مالاکنڈ سے 35لاپتہ افراد کیس کی سماعت،وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد بارے آرڈیننس کی کاپی عدالت میں پیش کردی،عدالت کا خیبر پختونخواہ حکومت کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار، 27 جنوری کو دوبارہ رپورٹ جمع کروانے کا حکم،کچھ ادارے خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں‘ آئین و قانون سے انحراف کرنے والے ملک کو مشکل میں ڈال رہے ہیں‘ جسٹس جواد ایس خواجہ، صوبائی حکومت کا جواب بے معنی ہے‘ بندے اٹھانے کی کیسے اجازت دی جاسکتی ہے، عدالت وزیراعلی کے پی کے کو طلب کرسکتی ہے‘ 35 شہری لاپتہ ہیں اور صوبائی حکومت کہتی ہے کہ ان کی تحویل میں نہیں،ریمارکس

جمعرات 23 جنوری 2014 06:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23جنوری۔2013ء) سپریم کورٹ میں مالاکنڈ سے اٹھائے جانے والے 35 لاپتہ افراد کے مقدمات میں وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد بارے آرڈیننس کی کاپی عدالت میں پیش کردی‘ کاپی اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے جمع کروائی‘ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ راتوں رات عدالتی حکم پر آرڈیننس تیار کیا گیا ہے جس کی منظوری کیلئے سمری ارسال کردی گئی ہے‘ آرڈیننس کے ذریعے تین ترامیم کی گئی ہیں اس پر عدالت نے کہا کہ آرڈیننس کا جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی حکم جاری کیا جائے گا جبکہ عدالت نے خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا اور 27 جنوری کو دوبارہ رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ کچھ ادارے خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں‘ آئین و قانون سے انحراف کرنے والے ملک کو مشکل میں ڈال رہے ہیں‘ کوئی ہماری باتیں جتنی بھی سنی ان سنی کردے آئین و قانون اور حقائق تبدیل نہیں ہوں گے‘ عدالتی حکم کا نہ ماننا ہو تو جو مرضی کرلو قانون سازی نہیں ہوگی مگر مرضی کا آرڈیننس صرف ایک رات میں جاری ہوجاتا ہے‘ پتہ نہیں اتنے اہم آرڈیننس کی تیاری میں اتنی تاخیر کیوں کی جاتی ہے‘ صوبائی حکومت کا جواب بے معنی ہے‘ بندے اٹھائے جارہے ہیں اس عمل کی کیسے اجازت دی جاسکتی ہے‘ عدالت وزیراعلی کے پی کے کو طلب کرسکتی ہے‘ صوبے کے 35 شہری لاپتہ ہیں اور صوبائی حکومت کہتی ہے کہ لاپتہ افراد ان کی تحویل میں نہیں۔

(جاری ہے)

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے بدھ کے روز 35 لاپتہ افراد کے مقدمہ کی سماعت شروع کی تو اس دوران عدالت کو اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے بتایا کہ ان کی چیف ایگزیکٹو اور دیگر حکام سے ملاقات ہوئی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ عدالتی حکم پر مکمل طور پر عمل کیا جائے گا۔ قانون سازی کا بھی جلداز جلد حکم دیا ہے اور اس حوالے سے آرڈیننس جاری کرنے کا کہا ہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ من وعن دس مرتبہ یہ بات بتائی جاچکی ہے۔ ٹاسک فورس اور آرڈیننس بارے پہلے بھی کہا گیا ہے۔ گڈرئیے کے قصے کی مانند حالات چل رہے ہیں۔ اے جی نے کہا کہ آرڈیننس کی کاپی ہمارے پاس ہے جو صدر کو دستخطوں کیلئے بھجوایا جا رہا ہے ۔ جسٹس جواد نے کہاکہ ہم اپنے اختیارات جانتے ہیں وہ محدود ہیں۔ ہم حکومت کو آرڈیننس جاری کرنے کا حکم نہیں دے سکتے۔

تاسف ملک کیس کی بھی سماعت کی جاچکی ہے۔ عدالت نے طارق کھوکھر سے کہا کہ اگست میں اس کی پہلی سماعت ہوئی۔ ہم نہیں کہیں گے کہ آپ نے آرڈیننس جاری کرنا ہے یا نہیں۔ پارلیمنٹ اس حوالے سے کچھ کرتی ہے یا نہیں لیکن ہم وہ کچھ کریں گے جس کی قانون ہمیں اجازت دیتا ہے۔ اے جی نے کہا کہ ان کی موجودگی میں آرڈیننس کے اجراء کی سمری بھی بھجوائی جاچکی ہے۔

وقفے کے بعد اس کی کاپی بھی مل جائے گی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ جس لمحے آئین و قانون سے انحراف کرتے ہیں اس کی وجہ سے ملک کو مشکل حالات میں ڈال دیتے ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ نے بھی فیصلہ دیا تھا کہ اگر ملک میں قانون کام نہیں کرے گا اس کا کیا ہوگا۔ ہم جتنی بھی سنی ان سنی کردیں حقائق نہیں بدلیں گے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان پر قانون لاگو نہیں ہوتا۔

قانون سازی کو دیکھیں گے کہ کس حد تک صحیح قانون سازی ہوگی۔ بعدازاں عدالت میں اٹارنی جنرل نے لاپتہ افراد کے حوالے سے آرڈیننس کی کاپی پیش کی جس پر جسٹس جواد نے کہا کہ پتہ نہیں آرڈیننس میں اتنی تاخیر کیوں کی جاتی ہے۔ اے جی نے بتایا کہ تین ترامیم کی گئی ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ مرضی کا آرڈیننس ایک رات میں جاری ہوجاتا ہے۔ اے جی نے بتایا کہ صرف ایک رات میں آرڈیننس تیار کیا گیا۔

جسٹس جواد نے کہا کہ یہ آرڈیننس جولائی میں ڈرافٹ کیا گیا تھا۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے کو طلب کرلیا۔ عدالت نے کہا کہ آرڈیننس کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا یہ قانون کے مطابق ہے یا نہیں۔ عدالت نے کے پی کے کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ مسترد کردی۔ ۔ اس دوران ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے لطیف یوسفزئی نے عدالت سے استدعاء کی کہ وہ اعلی حکام سے بات کرنا چاہتے ہیں اس کیلئے انہیں تھوڑا سا وقت دیا جائے اس پر عدالت نے انہیں وقت دیتے ہوئے سماعت 27 جنوری تک ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :