توقیرصادق عملدرآمد کیس،سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو طلب کر لیا،اتنے بڑے سکینڈل کو نیب معمول میں ڈیل کر کے خراب کر رہا ہے،توقیر صادق کی تقرری،,82 ارب روپے کی وصولی ، تیسرا پہلو توقیر صادق کے فرار میں مدد اور نیب کے اپنے لوگوں کیخلاف کارروائی؟ کچھ بھی نہیں کیا گیا،نیب حکام اتنے بڑے سکینڈل میں ملوث ملزمان کو بچانے کے لئے جان بوجھ کر غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں، جسٹس جواد ایس خواجہ،یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا چیئرمین نیب کے علاوہ کوئی انکوائری کا حکم نہیں دے سکتا؟،قانون یہ نہیں کہتا کہ چیئرمین نیب سویا رہے اور اگر وہ موجود بھی ہو تب بھی کارروائی نہ کی جائے، نیب نے ابھی تک اپنے یا دوسرے افسران کے خلاف کچھ نہیں کیا،ریمارکس

بدھ 22 جنوری 2014 06:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22جنوری۔2013ء)سپریم کورٹ نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا کے سابق چیئرمین توقیر صادق عمل درآمد کیس میں قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کو آج (بدھ کو) وضاحت کے لئے ذاتی طور پر طلب کرلیا۔جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے حکمنامے میں کہا ہے کہ نیب حکام نے 26 ماہ گزر گئے،عدالتی احکامات پر عمل نہیں کیا ۔

اتنے بڑے سکینڈل کو نیب معمول میں ڈیل کر کے خراب کر رہا ہے۔مقدمے کے چار پہلو ہیں ۔پہلا پہلو توقیر صادق کی تقرر کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی ،دوسرا پہلو82 ارب روپے کی وصولی کرنا، تیسرا پہلو توقیر صادق کے فرار میں مدد دینے والے ادارے اور افراد کے خلاف کارروائی کرنا اور چوتھا پہلو نیب اور نیب سے باہر نا اہلی دکھانے والے ادارے اور افراد کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔

(جاری ہے)

نیب نے 2013 ء میں صرف ایک ریفرنس دائر کیا ہے جو احتساب عدالت میں زیر سماعت ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب حکام اتنے بڑے سکینڈل میں ملوث ملزمان کو بچانے کے لئے جان بوجھ کر غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ نیب نے ہر بار ایک نئی تاریخ حاصل کرنے کے سواکچھ بھی نہیں کیا ہے،مزید وقت نہیں دے سکتے۔صرف پانچ ماہ چیئرمین نیب نہیں تھے مگر 21 ماہ عہدے پر موجود چیئرمین نے بھی کچھ نہیں کیا ۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا چیئرمین نیب کے علاوہ کوئی انکوائری کا حکم نہیں دے سکتا اور اس حوالے سے عدالت کو بھی اختیار نہیں ہے ، اب بہت ہوگیا ۔چیئرمین نیب کو اس سارے معاملے کی وضاحت دینا ہی پڑے گی ۔قانون یہ نہیں کہتا کہ چیئرمین نیب سویا رہے اور اگر وہ موجود بھی ہو تب بھی کارروائی نہ کی جائے۔ نیب نے ابھی تک اپنے افسران کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی ۔

پنجاب پولیس ،این ایچ اے ،موٹروے پولیس اور امیگریشن حکام بھی نااہلی میں مبینہ طور پر ملوث ہے ان کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی گئی ۔ انہوں نے یہ ریمارکس منگل کو کیس کی سماعت کے دوران دیئے ہیں ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اوگرا عمل درآمد کیس کی سماعت کی ۔اس دوران جسٹس جواد نے کہا کہ انکوائری نے طوالت اختیار کر لی ہے ۔

اتنا وقت ہوا ہے ۔کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ کے کے آغا نے کہا کہ انکوائری مکمل ہو چکی ہے اب فیصلے عدالتوں نے کرنے ہیں ۔اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ توقیر صادق کے خلاف اب تک کیا تحقیقات کی ہیں اس حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا جائے ۔کے کے آغا نے کہا کہ انہیں اس بارے معلومات نہیں جس پر عدالت نے کہا کہ ساڑھے گیارہ بجے تفصیلی رپورٹ پیش کریں ۔وقفے کے بعد کے کے آغا دوبارہ پیش ہوئے اور کہا کہ دفتر سے رابطہ کیا ہے ۔

