سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب اور عدالتی اختیارات کے حوالے سے آئین و قانونی معاملات پر پراسکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا سے آج حتمی وضاحت طلب کرلی، پراسکیوٹر جنرل نیب بتلائے کہ اگر نیب سمیت کوئی بھی ادارہ آئین و قانون کی پاسداری نہ کرے، لوگوں کو سالوں ریلیف نہ دے ، عدالتی احکامات پر کئی کئی ماہ عمل نہ کرے ، تو عدالتیں کیا کریں ، سپریم کورٹ کی نیب مقدمات کے غیر ضروری التواء بارے آئین و قانون نے ہم پر کیا حدود مقرر کررکھی ہیں ،عدالت کا حکم، نیب نے اوگرا کے سابق چیئرمین توقیر صادق اور دیگر ملزمان کیخلاف کی گئی کارروائی سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کر ادی ،سپریم کورٹ کو نیب سمیت تمام اداروں کے قانون کے مطابق کام نہ کرنے پر ہر طرح کی مداخلت کا اختیار حاصل ہے، شہریوں کو جلد سے جلد انصاف کی فراہمی کیلئے عدالتیں اپنا اختیار استعمال کرسکتی ہیں، اٹارنی جنرل کے دلائل، آسٹریلیا ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے ہم تو ابھی بھی سر راہ کھڑے ہیں یہ عدالتیں بے لگام نہیں ہیں ، ہر ادارے کی اپنی حدود و قیود ہیں ‘جسٹس جواد کے ریمارکس

جمعہ 24 جنوری 2014 07:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔24جنوری۔2014ء) سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب اور عدالتی اختیارات کے حوالے سے آئین و قانونی معاملات پر پراسکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا سے آج (جمعہ کو ) حتمی وضاحت طلب کی ہے اور کہا ہے کہ پراسکیوٹر جنرل نیب بتلائے کہ اگر نیب سمیت کوئی بھی ادارہ آئین و قانون کی پاسداری نہ کرے اور لوگوں کو سالوں ریلیف نہ دے ، عدالتی احکامات پر کئی کئی ماہ عمل نہ کرے ، تو عدالتیں کیا کریں ، سپریم کورٹ کی نیب مقدمات کے غیر ضروری التواء بارے آئین و قانون نے ہم پر کیا حدود مقرر کررکھی ہیں ۔

یہ حکم جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعرات کے روز جاری کیا ہے ۔ نیب نے عدالتی حکم پر عمل کرتے ہوئے اوگرا کے سابق چیئرمین توقیر صادق اور دیگر ملزمان کیخلاف کی گئی کارروائی سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروادی ہے جبکہ اٹارنی جنرل پاکستان سلمان اسلم بٹ نے دلائل میں موقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ کو نیب سمیت تمام اداروں کے قانون کے مطابق کام نہ کرنے پر ہر طرح کی مداخلت کا اختیار حاصل ہے آئین کے دیپاچے اور نیب آرڈیننس 1999ء کے دیپاچے میں بھی واضح کردیا گیا ہے کہ شہریوں کو جلد سے جلد انصاف کی فراہمی کیلئے عدالتیں اپنا اختیار استعمال کرینگی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ دلائل گزشتہ روز دیئے ہیں ۔ اوگرا عملدرآمد کیس میں کے کے آغا پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے رپورٹ پیش کی ۔ کے کے آغا نے نیب کے دائرہ کار کے حوالے سے بھی دلائل دیئے نیب چیئرمین نے اجلاس بلایا تھا اور اس دوران فیصلے کئے گئے ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ جو چیز 45دنوں میں چاہیے تھی وہ 26 ماہ میں بھی نہیں آئی ہمیں واضح بتا دیں 42ویں سماعت کررہے ہیں کیا احکامات جاری ہوئے ہیں ہم نے آپ کو معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی طلب کررکھا ہے اگر فیصلے اور رپورٹ کی کاپی ہے تو وہ دے دیں اوگرا میں قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے اور نیب قانون کے مطابق کیا کرسکتی ہے ہم اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں ۔

اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کیا تو عدالت نے آرڈر پڑھنے کا کہا جس پر اے جی نے آرڈر پڑھا جس میں کہا گیا تھا کہ چیئرمین نیب بھی انکوائری کا حکم دے سکتے ہیں اگر وہ خود موجود نہیں ہے تو معاملات بھی رکے رہیں گے ۔ کے کے آغاز کے مطابق نیب کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں پراسکیوٹر جنرل نیب نے اس حوالے سے ایک الگ درخواست بھی دائر کررکھی ہے جبکہ چیئرمین نے کہا ہے کہ معاملہ دائرہ کار کا نہیں ہے اس حکمنامے پر اے جی نے کہا سب سے پہلے آئین کا دیپاچہ پڑھنا چاہتا ہوں وہ بہت اہم ہے سال 2000ء میں حاجی نواز کھوکھر میں بھی سپریم کورٹ نے وضاحت کردی ہے کہ وہ نیب کے معاملات میں مداخلت کا اختیار رکھتی ہے تمام پبلک آفسز میں شفافیت کو برقرار رکھنا عدالت کی ذمہ داری ہے کرپشن سے روکنا بھی عدالت کا اختیار ہے ۔

