طالبان سے مذاکرات کے سوا کوئی دوسرا آپشن امن کے حصولوں کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیگا، وقت آگیاہے،فضل الرحمان ، ان حالات کا سدباب کیا جائے جس نے طالبان کو جنم دیا، طالبان کے ساتھ ساتھ آئین سے بغاوت کرنیوالے بھی قصور میں برابر کے شریک ہیں، بندوق کے زور پر شریعت کے نفاذ کے قائل نہیں لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد میں بیورو کریسی رکاوٹ ہے، ایک فون پر ملک کو دہشتگردی کی آگ میں جھونکنے والوں کیلئے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ،بیان

منگل 21 جنوری 2014 05:32

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21جنوری۔2013ء)جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے سوا کوئی دوسرا آپشن امن کے حصولوں کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیگا، وقت آگیاہے ان حالات کا سدباب کیا جائے جس نے طالبان کو جنم دیا، طالبان کے ساتھ ساتھ آئین سے بغاوت کرنیوالے بھی قصور میں برابر کے شریک ہیں، بندوق کے زور پر شریعت کے نفاذ کے قائل نہیں لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد میں بیورو کریسی رکاوٹ ہے، ایک فون پر ملک کو دہشتگردی کی آگ میں جھونکنے والوں کیلئے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ۔

ترجمان جان اچکزئی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آئین کی بات کر نے والے یہ بات بھول گئے ہیں کہ جتنے طالبان آئین کی خلاف ورزی کر تے ہیں اتنے ہی ان میں آمر بھی شامل ہیں جن کو آج بھی وی آئی پی پروٹوکول دیا جارہا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا ہے کہ ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے والے طالبان ہی نہیں بلکہ اور لوگ بھی ہیں جن کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے اور وہ عسکریت پسند بھی ہیں، گڈ اور بیڈ طالبان کی اصطلاح ہم نے ایجاد نہیں کی ۔

انہوں نے کہا ہے کہ اگرچہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ پر تشدد کاروائیوں کے ذریعے شریعت کا حصول ناقابل قبول ہے لیکن دوسری جانب بیوروکریسی آج بھی آئین میں مانی گئی شریعت کو نافذ کر نے میں رکاوٹ ہے اور وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں قانون سازی کے لئے تیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ معافی کی بات تو چھوڑیئے امریکہ کے ایک فون پر ملک کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونکنے کی غلطی تسلیم کر نے کے لئے بھی ہم تیار نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو مذاکرات کے حوالے سے ناکامی کا تاثرکا نہیں دینا چاہیے اور اپوزیشن کو بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر نے کی ضرورت نہیں ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت مطالبات کرنے کے علاوہ اپنا کو ئی حصہ نہیں ڈال سکتی ۔تاہم مسئلے کا حل مذاکرات میں ہے اور فریقین کو لچک دکھانی ہوگی کیونکہ ملک میں قیام امن ناگزیر ہے ۔

متعلقہ عنوان :