خصوصی عدالت کا قیام قانون کے عین مطابق عمل میں لایا گیاہے،اکرم شیخ،مشرف کے خلاف کے دستاویزات کی صورت میں شہادت موجود ہے ، ان کے دستخط موجود ہیں،ان کے بیان پر شریک ملزمان کو شامل تفتیش کیا جا سکتا ہے،دلائل مکمل،سابق صدر کے وکیل انور منصور جمعرات کو دلائل دیں گے

بدھ 22 جنوری 2014 06:31

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22جنوری۔2013ء)سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین سے سنگین غداری کے مقدمہ کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے وکلائے صفائی کے اعتراضات پر مقدمہ کے پراسیکیوٹر اکرم شیخ کے دلائل مکمل ہونے پر سماعت کل جمعرات تک ملتوی کر دی ہے، جبکہ اکرم شیخ نے کہا ہے کہ سابق صدر کے علاوہ 3نومبر 2007ء کے اقدامات کے ٹھوس شواہد یا ریکارڈ موجود ہیں،وزیر اعظم نے عدالت عظمیٰ کے حکم پر ایف آئی اے کو سابق صدر کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا،قانون کے مطابق مرکزی ملزم کے بیان پر اس کے جرم میں شریک افراد کو شامل تفتیش کیا جا سکتا ہے مگر محض بیانات یا تنقید پر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے کسی کو شامل تفتیش کرنا مناسب نہیں، خصوصی عدالت کے قیام کے لئے آئین و قانون کے تمام ضابطے پورے کر کے شفاف طریقہ کار اختیار کیا گیا،ججز کا تقرر چیف جسٹس آف پاکستان کی خواہش پر نہیں کیا گیا بلکہ حکومتی خط پر انہوں نے پانچوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو نام بھیجنے کا کہا ، آئین و قانون کے مطابق خصوصی عدالت کے لئے تین ججز میں سے سنیئر جج کو سربراہ بنایا گیا۔

(جاری ہے)

منگل کے روز مقدمہ کی سماعت تین رکنی خصوصی عدلت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں ہوئی۔اس موقع پر مقدمہ کے پراسیکیوٹر نے وکلائے صفائی کی جانب سے اعتراضات پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موٴقف اختیار کیا کہ خصوصی عدالت کا قیام قانون کے عین مطابق عمل میں لایا گیاہے،وزیر اعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان اس معاملے میں فریق نہیں تھے،ملزم کے خلاف کے دستاویزات کی صورت میں شہادت موجود ہے ، ان دستاویزات پر پرویز مشرف کے دستخط موجود ہیں۔

اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ وکلائے صفائی نے خصوصی عدالت کے قیام اور ججز کی تقرری پر اعتراضات اٹھائے ہیں کیا ان اعتراضات کے جواب دیں گے؟ عدالت کی تشکیل کے لیے عمل کا آغاز کیسے اور کس نے کیا؟ ہم تفتیشی رپورٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اکرم شیخ نے کہاکہ سیکرٹری داخلہ نے سیکرٹری قانون کو خط لکھا جس پرسیکرٹری قانون کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان سے ججز کی نامزدگی کیلیے کہا گیا۔

اس درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان نے پانچوں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سے ایک ایک جج کا نام بھیجنے کو کہا اور موصول ہونے والے ناموں میں اس تین ہائی کورٹ کے ججز کو نامزد کر کے آئین و قانون اور طریقہ کار کے مطابق سینئر ترین کو خصوصی عدالت کا سربراہ مقرر کر دیا گیاور معاملہ دوبارہ وزارت قانون و انصاف کے پاس چلا گیا،ان کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کے لیے ججز کی نامزدگی بھی متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز نے کی ، سپریم کورٹ نے صرف رابطے کا کردار ادا کیا۔

اکرم شیخ کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی جانب سے کی گئی تفتیش میں وکلاء صفائی کی ٹیم کے سربراہ نے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ ان کا معاملے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ سب اقدامات پرویز مشرف نے خود کیے۔اس پر جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ سیکرٹری داخلہ سنگین غداری کے مقدمہ کی کارروائی شروع کرانے کا از خود اختیار رکھتا ہے اورکیا سیکرٹری داخلہ کو ملزم کے' پک اینڈ چوز 'کا بھی اختیار ہے ؟اکرم شیخ نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بعد حکومت نے سیکرٹری داخلہ کو شکایت درج کرانے کا مجاز افسر نامزد کیا۔

سیکرٹری داخلہ کو غداری کے مقدمے کی کارروائی شروع کرنے کا اختیار ہے ، ملزمان کا چناو سیکرٹری داخلہ نہیں کرتا، یہ بات تفتیش پر منحصر ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ وکلاء صفائی کہتے ہیں کہ صرف ایک شخص کیخلاف کارروائی کی جا رہی ہے جس پر مقدمہ کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ثبوت صرف پرویز مشرف کے خلاف ملے ہیں جس کی بناء پر ان کے خلاف غداری کے مقدمہ کی کارروائی شروع کی گئی ،ان کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم کے بیان پر اس کے جرم میں شریک ملزمان کو شامل تفتیش کیا جاسکتا ہے،محض بیان بازی یا تنقید پر کسی کو حکومت از خود شامل نہیں کر سکتی۔

اب وقت آگیاہے کہ پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوکر اپنابیان ریکارڈ کروائیں۔بعد ازاں وکیل صفائی انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ وہ بیمار ہیں جس کے باعث وہ دلائل دینے کے قابل نہیں ،انہوں نے عدالت سے سماعت کل جمعرات تک ملتوی کرنے کی درخواست کی جس پر عدالت نے مقدمہ کی سماعت ملتوی کر دی۔