اے جی نے نیب آرڈیننس 1999ء کا بھی دیپاچہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ کرپشن کے حوالے سے مقدمات کو جلد نمٹانا نیب کے لئے ضروری ہے جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارے لئے مسئلہ یہ ہے کہ 26 مہینے قبل فیصلہ کیا ہے مگر نتائج آج بھی سامنے نہیں آئے ۔ ٹرائل میں عرصہ لگ سکتا ہے اے جی نے کہا کہ سیکشن 18 میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب بھی ریفرنس بھجوا سکتی ہے تبھی عدالتیں اس مقدمے کی سماعت کرینگی ۔

دیپاچہ کہتا ہے کہ ہمیں ہر مقدمے کو جلد سے جلد نمٹانا ہے اور اس میں شفافیت کو بھی محلوظ رکھا جائے گا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہم نے اکتالیس سماعتیں اس سے قبل کررکھی ہیں وہ قانون کے مطابق ہیں یا فضول ہی وقت گزرار دیا ہے آئین کے دیپاچے کے تحت عدالت کو چیئرمین نیب کے اختیارات کے علاوہ بھی انکوائری کے معاملات میں مداخلت کرسکتی ہے ۔

اے جی نے کہا کہ اگر تحقیقاتی ادارے مقررہ وقت میں تحقیقات مکمل نہیں کرتے تو انہیں اعلیٰ عدلیہ کو اس حوالے سے حکم جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔ اے جی نے آر پی پیز کیس کا بھی حوالہ دیا عدالت نیب اور دیگر اداروں کی نااہلی کی وجہ سے معاملات میں تمام تر مداخلت کا اختیار رکھتی ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کچھ نئے مقدمات ہیں ہم نے جوڈیشل رویو کے حوالے سے فیصلے دیئے ہیں آسٹریلیا ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے ہم تو ابھی بھی سر راہ کھڑے ہیں یہ عدالتیں بے لگام نہیں ہیں اور ہمارا کیا کوئی حرف آخر نہیں ہے اگر قوانین ہمیں روکیں گے تو ہم ضرور ر کیں گے ہر ادارے کی اپنی حدود و قیود ہیں ۔

مکمل طور پرنہیں مگر کچھ حد تک جوڈیشل ریویو کا اختیار ہے کہ نیب کا اختیار بھی متاثر نہ ہو ۔ اے جی نے دیگر فیصلوں کے بھی حوالے دیئے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پراپر مقدمات میں ہمیں مداخلت کا اختیار ہے ہمیں جوڈیشل رویوکے حوالے سے پراپر کیس کے پیرا میٹرز کا بھی جائزہ لینا پڑے گا ۔ کے کے آغا نے کہا کہ مجھے مزید وقت دے دیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ چیئرمین صاحب کے علاوہ کسی کو اختیار نہیں ہے اگر آپ کہتے ہیں کہ چیئرمین کے علاوہ بھی کسی کو اختیار ہے کہ تب ہم اے جی کو یہیں روک دیتے ہیں کے کے آغا نے کہا کہ ابھی تک معاملات سامنے آتے ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ ہر مقدمے کے خدوخال ہوتے ہیں مقدمے کے فیصلے کو اختیار کرنا نئی سے نئی صورتحال سامنے آسکتی ہے یہ بہت اہم ایشو ہے ہم تجویز کرتے ہیں کہ ابھی ہم اے جی کو دلائل سے روک دیتے ہیں کہ پہلے پراپر مقدمہ کیا ہے اس حوالے سے فیصلہ کرلیں ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ یہ بھی درست ہے کہ چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے صلاح و مشورے کا عرصہ بھی طویل ہوجاتا ہے اس پر بھی بات کرینگے یہ بھی اہم ایشو ہے اگر چیئرمین ہی نہیں ہے تو پھر کیا ہوگا حکومت نے مہربانی کی اور پانچ ماہ میں چیئرمین لگا دیئے پچاس ماہ کا عرصہ بھی لگادیتے تو ہم کیا کرسکتے تھے ۔ خصوصی عدالتوں کے قیام ٹربیونلز تک کا قیام بھی کافی عرصہ لگ گیا آپ دیکھیں لیں کہ عدالتی رویو نہیں ہوسکتا اس پر آپ بتادیں ہم اس کیس کو اگلے روز بھی سن سکتے ہیں آپ پر واضح کردیں گے تو معاملات واضح ہوجائیں گے ہمیں بار پار پانی کی پیمائش تو نہیں کرنا پڑے گی ممکن ہے کہ قانون کا جائزہ لے کر آپ بھی اس نتیجے پر پہنچ جائیں مگر میں ابھی تک اپنی حدود کو نہیں سمجھ پا رہا ہوں ۔

انہوں نے کے کے آغا سے کہا کہ آپ اگر رات بھر تیار کرکے ہمیں بتا دیں تو ہمارے لیے فیصلہ کرنا آ سان ہوگا اس سے دیگر لوگوں کے لیے بھی آسانی پیدا ہوجائے گی عدالت نے مقدمہ کی مزید سماعت آج جمعة المبارک تک ملتوی کردی عدالت نے اے جی کو ہدایت کی ہے کہ اپنے دلائل کی کاپی کے کے آغا کو بھی دے دیں کے کے آغا کو کہا تیاری کرکے آئیں اگر ہم جویشل رویو نہیں کرسکتے تو پھر ہمیں اپنے احکامات کو بھی دیکھنا ہوگا نیب ریفرنسوں کی کاپی بھی سپریم کورٹ میں فائل کی جائے ۔