شاہد شیخ جو کہ اس کیس کو ڈیل کررہے ہیں وہ کراچی میں مینجمنٹ کورس پر گئے ہیں۔ڈائریکٹر بھی کراچی میں ہیں ۔25 نومبر 2011 ء کا معاملہ ہے ۔30 نومبر2011 کو انکوائری کا آغاز کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے سے دسمبر میں معلومات حاصل کی گئیں۔ جنوری2012 کو توقیر صادق کو نوٹس جاری کئے گئے اور گواہوں کوبھی طلب کیا گیا ۔جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کی باتوں سے ہی کافی ڈسٹرب ہوگیا ہوں ۔

نیب کو دو سال گزر گئے اور کوئی معلومات نہیں دی جارہی ہے اور وہ کراچی چلا گیا ۔بادی النظر میں اتنا بڑا سکینڈل ہے ۔نیب اس کو معمول میں ڈیل کر کے مقدمے کو خراب کررہا ہے ۔مارچ2012 ء تک کچھ نہیں کیا گیا تھا۔آپ کے نزدیک یہ ایک عام سامقدمہ ہے حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔25 نومبر کا فیصلہ پڑھ لیں۔28 مئی2013ء کو چیئرمین نیب فارغ ہوئے ۔نئے چیئرمین کا تقرر کیا گیا۔

6 ماہ تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔توقیرصادق کی تقرری کا معاملہ بھی زیر بحث نہ لایا جا سکا۔اب کیس پراسیکیوشن کے پاس ہے ۔ابھی تک متعلقہ اتھارٹی نے اس مقدمے کے حوالے سے فیصلہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی آگے فیصلہ ہونے کا امکان ہے۔ نئے چیئرمین سے تفصیل کے ساتھ ان مقدمات پر بات ہوئی ہے۔ انہوں نے بدعنوانی کے مقدمات میں فوری کارروائی کرنے کا کہا ہے۔

معاملات کافی حد تک مکمل ہو چکے ہیں ۔کارروائی بارے مزید تحقیق کر کے رپورٹ دینا چاہتا ہوں ۔اس کیس کے دو پہلو ہیں۔جسٹس جواد نے کہا کہ اس کا تیسرا پہلو بھی ہے۔آپ کے دفتر نے خود توقیرصادق کو سہولت دی کیسے وہ دبئی گیا،کبھی ڈھاکہ ،کبھی سری لنکا اور کبھی کہیں اور جارہے ہیں اور وہ ہاتھ نہیں آرہا تھا ۔آپ نے اپنے لوگوں کے خلاف کیا کارروائی کی ہے ۔

کے کے آغا نے کہا کہ تفتیش کے دو پہلو ہیں ایک تو اندرونی معاملہ ہے ۔وارنٹ جاری کئے گئے ۔چیئرمین نیب نے معاملات کو جلد مکمل کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے ۔دوسرے بیرونی پہلو ہے پنجاب پولیس ،سفارت خانہ، عملہ،نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور دیگر اداروں سے متعلقہ ہیں۔اس کیس میں غیر جانبدار تفتیشی افسر کام کررہے ہیں۔پنجاب پولیس اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی ایک فوجداری جرم میں مبینہ طور پر ملوث ہیں اس حوالے سے بھی انکوائری مکمل ہو گئی ہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ26 ماہ ہوگئے ہیں ۔فیصلے کئے ہوئے پانچ ماہ چیئرمین نیب نہیں تھے وہ عرصہ نکال دیں۔21 مہینے میں ابھی تک ریفرنس نمبر ایک کے کوئی کارروائی نہیں کی گئی جہاں پر 25 نومبر 2011 کو تھے آج بھی وہیں ہیں ۔کوئی سفر طے نہیں کیا گیا۔ اگر21 مہینے میں اس بات کا بھی فیصلہ نہیں کر سکے کہ کس نے توقیصر صادق کی تقرری کی ۔نیب کے اندر کیا ہوا ۔

پنجاب پولیس کیا نااہلی کی ہے۔26 مہینے ہم اور انتظار کر لیتے ہیں۔ کے کے آغا نے کہا کہ چیئرمین نیب سے بات ہو چکی ہے اس طرح کے مقدمات میں2 ہفتوں میں فیصلے کر لیں گے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ جس طرح آپ کام کررہے ہیں دو ہفتے نہیں دو سال لگ سکتے ہیں۔ قانون کا مطلب یہ نہیں کہ چیئرمین سویا رہے اور کوئی دوسرا فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ اگر کوئی معقول وضاحت ہو تو ہم دو سال دے سکتے ہیں۔

کوئی وضاحت تک نہیں دی گئی ۔اگر مقصد دیکھ لیں تو بھی بات سامنے آ سکتی ہے ۔ہمارے روبرو کوئی تو وضاحت ہو تا کہ ہم فیصلے کر سکیں۔قانون نے اختیار چیئرمین نیب کو دیا ہے اگر وہ فیصلے نہیں کرتے تو معاملہ رکا رہے گا ہم بھی فائل بند کر لیں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ چیئرمین نیب نے45 روز میں معاملے کی تحقیقات کر کے رپورٹ دینا تھی تاہم وہ رپورٹ نہیں دی گئی ۔

آپ نے چھ ماہ کے بعد ایک رپورٹ دی وہ بھی نامکمل تھی ۔اس پر ہم نے دوفتہ یمزید دیئے۔ دو اگست2012 ء کو بھی یہی کچھ ہوا۔52 ارب روپے کے معاملہ پر صرف 8 ارب وصول ہوئے تھے۔8 اگست2012 کو پھر جامع رپورٹ طلب کی ۔اس سے بات واضح ہوئی ہے کہ ہمارے حکم کی جان بوجھ کر خلاف ورزی کی گئی اور عمل نہیں کیا گیا۔13 اگست2012 کو ایک بار پھر چیئرمین نیب سے ذاتی مداخلت کرنے اور رپورٹ دینے کا کہا۔

ملزم کی گرفتاری کا بھی پھر سے حکم دیا گیا ۔آپ نے نوٹ کیا ہوگا۔ ہم نے بار بار موقع دیا کہ پلیز کچھ کریں مگر پھر بھی کچھ نہیں کیا گیا۔13 اگست 2012 کو پیش کردہ رپورٹ پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ کو مسترد کر دیا گیا ۔اس موقع پر کچھ کرنے کو پھر تین ہفتے دے دیئے۔ 13 ستمبر 2012 کو پھر حکم جاری کیا گیا ۔ہم یہ فیصلے پڑھا کر یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ پتہ نہیں نیب نے ہماری کس ہدایت پر عمل کیا ہے۔

اکتوبر2013 ء میں بھی یہی کچھ ہوا ۔کسی ایک ہدایت پر عمل کیا ہوا نظر نہیں آیا۔ہم نے اس وقت کہا تھا کہ ہم نے نیب کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرنا چاہیے۔26 مہینے سے نیب کو وقت دیتے رہے ہیں ۔کے کے آغا نے کہا کہ اس مقدمے میں کافی وقت لگا ہے۔تین سے چار روز مزید دے دیں۔جسٹس جوا دنے کہا کہ ہم آپ کو تحقیقات سے نہیں روک رہے ہیں صرف اتنا بتادیں کہ کس ہدایت پر آپ نے عمل کیا ہے؟ ہم میں سے کوئی بھی جج آپ سے خوش نہیں ہے ۔

آپ نیب کی سیکشن 18 سی کے تحت تحقیقات کررہے ہیں ۔آپ کو ذاتی طور پر پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے دیگر حکام بھی موجود ہیں۔کے کے آغا نے کہا کہ وہ ذاتی کوششوں سے کیس حل کرنے میں مصروف ہیں ۔جسٹس جواد نے کہا کہ اکتوبر2012 ء سے اب تک 15 ماہ مزید گزر گئے ۔ہم کیا کریں آپ خود بتا دیں۔اب دو سے تین ہفتے ہم دینے کو تیار نہیں ہیں۔کے کے آغا نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ کیس پر کافی وقت لگتا ہے ۔

