شمالی وزیرستان میں آپریشن یا طالبان سے مذاکرات ‘ حکومت نے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کیلئے رابطے شروع کردئیے،خیبر پختونخواہ حکومت کا آپریشن سے خود کو علیحدہ کرنے کا فیصلہ،شمالی وزیرستان میں ’فوجی کارروائی کے بعد ہزاروں لوگوں کی نقل مکانی‘، اب تک 13 ہزار افراد قبائلی علاقے سے بنوں پہنچ گئے،حکام،میرانشاہ اور میر علی کے علاوہ ایجنسی میں حالات پیچیدہ ہیں، ’بڑی تعداد میں لوگ ٹریکٹروں اور دیگر گاڑیوں میں بنوں کی طرف آ رہے ،ہیں میرانشاہ میں گاڑیاں نہیں مل رہیں لوگ سڑکوں کے کناروں پر موجود ہیں،مقامی لوگوں کی گفتگو

اتوار 26 جنوری 2014 08:43

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26جنوری۔2013ء) حکومت نے طالبان سے مذاکرات یا آپریشن کے حوالے سے سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کردئیے جبکہ خیبر پختونخواہ حکومت نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے خود کو علیحدہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے شمالی وزیرستان میں طالبان کیخلاف آپریشن کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں سے رابطے کئے جن میں وفاقی وزیر داخلہ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن سے ٹیلیفون پر رابطہ کرکے ملکی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

اس موقع پر منور حسن نے کہا کہ اگر حکومت سنجیدگہ کا مظاہرہ کرے تو وہ بات کرنے کیلئے تیار ہیں ورنہ نمائشی اجلاس بلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آپریشن کسی بھی دباؤ کے تحت نہیں ہونا چاہئے۔ اس کیساتھ ساتھ منور حسن نے ایک بار پھر حکومت کو طالبان سے مذاکرات کو مسئلے کا واحد حل قرار دے دیا۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے تمام فیصلے سیاسی قیادت سے مشاورت کے بعد کرے گی جبکہ دوسری جانب خیبر پختونخواہ حکومت نے وفاق کی جانب سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے معاملے پر اعتماد میں نہ لینے پر معاملے سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

اس حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات شاہ فرمان نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن واضح کریں کہ آخر حکومت نے آپریشن کا فیصلہ کیوں کیا۔ادھرقبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی حالیہ کارروائیوں کے بعد مقامی آبادی کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے اور حکام کے مطابق اب تک 13 ہزار افراد قبائلی علاقے سے خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں پہنچے ہیں۔

بنوں سے سرکاری حکام نے بتایا ہے کہ دو روز پہلے شمالی وزیرستان میں بمباری کے بعد سے لوگ بنوں پہنچ رہے ہیں جن میں خواتین بچے اور بوڑھے افراد شامل ہیں۔حکام نے بتایا کہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کل کتنے خاندان نقل مکانی کر کے بنوں پہنچے ہیں لیکن انفرادی طور پر شہر میں داخل ہونے والے لوگوں کی تعداد تیرہ ہزار تک ہے۔متاثرہ افراد اپنے طور پر رہائش کا انتظام کر رہے ہیں کچھ لوگ رشتہ داروں اور جاننے والے افراد کے پاس پہنچ رہے ہیں تو ایک بڑی تعداد مکان تلاش کرنے کے لیے سڑکوں کے کنارے اور میدانوں میں ڈیرے ڈال دیے ہیں۔

گزشتہ روز نقل مکانی کرنے والی ایک خاتون نے چھ بچوں کو جنم دیا ہے جن میں چار لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں۔بنوں چھاوٴنی اور راولپنڈی کے آر اے بازار میں دھماکوں کے بعد شمالی وزیرستان میں دو روز پہلے سکیورٹی فورسز نے شدید بمباری کی تھی۔اس کارروائی میں تیس سے چالیس افراد ہلاک ہوئے ہیں جن کے بارے میں سیکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ یہ شدت پسند تھے جن میں غیر ملکی بھی شامل تھے جبکہ طالبان نے کہا تھا کہ فوجی کارروائی میں بیگناہ افراد کو ہلاک کیا ہے۔

آزاد ذرائع سے دونوں جانب کے بیانات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔بنوں کے حکام نے بتایا کہ اب تک متاثرین کو کوئی امداد نہیں دی گئی ہے تاہم قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے حکام بنوں پہنچے ہیں اور حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔نقل مکانی کرنے والے ملک اکبر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں کہیں رہنے نہیں دیا جا رہا۔ان کا کہنا تھا کہ ’میرانشاہ اور میر علی کے علاوہ ایجنسی میں حالات پیچیدہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بڑی تعداد میں لوگ ٹریکٹروں اور دیگر گاڑیوں میں بنوں کی طرف آ رہے ہیں میرانشاہ میں گاڑیاں نہیں مل رہیں لوگ سڑکوں کے کناروں پر موجود ہیں۔‘نقل مکانی کرنے والے اکثر افراد کے جاننے والے بنوں میں نہیں ہیں اس لیے انھیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ملک اکبر نے بتایا کہ ان کے خاندان کے 60 سے 70 افراد ہیں جن میں سے کچھ سنیچر کو ہی بنوں پہنچے ہیں جبکہ ابھی مزید لوگ راستے میں ہیں۔