میلینیم ترقیاتی اہداف کی پانچویں قومی رپورٹ جاری ، پاکستان نے اپنے کئی میلینیم ترقیاتی اہداف میں مسلسل پیشرفت کی ہے،ہمہ گیر پرائمری تعلیم کا مقررہ ہدف پورا کرنے کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں،رپورٹ، پاکستان میں سماجی ترقی سے متعلق میلینیئم ڈیویلپمنٹ گولز کی رپورٹ کے نتائج شرمناک ہیں،احسن اقبال ،ہمارے یہاں ہمیشہ سوچ رہی ہے کہ یہ شاید بین الاقوامی ذمہ داریاں ہیں جسے پورا کر لیا تو کر لیا، نہیں کیا تو نہیں کیا، اب بچوں کو پڑھانا، ماوٴں اور بچوں کی صحت ٹھیک کرنا یا لوگوں کو صفائی کی بہتر سہولیات دینا، یہ یو این کنونشن نہیں، یہ ہمارے اپنی ترقی کے تقاضے ہیں، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی کا انٹرویو

جمعرات 23 جنوری 2014 06:49

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23جنوری۔2013ء)وفاقی وزارت منصوبہ بندی اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے آج (بدھ) اسلام آباد میں پاکستان کے لئے میلینیم ترقیاتی اہداف کی پانچویں قومی رپورٹ پیش کر دی،رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاکستان نے اپنے کئی میلینیم ترقیاتی اہداف میں مسلسل پیشرفت کی ہے۔ ہمہ گیر پرائمری تعلیم کا مقررہ ہدف پورا کرنے کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں۔

منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال نے بدھ کو یہاں رپورٹ پیش کرنے کی تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے میلینیم ترقیاتی اہداف تیزی سے پوری کرنے کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے پر زور دیاہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت ان اہداف کو پورا کرنے کے لئے پرعزم ہے۔انہوں نے ملینیم ترقیاتی اہداف کو پاکستان کے قومی ترقیاتی اہداف قرار دیا ' انہوں نے کہا کہ افرادی قوت کے معیار سے ترقی کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے اور وڑن دوہزارپچیس میں انسانی ترقی ' ترقیاتی ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔

(جاری ہے)

امور داخلہ کی پارلیمانی سیکرٹری مریم اورنگزیب نے کہا کہ امن ' سلامتی اور استحکام سماجی شعبے کی اصلاحات پر عملدرآمد کے لئے ضروری ہیں۔اقوام متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل ہاؤلیانگ ژو نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان نے قدرتی آفات ' امن و امان کی خراب صورتحال اور عالمی مالیاتی بحران کے باوجود میلینیم ترقیاتی اہداف کے بعض اشاریوں میں پیش رفت کی ہے۔

ادھروفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے پاکستان میں سماجی ترقی سے متعلق میلینیئم ڈیویلپمنٹ گولز کی رپورٹ کے نتائج کو ملک کے لیے شرمناک قرار دیا۔امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کر تے ہوئے ہمارے یہاں ہمیشہ سوچ رہی ہے کہ یہ شاید بین الاقوامی ذمہ داریاں ہیں۔ جسے پورا کر لیا تو کر لیا، نہیں کیا تو نہیں کیا۔ اب بچوں کو پڑھانا، ماوٴں اور بچوں کی صحت ٹھیک کرنا یا لوگوں کو صفائی کی بہتر سہولیات دینا، یہ یو این کنونشن نہیں۔

یہ ہمارے اپنی ترقی کے تقاضے ہیں۔جبکہ میلینیئم ڈیویلپمنٹ گولز پر پارلیمان کی ٹاسک فورس کی سربراہ مریم اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ رپورٹ ”ڈیپرسنگ“ نہیں بلکہ یہ حکومت، قانون سازوں اور پالیسی سازوں کے لیے ایک ”ویک اپ کال“ ہے کہ وہ اپنی توجہ اور توانائیوں کو اس سمت میں استعمال کریں۔انہوں نے کہا کہ تمام صوبائی اسمبلیوں میں بھی ٹاسک فورس بنائی گئی ہیں اور بجٹ سے پہلے ان کے اجلاس ہونگے کیونکہ ہم بجٹ سے پہلے تمام قانون سازوں کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کے حلقوں اور پاکستانیوں کے لئے یہ سماجی ترقی کے انڈیکیٹرز کتنے ضروری ہیں۔

ترقیاتی شعبے میں اقوام متحدہ کے لئے پالیسی سازی کے ماہر شکیل احمد نے کہا کہ صرف اقتصادی ترقی ہی سے پاکستان میں خوشحالی ممکن نہیں بلکہ حکومت کو سماجی ترقی کو اپنی ترجیحات میں اہم مقام دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پچھلی دہائی میں بھارت میں بہت زیادہ اقتصادی ترقی ہوئی مگر وہاں نیپال کی نسبت غربت کے خاتمے یا سماجی ترقی اتنی زیادہ نہیں ہوئی۔

نیپال کی قومی پیداوار ہم سے بھی کم ہے۔ اگر آپ نے نوکریاں دینی ہے تو کن کو دینی ہے؟ اشرفیہ سے تعلق رکھنے والوں کو یا دیہاتوں میں رہنے والوں کو۔ دونوں سے ترقی ہوگی مگر اس میں کون شامل ہوگا یہ بھی اہم ہے۔اقوام متحدہ کے عہدیداروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو جنوب ایشیائی ممالک بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سماجی شعبوں میں ترقی کے لیے ایک موثر پالیسی کے تحت اقدامات کرنے چاہیں۔

پاکستان اس وقت تعلیم اور صحت پر مجموعی طور پر قومی پیداوار کو چار فیصد سے بھی کم خرچ کرتا ہے۔یاد رہے کہ پاکستان میں سماجی ترقی سے متعلق میلینیئم ڈیویلپمنٹ گولز کی رپورٹ 2013 کے مطابق ملک میں سلامتی کی صورتحال اور قدرتی آفات کے علاوہ حکومتی سطح پر عدم توجہ اور فعال پالیسی کے فقدان کے باعث سماجی ترقی سے متعلق اہداف حاصل نہیں ہو پائیں گے۔

اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کی طرف سے بدھ کو جاری کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعلیم، صحت، انتہائی غربت کے خاتمے، خواتین کو بااختیار بنانے، کم عمر بچوں کی اموات میں کمی اور ماحولیات کے شعبوں کے لیے طے کردہ کسی بھی ہدف کو پاکستان 2015 تک حاصل نہیں کر پائے گا اور صرف چند ذیلی شعبوں میں امید کی جاتی ہے کہ کچھ بہتری آئے۔اقوام متحدہ کے عہدیداروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو جنوب ایشیائی ممالک بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سماجی شعبوں میں ترقی کے لیے ایک موثر پالیسی کے تحت اقدامات کرنے چاہیں۔پاکستان اس وقت تعلیم اور صحت پر مجموعی طور پر قومی پیداوار کو چار فیصد سے بھی کم خرچ کرتا ہے۔