مگر اس کی بھی وجوہات ہیں ۔اکتوبر سے بعد کی پیش رفت بتائیں۔ نیب یہ عدالت ایک ہی راستے کے راہی ہیں ۔ہم نے بدعنوانی ،غیر قانونی تقرریوں کو روکنا ہے ۔ہم نہیں چاہتے کہ کرپٹ لوگوں کو بیرون ملک فرار ہونے کا موقع دیا جائے ۔کے کے آغا نے کہا کہ وہ ہدایات لئے بغیر بات کررہے ہیں ۔مجھے چیئرمین سے بات کرنے دیں ۔دو ہفتے دے دیں اس پر حتمی پیش رفت کریں گے۔

کافی شہادت بھی موجود ہے کہ ملزمان کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ہم آپ کو ہدایات کے حصول کے لئے ایک روز مزید دے رہے ہیں ۔عدالت نے آرڈر میں کہا کہ ہم اس حصہ کو کافی عرصے سے سن رہے ہیں۔تفصیل کے ساتھ عدالتی فیصلوں کا بھی جائزہ لیا ہے ۔آرڈر شیٹ ظاہر کرتی ہے کہ26 ماہ سے زیادہ گزر گئے ہیں مگر عدالتی حکام پر عمل نہیں کیا گیا ۔مقدمے کے چار پہلو ہیں،پہلا پہلو بہت سے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنا ہے جو توقیر صادق کے تقرر میں ملوث تھے۔

دوسرا پہلو ان لوگوں کو جن میں توقیر صادق اور دیگر افراد کے خلاف کارروائی کرنا ہے اور ان سے 82 ارب روپے کی وصولی کرنا ہے۔ تیسرا پہلو ان لوگوں کے مقدمات ہیں جنہوں نے توقیرصادق کو فرار ہونے میں مدد فراہم کی اور وہ بیرون ملک فرار ہوگیا۔چوتھا پہلو یہ ہے کہ اب تک پراگریس رپورٹ شامل ہے۔نیب اور نیب سے باہر لوگوں کے خلاف کارروائی شامل ہے۔

صرف ایک ریفرنس فائل کیا گیا ہے اور وہ بھی احتساب عدالت میں زیر سماعت ہے ۔ہمیں پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے بتایا ہے کہ مئی2013 ء سے اکتوبر 2013 کے درمیانی عرصے میں نیب کا کوئی چیئرمین نہیں بنایا گیا تھا اس لئے مذکورہ بالا مقدمات میں پیش رفت نہیں ہو سکی ۔26 میں 21 مہینے چیئرمین موجود رہے ہیں مگر کیس میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔پراسیکیوٹر جنرل نیب نے چیئرمین نیب سے ہدایات کے لئے وقت دینے کی استدعا کی ہے۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت کے چیئرمین نیب نے کارروائی کیوں نہیں کی ۔اس کی وہ وضاحت دیں ۔پراسیکیوٹر جنرل نیب کہتے ہیں کہ صرف چیئرمین ہی تفتیش اور انکوائری کا حکم دے سکتے ہیں ۔کسی اور کو اس کا اختیار نہیں ہے ۔اگر چیئرمین نہ ہو یا چیئرمین کا رروائی نہ کرے تو معاملات زیر التوا ہو رہے ہیں اور اس عدالت کو کچھ بھی کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔

یہی ایک سوال ہے جو اہمیت کا حامل ہے ۔ان حقائق کی وجہ سے بدعنوانی کے خلاف مقدمات میں ملزمان کو رہا ہونے کا موقع مل جاتا ہے ۔چیئرمین ہمیشہ چیئرمین ہوتا ہے اگر چیئرمین عدالتی ہدایات کے مطابق کارروائی نہیں کرتا تو وہ اس سارے معاملے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ نیب بتائے کہ اب تک کیا کارروائی کی گئی ہے ۔چیئرمین نیب ذاتی طور پر پیش ہو کر معاملے کی وضاحت کریں ۔مزید سماعت آج بدھ کو ہوگی۔