قطر کی ”مشکوک“کمپنی سے ایل این جی کے پندرہ سالہ معاہدے کی کوششوں پر قانونی حلقوں اور توانائی کے ماہرین کا سخت تشویش کا اظہار،چیف جسٹس آف پاکستان سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ ،آنے والی نسلوں کو گروی رکھنے اور پاکستان کو اربوں ڈالرز کے نقصان کا خدشہ ، ڈیفالٹ کی صورت میں حکومت نے 100فیصد جرمانہ قبول کرنے پر اتفاق،جس گیس کی قیمت کل 12.69ڈالر تھی،اب 19.50ڈالر میں لی جارہی ہے،جی ایم صابری، اس نام کی کوئی کمپنی ہی قطر میں موجود نہیں،معاہدے میں خریدار پر ہی سارا بوجھ ڈالر دیا گیا ،یہ ڈمی کمپنی ہے ، لگتا ہے یہ کچھ مخصوص لوگوں کو نوازنے کی کوشش ہے،سابق ایم ڈی پیپکو

جمعرات 23 جنوری 2014 06:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23جنوری۔2013ء)قطر کی ”مشکوک“کمپنی سے ایل این جی کے پندرہ سالہ معاہدے کی کوششوں پر قانونی حلقوں اور توانائی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس کے ذریعے آنے والی نسلوں کو گروی رکھ دیا جائے گا اور پاکستان کو اربوں ڈالرز کے نقصان کا خدشہ ہے۔

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومت پہلے ہی 9 نجی بجلی گھروں(آئی پی پیز) کے 38ارب کے آڈٹ کے لئے انتہائی غیر معروف کمپنیوں کو ٹھیکہ دے چکی ہے اور یہ ٹھیکے بھی بغیر ٹینڈر کے دئیے گئے،جس کے بعد اب حکومت پاکستان قطر کی ایک ایسی کمپنی سے معاہدہ کرنے جارہی ہے،جس کی کوئی ساکھ نہیں،حتی کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق اس کمپنی سے قطر کی حکومت نے بھی مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور کمپنی سے کہا گیا ہے کہ وہ اس معاہدے کیلئے حکومت کا نام ہرگز استعمال نہ کرے اور ذاتی طور پر یہ معاہدہ کرے،اس طرح ایل این جی کا یہ معاہدہ حکومت ایک نجی کمپنی سے کر رہی ہے جبکہ اس میں پیپرا،اوگرا اور نیپرا جیسے متعلقہ اداروں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا اور اس طرح ان کے قواعد کی بھی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق حکومت اس سمجھوتے کیلئے ایک غیر معروف نجی کمپنی کو ساورن گارنٹی دینے پر اتفاق کرچکی ہے،یہ معاہدہ 15سال کیلئے کیا جارہا ہے اور گیس کی قیمت بھی فکس کی گئی ہے،جس میں کوئی تبدیلی بھی نہیں ہوسکتی،اس طرح مجموعی طور پر قومی خزانے کو ماہانہ36ملین ڈالر اور15سالہ مدت کے دوران6ارب48کروڑ ڈالر کے نقصان کا خدشہ ہے،یہ سمجھوتے کسی ٹینڈر کے بغیر کیا گیا ہے،رپورٹ کے مطابق ڈیفالٹ کی صورت میں حکومت نے 100فیصد جرمانہ قبول کرنے پر اتفاق کیا ہے جبکہ اس کے جواب میں نادہندگی کی صورت میں کمپنی کو صرف10فیصد جرمانہ کیا جائے گا،رپورٹ کے مطابق یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ اگر گیس استعمال نہیں کی جاتی تو پھر بھی کمپنی کو مکمل ادائیگی کی جائے گی اور اس کمپنی کا تعلق امریکہ سے بھی بتایا جاتا ہے،اس ضمن میں جب سابق سیکرٹری پٹرولیم جی اے صابری سے میڈیا نے رابطہ کیا تو انہوں نے اس سمجھوتے پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ناتجربہ کار لوگوں کو جس طرح آگے لایا جارہا ہے اس سے دل خون کے آنسو روتا ہے،انہوں نے کہا کہ ایل این جی کے بارے میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے نوٹس لیا تھا اور2010ء میں ہونے والے معاہدے کو دوبارہ ای سی سی میں لے جانے کا حکم دیا گیا تھا مگر اس حوالے سے جسٹس افتخار چوہدری بھی کوئی فیصلہ نہ دے سکے اور قوم کو نقصان ہوگا،جس گیس کی قیمت کل 12.69ڈالر تھی،اب یہ 19.50ڈالر فی ایم ایم سی ایف ڈی میں حاصل کی جارہی ہے۔

پیپکو کے سابق ایم ڈی منور بصیرنے انکشاف کیا کہ اس نام کی کوئی کمپنی ہی قطر میں موجود نہیں،معاہدے ہمیشہ متوازن ہوتے ہیں لیکن یہ بالکل یکطرفہ معاہدہ کیا جارہا ہے،حالانکہ ہمیشہ سپلائی کرنے والے پر کچھ پابندیاں لگائی جاتی ہیں لیکن یہاں تو خریدار پر ہی سارا بوجھ ڈالر دیا گیا ہے،یہ ایک ڈمی کمپنی ہے اور لگتا ہے کہ اس سمجھوتے کے ذریعے کچھ مخصوص لوگوں کو نوازنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

جی اے صابری نے کہا کہ قبل ازیں جو معاہدہ زیر غور تھا اس میں بینک گارنٹی دی جارہی تھی لیکن یہاں تو ساورن گارنٹی دی جارہی ہے اور حالت یہ ہے کہ اگر پورٹ قاسم کو دیکھا جائے تو دو تین سال تک اس معاہدے کو عملی شکل نہیں دی جارہی اور جب ہم سہولتیں ہی نہیں دے سکتے تو معاہدے پر عمل کس طرح ہوگا۔قانونی ماہر بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ یہ کیس پہلے ہی نیب کے پاس زیر التواء ہے اور اس کے ذریعے آنے والی نسلوں کو گروی رکھا جارہا ہے،ایسا مخصوص ہوتا ہے کہ قطر میں موجود سیف الرحمن یا اسی قسم کے دیگر لوگوں کو نوازا جارہا ہے،سپریم کورٹ کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہئے۔