگ لی،حکومت اگر فیصلہ کرے تو 4 سے5ماہ کے بعد مردم شماری کا عمل شروع ہو سکتا ہے ۔ جس کے 120 دن بعد عبوری نتائج سامنے آ سکتے ہیں، مشترکہ مفادات کونسل کے اجلا س میں مردم شماری کا معاملہ بھی شامل ہے ،سربراہ تنظیم مردم شماری

پیر 27 جنوری 2014 08:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27جنوری۔2014ء)ملک بھر میں نئی مردم شماری کے لئے متعلقہ اداروں نے حکومت سے 8 ارب روپے اور2 سے اڑھائی لاکھ فوجی اہلکاروں کی خدمات مانگ لی ہیں اور تنظیم مردم شماری (پی سی او) کے سربراہ حبیب اللہ خٹک نے کہا ہے کہ حکومت اگر فیصلہ کرے تو 4 سے5ماہ کے بعد مردم شماری کا عمل شروع ہو سکتا ہے ۔ جس کے 120 دن بعد عبوری نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

اتوار کو خبر رساں ادارے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کمشنر شماریات حبیب اللہ خٹک نے کہا کہ 1998 ء میں مردم شماری کی گئی تھی اس کے بعد 2011 ء میں گھروں کی تعداد کا سروے ہوا لیکن گزشتہ 15 سال میں مردم شماری نہیں ہو سکی۔انہوں نے کہا کہ بعض سروے ہر سال ہوتے ہیں لیکن اصل چیز مردم شماری ہے جس کی بنیاد پر حلقہ بندیاں موثر انداز میں کی جا سکتی ہیں۔

(جاری ہے)

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے مکمل اندازا لگایا ہوا ہے کہ مردم شماری پر8 ارب روپے کے اخراجات ہو سکتے ہیں ۔اگر حکومت فیصلہ کرے تو اس کے بعد ہم انتظامات شروع کریں گے اور چار سے پانچ ماہ میں یہ انتظامات مکمل ہو سکیں گے۔ جن میں ریونیو ڈیپارٹمنٹ اور دیگر محکموں سے نقشوں کا حصول ،ٹرانسپورٹ ،اساتذہ کی خدمات اور دیگر اقدامات کئے جا سکتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ 15 سے 20 دن عملہ کو تربیت دی جائے گی جو اس کام کے لئے ملک بھر میں گھر گھر جا کر اعدادوشمار حاصل کرے گا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اتفاق کیا کہ سکیورٹی حالات کے باعث اب تک ملک میں مردم شماری نہیں ہو سکتی لیکن اب عالمی اداروں کی طرف سے بھی حکومت پر دباؤ ہے ۔ہم بھی چاہتے ہیں یہ کام ہونا چاہیے ۔الیکشن کمیشن بھی دباؤ ڈال رہا ہے کیونکہ مردم شماری کے بعد ہی بلدیاتی اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے حلقہ بندیاں ہو سکتی ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں حبیب اللہ خٹک نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس وزیر اعظم نواز شریف نے طلب کیا ہے ۔مردم شماری کا معاملہ اس اجلاس کے ایجنڈا میں بھی شامل ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں گھر گھر جانے اور سکیورٹی انتظامات کے لئے 2 سے اڑھائی لاکھ فوجی جوانوں کی ضرورت ہوگی اور فوج بھی اب تک اس حوالے سے معذوری کا اظہار کرتی رہی ہے جس کے باعث کوئی حکومت بھی مردم شماری کا فیصلہ نہیں کر سکی۔

متعلقہ عنوان :